آہن گر یا دروزگر سماجی تاریخ کے آئینہ میں

انگریزی کا آئرن، عربی کا حدید، ہندی کا لوہا اور فارسی ز بان کا لفظ آہن ایک ہی قسم کی مضبوط دھات کے مختلف نام ہیں، جسے گرم کیا جاتا ہے اور کوٹنے کے بعد اس سے مختلف اوزار بنائے جاتے ہیں۔ یہ شے ہزاروں سال سے انسان استعمال کرتا آیا ہے۔ مثلاً ایک ہزار قبل مسیح کو حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بکتر یعنی لوہے کا جنگی لباس بنانا جانتے تھے۔ پرانے زمانے کے لوگ زرعی، شکاراور جنگ کے اوزار اس سے بناتے تھے۔ اس لیے اس کی اہمیت ہر زمانے میں مسلم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ روس کے سپر طاقت ہونے کا راز بھی یہی لوہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی اہمیت کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی اس کا بھر پور استعمال ہوتا آیا ہے۔
پشتون معاشرے میں اس کے متعلق ہنر مند کو ’’آہن گر‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ آہن ‘‘ فارسی میں لوہے اور ’’گر ‘‘ بنانے والے کو کہتے ہیں ، یعنی لوہے کے اوزار بنانے والا۔ ان کے چھوٹے گاؤں میں ایک اور بڑے گاؤں میں تین چار گھرانے ہوتے تھے۔ یہ لوگ کسی چم یا پلو (محلہ) کے ٹل (برادری) کے لیے مختلف اوزار مرمت اور تیز دھار بناتے تھے۔یہ اوزار شکار، جنگ، گھریلو استعمال اور زراعت کے ہوتے تھے۔ بدلے میں ٹل کے لوگ انہیں مشترکہ زمین کاشت کے لیے دیتے تھے،یعنی وہ اس زمین کے عوض مالکوں کے ہَل، پھاوڑے، کدال، کلہاڑی، تلوار، چھری، درانتی، کھرپے اور بیلچے وغیرہ کی مرمت کرتے تھے۔ طریقۂ کار کچھ یو ں تھا کہک اگر کوئی کسان یا زمین دار اپنا لوہا ساتھ لاتا، تو وہ اس کے لیے نیا اوزار بناتے تھے اور اگر آہن گر اپنا لوہا بروئے کا ر لاتا، تو اس صورت میں صرف لوہے کی قیمت لیتا تھا۔ باقی مزدوری کسب میں شمار ہوتی تھی۔ چوں کہ اوزار بنانے میں لکڑی کا استعمال بھی تھا، اس لیے وہ آہن گر کے ساتھ ساتھ دروزگر بھی کہلاتا تھا۔ یہ نام دراصل درو۔ از۔ گر ہے۔ ’’درو‘‘ درخت یا پیڑ ہے، ’’از ‘‘ کا مطلب سے ہے اوزار اور ’’گر‘‘ جس طرح بنانے والے کا لاحقہ ہے۔ مراد لکڑی سے اوزار بنانے والا لی جاتی ہے۔ چوں کہ وہ دونوں کاموں میں مہارت رکھتے تھے اس لیے انہیں آہن گر و دروزگر کہا جاتا تھا۔ اس طرح شادی بیاہ میں الماری، تختہ پوش، ’’ڈول ڈینگ‘‘ اور ’’تونڑئی‘‘ وغیرہ کا کام بھی ان کے ذمہ تھا، جن کے لیے مالک لوگ سلیپر فراہم کرتے تھے۔ کاریگر صرف رندے کے کام کا معاوضہ لیتا تھا ۔
اس بابت حضرت منیر عرف جانان کہتے ہیں کہ جس کام میں رندہ استعمال ہوتا تھا، اس میں کاریگر معاوضہ لیتا تھا جس کا معاہدہ پہلے سے ہوچکا ہوتا تھا۔ باقی مسجد کا کام، مکانوں کی لکڑیوں کی خراش تراش اور باقی سارے کام جس کا تعلق لکڑی سے تھا، سب کے سب کسب کے زمرے میں آتا تھا۔ یہ لوگ اعلیٰ قسم کا فرنیچر بناتے تھے جس پرمختلف قسم کے نقش و نگار کندہ کاری کے ذریعے کرتے تھے۔ حیران کن طور پر ’’تونڑئی‘‘ بنانے جیسا مشکل کام بھی کسب میں شامل تھا۔
مختلف فنون میں ید طولیٰ رکھنے والاآہن گر، دروزگر اپنی بھٹی کے اندر گرم کیے ہوئے کوئلہ میں لوہار کھتا، اُسے خوب گرم کرتا، اُس کے بعد اُسے سنڈا سی (چمٹا) سے پکڑکر بھٹی سے باہر نکالتا، پھر اُسے سندان پر رکھتا اور ہتھوڑے یا ماتول سے اُسے ایسا مؤثر ضرب لگاتا کہ لوہا کوٹتے کوٹتے پتلا ہو جاتا۔ پھر اُس سے جس طرح چاہتا مختلف اوزار بناتا تھا۔ غورکیا جائے کہ لوہے کی موٹی موگری میں ٹونکے گئے لکڑی کا دستہ لوہے سمیت اٹھا اٹھا کر سندان پر مارنا ایک محنت کش لوہار کے صبر اوربرداشت کا کتنا امتحان لیتا ہوگا۔
بقولِ جہان فیروز، وہ لوہے کو گیلی مٹی سے ویلڈ کرتا جسے وہ گرم بھٹی میں رکھتا اور یہ ویلڈنگ اس قدر مضبوط ہوتی کہ اوزار دوسری جگہ ٹوٹ سکتا تھا لیکن ویلڈنگ سلامت رہتی۔ اس صورت میں ایک لوہار کی محنتِ شاقہ کیوں رنگ نہ لاتی۔ تبھی تو یہ کہاوت مشہور ہوئی ہے: ’’سوسنار کی، ایک لوہار کی۔‘‘ پشتو مثل کے مصداق، محض ناک کالی کرنے سے کوئی آہن گر نہیں بن پاتا۔ ان میں سے بعض تو محمدگل آہن گر کی طرح متعدد ہنر جانتے تھے۔ جب کہ بعض دیگر عظیم خان آہن گر کی طرح مختلف خوبیوں کے ساتھ کسی ایک شے بنانے میں طاق تھے۔ جیسے کہ وہ بندوق بنانے کے ماہر تھے، جن کے آبائی رشتہ دار خوازہ خیلہ میں بندوقیں بنانے کے بہترین کاریگر ہیں۔ اس طرح بعض آہن گر پانی کی ندی کے اوپر مکئی اور گندم پیسنے کے لیے پن چکی بٹے پر حاصل کرتے اور چاول یعنی دھان سے بھوسا الگ کرنے کے لیے ’’پائکو‘‘ بناتے۔ وہ اپنے حصے کے غلے سے مزکی شکل میں وصول کرتے اور مالکوں کو بھی اُن کا حصہ غلے کی شکل میں ادا کرتے۔ ’’پائکو‘‘ اور ’’پن چکی‘‘ چرخ سے چلتی تھی جسے پانی گھماتا تھا۔ آہن گر لوگ اس کی مرمت کرتے اور اسے کام کے قابل بناتے تھے۔ علاوہ ازیں یہ لوگ کاشت کاری کے اوزار بناتے بناتے کھیتی باڑ ی میں بھی اچھے خاصے ماہر ہوگئے تھے۔ جیسا کہ عظیم خان مع کسب کھیت کھلیان کرنے اور بھینس پالنے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ وزیر گل اعلیٰ ذات کی گائے پالتے تھے جس کے چارے کے لیے وہ بٹے پر زمین لیتے تھے ۔
تاریخی کتب میں تمام کسب گروں کے لیے ’’فقیر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سوات کے 80 فی صد فقیر لوگ پرانے سواتی ہیں جو اپنے عروج کے زمانے میں زرعی اورنہری نظام کی وجہ سے مشہور تھے۔ آب پاشی کے اُن بہترین نہروں کا مشاہدہ آج بھی مختلف گاؤں میں کیا جاسکتا ہے جسے اِن ہنر مندوں نے اپنے زمانے میں تعمیرکیا تھا۔ اگرچہ کسب بدلاجاسکتا ہے۔ پھر بھی کسب گروں میں اکثریت اُن کی ہے جو صدیوں سے کسب کرتے آئے ہیں اور جنہیں کام کی اجرت کی خاطر زمینیں دی جاتی تھیں، لیکن مالکوں کی رضا مندی کی شرط پر کہ وہ جب چاہتے انہیں کسب سے بے دخل کرسکتے تھے۔

تاریخی کتب میں تمام کسب گروں کے لیے ’’فقیر‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے. (Photo: icws.pk)

حضرت منیر کے مطابق مالکوں کی یہ کوشش ہوتی کہ کوئی شخص لمبی مدت تک زمین زیرِ کاشت نہ لاسکے۔ یہ اس لیے کہ نسل درنسل استعمال کرنے کے بعد وہ اُسے چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوگا، لیکن میرے نزدیک کسب گر بدلنے کی سب سے بڑی وجہ ’’کوچی ویش‘‘ کا نظام تھا۔
پرانے سواتیوں یا آہن گروں کو درمیانی درجہ کی معاشرتی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اِن کا پرانے سواتی ہونے کا ثبوت پیش کرنے کے لیے راقم مٹہ میں موجود اپنے گاؤں کے باشندہ عمر زادہ کے پاس گیا اور اُن سے دریافت کیا۔ انہوں نے اپنے دادا ایام نور تک درشخیلہ میں اپنی موجودگی کا اظہار کیا۔ پر دادا حضرت نور یخ کوھے بیدرہ میں رہائش پذیر تھے اور مزار اُن کا چل گزی قبرستان میں ہے۔ اس طرح حضرت نور کے والد غواث نور اور اُن کے والد سید نورسے آگے انہیں علم نہیں تھا۔ البتہ مختلف گاؤں میں پدر سری رشتہ داروں کے کوائف وہ خوب جانتے تھے جو مختلف گاؤں میں گو ناگو پیشوں سے وابستہ ہیں۔ تاہم قوم کے حوالے سے وہ پرانے سواتی ہونے کی نشان ندہی نہ کرسکا۔ یہ ان کے لیے آسان بھی نہ تھا۔ کیوں کہ روایت کے مطابق یہ لوگ ٹل کے حساب سے فی گھرانہ ایک گاؤں میں رہتے تھے جب کہ ان کا بھائی کسی دوسرے گاؤں میں۔ اس طرح جب خاندان کے افراد کی تعداد بڑھ جاتی اورایک ٹل میں ان کا گزر بسر مشکل ہوجاتا، تو ان کے بیٹے دیگر دیہات میں روزگار کے لیے نقلِ مکانی کر تے تھے اور اپنے لیے علیحدہ ٹل تلاش کرتے تھے، جس کی وجہ سے خاند ان کاشیرادہ بکھرتا جاتا تھا اور ان کی نسلی یا قومی پہچان کسبی شناخت بن جاتی تھی، جس کا ان کے ساتھ کسی قوم کی نسبت کرانا بہت مشکل کام ہوتا۔ لیکن وکیل حکیم زئی کے مطابق عمرزادہ کا خاندان سلیمان خیل ہے جو سواتیوں کے زمانے میں حکمران خاندان تھا۔ موصوف اِن کے ظاہری خدوخال کو بھی پرانے سواتیوں سے تعبیر کرتے ہیں ۔
انظرگل ماما، ظریف گل، وزیر گل، محمد گل، عظیم خان، ہمیش گل، انظر ملنگ، چڑی ماما، جعفر خان، صاحب طوطا، رحم غنی وغیرہ ہمارے گاؤں کے مشہور آہن گر و دروزگر تھے۔یہ لوگ اپنے زمانے میں استاد مانے جاتے تھے۔ آج ان کی اولاد بھی مختلف فنون میں استاد ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ اگر چہ پرانا نظام مکمل بدل چکا ہے، پھر بھی یہ لوگ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فرنیچر کے بڑے بڑے شورومز، ہارڈوئیر کی دکانوں اور اعلیٰ قسم کی عمارتی ہنرمندی کے مالک ہیں۔اس ضمن میں ہم جانان ہارڈوئیر، محمد صالح کی آہن گر کی دکا ن، عمرزادہ،جمشید علی اور محمد علی کے فرنیچر شورومز، جہان فروز کی مختلف ہنرمندیوں کے ساتھ ساتھ رباب بنانے کا فن اور ظاہر شاہ وپرویز کے مستری ہونے کو بطور نمونہ پیش کرسکتے ہیں۔ الغرض، سوات میں جتنے فنون ہیں ان میں 70فی صد آہنگر یا دروزگر ملوث ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک اُن کے ہنرمند ہاتھوں کو ملک وقوم کے فائدے کے لیے استعمال فرمائے، آمین!

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔