عرصہ پہلے ایک شام کو میں ڈاکٹر ضیاء اللہ خان کے امانکوٹ والے کلینک میں بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا، تاکہ اپنے پوتے کا اُن سے معائنہ کروا سکوں۔ میرے قریب ہی لکڑی کے بینچ پر ایک شخص بیٹھا تھا جس کے لباس اور شکل سے بے چارگی اور غربت جھلک رہی تھی۔ اسی طرح کی انتظار گاہوں میں اکثر اجنبیوں کے درمیان بھی مکالمہ شروع ہوجاتا ہے اور بہت جلد بے تکلفی سی درمیان میں آجاتی ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ تلیگرام سے آگے ایک گاؤں کا رہنے والا ہے۔ تلیگرام کا نام سنتے ہی میں نے اُس سے پوچھا: ’’اَکا‘‘ کو جانتے ہو؟ ’’کیوں نہیں۔‘‘ اُس نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر جواب دیا۔ پھر روہانسی آواز میں کہنے لگا کہ اُن کا تو انتقال ہوچکا ہے۔ میں نے پوچھا: ’’کب؟‘‘ جواب ملا کہ ایک مہینہ تو گزرا ہوگا۔
میرے گلے میں ایک بڑا سا گولہ کہیں سے آکر پھنس گیا اور میں بات کرنے سے قاصر رہا۔ کچھ دیر بعد جب ذرا اوسان بحال ہوئے، تو اس شخص نے بتایا کہ میں کئی سال تک ’’اَکا‘‘ کا نوکر رہا ہوں۔ میرے بچے گاؤں میں رہتے تھے۔ وہ ضد کرتے تھے کہ ہمارے لیے ایک بھینس خریدو۔ ہر گوجر کے گھر میں گائے یا بھینس ہے اور ہمارے پاس نہیں۔ میں نے اَکا سے ذکر کیا، تو انھوں نے مجھے تیس ہزار روپیہ دیتے ہوئے کہا کہ جاؤ، اپنے بچوں کے لیے ایک اچھی سی بھینس خریدو۔ جب تمھارے پاس پیسے آگئے، تو مجھے واپس کر دینا۔ ان دنوں اتنی رقم میں ایک اچھی دودھیل بھینس آسکتی تھی۔ بچے بھینس دیکھ کر بہت خوش ہوگئے اور ننھے ننھے ہاتھ اُٹھاکر اَکا کو دعائیں دینے لگے۔ میں نے بڑی محنت کی مگر کسی طرح سے بھی اتنی بڑی رقم جمع نہ کرسکا۔ اچانک اَکا کا انتقال ہوگیا۔ مجھے پتا چلا تو فاتحہ کے لیے تلیگرام آگیا۔ ایک ہفتہ بعد پھر حاضری دی۔ اُن کے بیٹے اسماعیل اور ثناء اللہ اور عبداللہ شاہ موجود تھے۔ شام تک اُن کے ساتھ بیٹھا رہا۔ مجھے ساری رات نیند نہیں آ رہی تھی۔ سوچ رہا تھا کہ کس طرح ان پیسوں کا بندوبست کروں، تاکہ اَکا کی روح کے آگے شرمندہ نہ ہوں۔ میں گھر گیا اور بھینس کی رسی کھول کر لے جانے لگا، تو بچے رونے لگے مگر میں نے دل کڑا کرکے انھیں سمجھایا اور بھینس قریبی گاؤں ایک گوجر کے ہاتھ بیچ کر پیسے لائے اور ان کے صاحب زادوں کے آگے رکھ دیے۔ انھوں نے ساری بات سنی، تو کہنے لگے کہ ’’یہ پیسے لے جاؤ اور بھینس واپس گوجر سے لے کر بچوں کو دے آؤ۔‘‘ انھوں نے ایک رجسٹر منگوائی اوراق اُلٹ پلٹ کر ایک جگہ میرے نام کے آگے لکھا ہوا تیس ہزار روپیہ کاٹ کر اس کے آگے ’’معاف‘‘ لکھ کر دست خط کر دیے۔ اس پر بس نہیں کیا بلکہ مزید دس ہزار روپیہ دے دیے کہ اس سے بچوں کے لیے کچھ کپڑے وغیرہ خرید لینا۔
وہ شخص اچانک خاموش ہوا اور اُس کے گالوں پر موٹے موٹے آنسو بہنے لگے۔ وہ بے آواز روتا رہا اور میرے گلے میں پھنسا ہوا گیند اوپر نیچے حرکت کرنے لگا۔ اَکا عجیب غریب پرور انسان تھا۔ جتنا اس کے بارے میں سوچتا رہا، میں حیرت زدہ ہوتا گیا۔ یا خدا، یہ شخص کس مٹی کا بنا ہوا تھا! میں نے اس کے ساتھ کتنی زیادتیاں کی تھیں۔ ایک ایک کرکے یاد آتی گئیں، مگر وہ ہمیشہ اچھائیاں ہی کرتا رہا۔ میرے ساتھ بھی اور دوسروں کے ساتھ بھی۔ جب بھی میرے سیکشن میں اُن کا کوئی ٹھیکا آتا تھا، نہ جانے کیوں میں اس کے ساتھ سختی ہی کرتا۔ مگر اس کی عظمت دیکھیے کہ اس نے سب کچھ برداشت کیا اور کبھی شکایت نہیں کی، نہ افسروں سے اور نہ میرے ساتھیوں سے گلہ ہی کیا۔
’’اَکا‘‘ کا نام سید سلطان سکندر تھا۔ اس کا ایک ہی بھائی ہے ’’شاہ جہان پاچا‘‘ جو تلیگرام ہی میں خوڑ کے اُس پر اپنے باغ میں بنے ہوئے ایک خوبصورت گھر میں رہتا تھا۔ یہ اہلِ سادات کے معزز قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جو انھی پہاڑوں اور وادیوں میں پھیلے ہوئے ہیں،جنھیں ’’ملم جبہ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’جہان آباد‘‘ سے لے کر جبہ ٹاپ تک اس معزز خاندان کی جائیداد پھیلی ہوئی ہے۔
’’اَکا‘‘ کا حجرہ تلیگرام میں سڑک سے کچھ فاصلے پر اُونچائی میں واقع ہے۔ اس حجرے کے صحن میں اخروٹ کا ایک پرانا درخت ہے۔ اس کے اخروٹ اتنے نازک ہیں کہ زمین پر گر کر کُھل جاتے ہیں۔ دو انگلیوں کے ہلکے سے دباؤ سے پوری گری نکل آتی ہے۔ ’’اَکا‘‘ ہر سال اسی اخروٹ کے فصل میں میرا حصہ ضرور کرتا اور خود ہی لاکر مجھے دیتا تھا۔ بدخواہوں نے کئی بار اُن کو کہا کہ دیکھو یہ ’’فضل رازق‘‘ کتنی سختی سے تمھارے ساتھ پیش آتا ہے۔ وہ کہتا کہ ’’فضل رازق‘‘ ٹھیک کام کرتا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں کہ ان کی تسلی کرسکوں۔
ہم جب بھی بچوں کو لے کر ملم جبہ جاتے، ’’اَکا‘‘ کے گھر سے دھی کی ہانڈی ضرور لیتے۔ میرے مہمان اگر سیر کے لیے جاتے، تب بھی ’’اَکا‘‘ کا حجرہ اُن کے لیے کھلا ہوتا۔ ایک دفعہ گورنر انسپکشن ٹیم کے لیے ملم جبہ کا پروگرام رکھا گیا۔ چوں کہ میں اُس علاقے کا سکیشنل آفیسر (Sectional Officer) (نوٹ: یہ سیکشن آفیسر نہیں جو سیکرٹریٹ میں ہوتے ہیں)۔ مجھے ان کے کھانے کا بندوبست کرنے کو کہا گیا۔ میں نے ’’اَکا‘‘ کو سب کچھ بتایا اور یہ بھی کہ’’اَکا، میری مالی پوزیشن خراب ہے۔ اب آپ کو میری لاج رکھنی ہے۔‘‘ اور جب ہم افسرانِ بالا کے ساتھ ٹاپ پر گئے، تو ’’اَکا‘‘ کے انتظامات دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ایسی ضیافت کا بندوبست کیا گیا تھا جو صرف بادشاہوں کے لیے ہی کیا جاسکتا ہے اور یہ کہ ایک بادشاہ ہی کرسکتا ہے۔
’’اَکا‘‘ واقعی بادشاہ تھا اور سچ مچ کا ’’سید سلطان سکندر۔‘‘ وہ سید بھی تھا جو تمام قبیلوں سے افضل ہے اور سلطان بھی تھا اور سکندرِ اعظم جو دلوں کو فتح کرنے والا تھا۔ خدا اُس کی قبر کو نور سے بھر دے، (آمین )۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔