ہم پاکستانیوں میں یہ بہت بری عادت ہے اگر کوئی اچھا کام بھی کرے، تو اس کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہم اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں۔ اسے سازش قرار دیتے ہیں اور اس میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ بظاہر برا کام تو برا ہی ہوتا ہے۔ ہماری یہ عادت اکثر اوقات ہمارے نقصان کا باعث بھی بنتی ہے، لیکن ہم ہیں کہ اس خوئے بد سے باز نہیں آتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت میں ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہوتا ہے اور اختلافِ رائے کو ہی جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اختلافِ رائے مثبت انداز میں ہونا چاہیے نہ کہ یہ تنقید برائے تنقید کی نذر ہو۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں نگران حکومت کا تصور نہیں ہے۔ یہ کام منتخب وزیر اعظم کا ہوتا ہے کہ وہ انتخابات کرائے، لیکن وہ الیکشن کا ہر معاملہ الیکشن کمیشن کو سونپ دیتے ہیں۔ افسوس کہ پاکستان میں منتخب وزیر اعظم کو اس شک کی بنیاد پر کہ وہ انتخابات میں دھاندلی نہ کرے، کو اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ نگراں وزیر اعظم کی نامزدگی بھی منتخب وزیر اعظم کے اختیار میں نہیں بلکہ اس کے لیے بھی وہ اپوزیشن لیڈر کے مشورے کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن لیڈرراضی نہ ہو، تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے۔ اور اگر پارلیمانی کمیٹی بھی نگراں وزیر اعظم کی نامزدگی پر متفق نہ ہو، تو پھر یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کو پوری کرنا پڑتی ہے۔
آئین کے مطابق قائم ہونے والی ہر نگراں حکومت کو سیاسی جماعتیں اور عام لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بعض اوقات نگرانوں کی نامزدگی کو سازش کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور ہر کوئی نگراں حکومت کے کاموں میں کیڑے نکالنے میں لگ جاتا ہے۔ عام محفلوں میں عجیب و غریب شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی مرضی کے تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا یہ طرزِ عمل قومی انتخابات پر بہت حد تک اثرانداز ہوتا ہے اور عام آدمی ایمان داراور مخلص نمائندے کو ووٹ دینے کے معاملے میں تذبذب کا شکار ہوتا ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ اس دفعہ سخت احتساب ہوگا اور تبھی قومی انتخابات ہوں گے۔ جب کہ بعض لوگ موجودہ نامزد حکومت پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کروانے کا الزام لگا رہے ہیں۔ کچھ ان کے کاموں میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر ہمیں شک ہوتا ہے۔ ہم ان میں ایسے کیڑے نکالتے ہیں جیسے کہ ہم ججوں سے زیادہ قانون اور قانون کی باریکوں کو جانتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کو بعض سیاسی رہنماؤں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ ایک طرف ہم عدالتی فیصلے پر خوشی مناتے ہوئے ڈھول کی تاپ پر نچاکر فیصلے کو اپنی فتح قرار دیتے ہیں،لیکن اگر کبھی عدالتی فیصلہ ہمارے خلاف آئے، تو ہم اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے ججوں کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہیں اور ان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں کہ ججوں کو ہمارے خلاف فیصلہ کرنے کا اوپر سے حکم ملا تھا۔

عدالتی فیصلوں پر ہمیں شک ہوتا ہے۔ ہم ان میں ایسے کیڑے نکالتے ہیں جیسے کہ ہم ججوں سے زیادہ قانون اور قانون کی باریکوں کو جانتے ہیں۔ (Photo:Emerging Europe)

نیب کا ادارہ اگر سندھ میں کارروائی کرے، تو وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔ اور اگر یہ پنجاب میں کارروائی کرے، تواسے ایک سیاسی جماعت کے خلاف سازش قرار دیا جاتا ہے۔ نیب کی کارروائی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس میں کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ پنجاب کی بیورو کریسی کو نیب کے خلاف ہڑتال اور احتجاج پر اُکسایا جاتا ہے جو ایک قومی ادارے کی تضحیک کے مترادف اور قوم کے لیے باعثِ نقصان ہے۔
اس طرح ہمارے ہاں اگر کوئی فلاحی کام بھی کرے، تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس میں کیڑے نکالے جاتے ہیں اور طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہیے تھا اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مرحوم عبدالستار ایدھی کو انہی الزامات کی وجہ سے ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جانا پڑا۔ عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کو بھی نہیں بخشا گیا اور اس کو نقصان پہنچانے کے لیے اس میں دھماکا بھی کر ڈالا۔ اب جب رمضان کے آخری عشرے میں عمران خان اپنے گھر والوں کے ساتھ سعودی عرب عمرے پر گئے، تو اس نیک کام کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اس میں بھی کیڑے نکالے جانے لگے۔ کسی نے نجی ائیر لائن استعمال کرنے پر اعتراض کیا، کسی نے ایک سفر پر کروڑوں روپے خرچ کرنے پر سوال اُٹھایا، کسی کا زلفی بخاری کا نام ای سی ایل لسٹ میں ہونے کے باوجود ساتھ لے جانے پر اعتراض، ریحام خان سے عمران خان کی شادی کو یہودی ایجنڈا اور ریحام خان پرایم آئی سکس کے لیے کام کرنے کا شک، جب کہ عمران خان کی سیاست میں آنے کو بھی یہودی ایجنڈا قرار دیا گیا۔ اگر پاکستان میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو جائے، تو اس کو سیکورٹی کے اداروں اور آئی ایس آئی کی کار ستانی سمجھا جاتا ہے جو کہ ہماری بے حسی کی انتہا ہے۔
اگر کوئی عوامی نمائندہ، وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کسی عوامی مفاد کے منصوبے کا افتتاح کرے، توبھی ان پر کمیشن لینے، اپنوں کو نوازنے کے بے جا الزامات لگا کر اُس منصوبے میں کیڑے نکالے جاتے ہیں کہ اس منصوبے کی یہاں کوئی ضرورت نہ تھی، یہ فلاں جگہ شروع ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح ہم ہر اچھے برے کا م پر شک کرتے ہیں۔ اُسے سازش کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس میں کیڑے نکالتے ہیں۔ جب تک ہم شک، سازش اور کیڑے نکالنے کے خوئے بد سے اجتناب نہیں کریں گے، تب تک پوری قوم کی زندگی عذاب میں گزرے گی۔

………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔