2013ء کے عام انتخابات میں عمران خان صاحب کی پارٹی ’’پی ٹی آئی‘‘ نے بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم پورے ملک میں صرف خیبر پختون خوا کے عوام نے انہیں حکومت کرنے کا موقع دیا۔ وہ بھی اس امید پر کہ جو دعوے موصوف کر رہے ہیں، اگر انہیں حقیقی شکل مل جائے، تو پختونخوا کے عوام کو ریلیف ملے گا۔ جناب عمران خان صاحب نے الیکشن مہم میں سب سے زیادہ توجہ ایک بات پہ دی تھی کہ ’’ہم تبدیلی لائیں گے۔‘‘ عوا م نے بھی تبدیلی دیکھنا تھی۔ لہٰذا ان کی پارٹی کو منتخب کیا گیا۔ مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تبدیلی سرکار کی حکومت اب تک اپنا کوئی بھی ایسا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، جو پختون خواکے عوام کی زندگی میں کوئی انقلاب لے آتی ہو۔ خاں صاحب جلسوں میں چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ ہم کرپشن ختم کریں گے، مگر موصوف اب تک اپنی پارٹی کے وزار اور وزیر اعلیٰ پر لگے کرپشن کے الزامات کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ کرپشن کے خلاف تبدیلی سرکار نے پانچ سال میں کوئی ایسی حکمت عملی نہیں اپنائی، جس سے کرپشن میں کمی آئی ہو۔ اس سے ہٹ کر موصوف نے سینٹ الیکشن میں اپنی پارٹی کے کئی ممبران کو پارٹی سے نکالنے کا کہا تھا، مگر اب تک وہ ممبر ان اپنے عہدوں پر اسی طرح براجمان ہیں۔
اس طرح عمران خان صاحب کہا کرتے تھے کہ ہم ایسا بلدیاتی نظام متعارف کریں گے کہ عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہوں گے۔ یہ بھی محض ایک جھوٹا وعدہ ہی ثابت ہوا۔ بلدیاتی ممبران کو اختیارات ملے، نہ انہیں مطلوبہ فنڈز ہی مل سکے۔ البتہ انہیں تاحال صرف ’’ناظم صاحب‘‘ کے نام تک ہی محدود رکھا گیا ہے۔ صحت کے شعبے کی طرف آئیں، تو بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس میں اتنا کام نہیں ہوا ہے جس کا موصوف دعوے کیا کرتے تھے۔ تعلیم کی تو اگر بات نا ہی کریں، تو بہتر ہے۔ یہ بات اگر ہمارے ضلع سوات تک محدود کر دی جائے، تو مثال بجا طور پر سوات یونیورسٹی کی دی جا سکتی ہے، جس کا دو بارہ افتتاح بھی ہوچکا مگر وہاں اب بھی اساتذہ اور طلبہ کرائے کی درجن بھر عمارات میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ دور کیوں جائیں؟ جہانزیب کالج ہی کی صورتحال دیکھیں، جو سب کے سامنے ہے۔ ایک تاریخی عمارت تو مسمار کر دی گئی، جس کے لیے اہل سوات خاں صاحب اور اس کی پارٹی کو تاقیامت معاف نہیں کریں گے، مگر اب نئی عمارت کا کیا ہوگا، خاں صاحب کو اس سے کیا؟ اس کے علاوہ ان سکول اور کالجز کا بھی روئے زمین پر دور دور تک کوئی نشاں نہیں، جن کے موصوف دعوے اور وعدے کیا کرتے تھے۔ تبدیلی سرکار کو پتا ہونا چاہیے کہ تعلیم میں ’’انقلاب‘‘ صرف ایک عدد بائیو میٹرک سسٹم لگانے سے نہیں آتا۔
اس کے علاوہ عمران خان صاحب خود بھی سپورٹس مین رہ چکے ہیں۔ کھیل کے میدان میں بھی خان صاحب خیبر پختونخواہ کے لیے کچھ خاس نہ کرسکے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ہر یونین کونسل میں پلے گراؤنڈ بنائیں گے۔ اتنی لمبی چھوڑنے کے بعد جب عمل کا وقت آیا، تو
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
روزانہ کوئی نہ کوئی احتجاج کرنے نکلا ہوگا ۔ کبھی کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ والے، تو کبھی کلاس فور ملازمین۔ اس طرح اساتذہ کی مشکلات بھی کم نہ ہوئیں، مزدور کو بھی پانچ سال میں کچھ نہیں ملا، پشاور میٹرو پراجیکٹ نہ بن سکا، الٹا پشاور کا ایسا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے کہ اس کو سنوارنے کے لیے شائد خاں صاحب کو ایک اور جنم لینا پڑے، ’’سوات موٹروے‘‘ جو ختم چکدرہ پر ہوتی ہے، بھی ٹریفک کے لیے نہ کھل سکی، تین سو پچا س ڈیم کا جو شوشا چھوڑا گیا تھا، اسے ایس آر ایس پی کے مائیکرو ہائیڈرل پاور منصوبوں سے جوڑ کر گلو خلاصی کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، ایک ارب درخت کہاں لگے ہیں؟ اس حوالہ سے بھی تاریخ خاموش ہے۔ ا لبتہ اس میں جو کرپشن ہوئی ہے، اس کے لیے کسی مردِ حُر کی ضرورت ہے کہ تحقیق کے بعد کوئی سرا ہمیں پکڑا دے، گورنر ہاؤس کولائبریری بنایا گیا نہ وزیر اعلیٰ ہاؤس پارک ہی میں تبدیل ہوا۔ وی آئی پی پروٹوکول کاخاتمہ ہوا، نہ ملم جبہ اور جامبیل، کوکارئی اور کلیل کنڈو تک روڈ ہی بن سکی۔ایک وعدہ مساجد کے امام حضرات کی تخواہوں کا بھی کیا گیا تھا۔
پنج سالہ کارکردگی کا تو یہ حال ہے۔ آنے والے انتخابات میں اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر ڈالیں۔ اللہ کرے، وہ تبدیلی ہم اپنی زندگی میں دیکھ پائیں، جس کے لیے ہم پچھلی بار بہک گئے تھے۔
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔