رفعت قادر حسن 31 دسمبر 1937ء میں ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ رفعت کے والدین شملہ سے پاکستان کے بعد ہجرت کر کے سیالکوٹ آن بسے۔ رفعت نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ ان کی شادی مشہور کالم نویس عبدالقادر حسن سے اگست 1972ء میں ہوئی۔ دو بچے ہوئے۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔
رفعت کے بقول: ’’ان کے گھر کا ماحول ادبی تھا۔ گھر میں اخبار رسالے آتے تھے، جن کو پڑھ کر لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ پہلے اردو میں لکھا کیوں کہ مادری زبان اردو تھی۔ ایک بار کراچی میں کسی نے طنز کیا کہ آپ رہتی پنجاب میں ہیں اور پنجابی آپ کو بولنی اور لکھنی نہیں آتی…… تو میں نے اس بات کو چیلنج سمجھا اور اپنا سارا دھیان اور توجہ پنجابی ادب کے مطالعے میں لگا دی۔ پنجابی ادب پڑھ کے میں نے بہت انجوائے کیا اور میں نے پنجابی میں لکھنا شروع کر دیا لیکن گھر والوں کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ’’ناہید‘‘ کے قلمی نام سے افسانے لکھتی رہی۔ جب پنجابی میں معیاری افسانے لکھنے پر گھر والوں نے بھی پسند کیا، تو پھر لکھنے کا سلسلہ ’’رفعت‘‘ کے نام سے جاری رہا۔‘‘
رفعت نے بطورِ پیشہ صحافت کو سلیکٹ کیا اور ’’نوائے وقت‘‘ اخبار میں ملازمت کی اور کالم بھی لکھتی رہیں۔ انھوں نے شاعری بھی کی۔ ان کے کہنے کے مطابق میرے گھر کے 9 رشتہ دار، والدین، بہن بھائی اور بہنوئی ایک سال میں فوت ہوئے، تو میں نے ’’کیتھارسس‘‘ کے لیے شاعری شروع کر دی۔ رفعت کے افسانوں کا مجموعہ ’’اک اوپری کڑی‘‘ 1968ء میں چھپا۔ اس کے بعد ’’بتی والا چوک‘‘ چھپ چکا ہے۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید رقمطراز ہیں: ’’رفعت اپنی کہانیوں میں مردوں میں رہ کر عورتوں کے حقوق کی بات کرتی ہیں اورعورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا بھی ذکر کرتی ہیں۔‘‘
رفعت کے افسانوں پر تبصرہ کرتے ہوئے سجاد حیدر ’’چونڑویں کہانی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پنجابی ادب میں حقیقت نگار افسانہ نگاروں میں رفعت کا نام سب سے پہلے پڑھنے والوں کے منھ پر چڑھا اور پھر اس کے قلم کی سچائی کی وجہ سے دلوں میں اتر گیا۔‘‘
خواتین افسانہ نگاروں کے ساتھ عام طور پر یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ یا تو ریتوں کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ان کا قلم تہذیب سے شرماتا رہتا ہے یا مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کاجذبہ ان کے قلم کو اس قدر آزاد اور بے باک کر دیتا ہے کہ قاری کے لیے ان کا ساتھ نبھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر جس طرح بعض مرد لکھاری جاری روایات کے خلاف بغیر کسی جواز اور بنا کسی دلیل کے بات کر کے پڑھنے والوں کی نظروں میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض عورتیں بھی "Femnism” کے جذبے کے تحت نئی آزادی کی کھلم کھلا حمایت کر کے اپنے قاری کو چونکانے کی کوشش کرتی ہیں۔ پنجابی افسانوں میں یہ مسئلہ دونوں صورتوں میں موجود ہے، لیکن ذرا سنبھلے ہوئے انداز میں۔ مثلاً ’’اک اوپر کڑی‘‘ میں رفعت ڈرامائی اور رومانی انداز اختیار کر کے مردوں ا ور عورتوں کو دو طبقوں میں بانٹ کر عورتوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں اور ایسا کرتے وقت جبر کو بیان کرتے ہوئے کہیں کہیں ان کا لہجہ تیز اور تیکھا بھی ہو جاتا ہے۔
رفعت کے افسانوں میں زیادہ تر عورتوں کی مجبوریوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔