پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں ہمیشہ سیاسی معاملات کو پارلیمان سے باہر اور ذاتی معاملات کو پارلیمان کے اندر زیرِ بحث لایا جاتا رہا ہے۔ حکومت، اقتدار، پارلیمنٹ، عوامی عہدے ان سب کو پاکستان کی عوام کے بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے نہ صرف استعمال کیا جاتا رہا ہے بلکہ آج بھی کیا جا رہا ہے اور حیرت اس بات پہ ہے کہ اس استعمال کیے جانے پہ ڈھٹائی کا مظاہرہ بھی کمال جرأت سے کیا جا رہا ہے۔ نہ تو کسی قسم کی شرمندگی محسوس کی جاتی ہے، نہ کوئی جھجک دیکھنے اور سننے کو ہی ملتی ہے۔ اقتدار گھر کی باندی، اور حکومت نسلیں سنوارنے کا بس ایک ذریعہ ہے، اس سے آگے کچھ نہیں۔ اور نہ اس سے آگے ہمارے سیاست دانوں کی سوچ ہی سفر کر پاتی ہے۔
مستقبل کے ممکنہ وزیر اعظم (ن لیگ کے اُمیدوار) اور موجودہ وزیر اعظم اس وقت اپنے عہدوں کو ایک شخصیت کے دفاع کی وجہ سے داؤ پہ لگائے ہوئے ہیں۔ نواز شریف خود بیان دے کر ترپ کا پتا کھیل گئے، مگر موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ن لیگ کی طرف سے آئندہ اُمیدوار وزیر اعظم شہباز شریف دونوں مشکل کا شکار ہو گئے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں واضح طور پر کہا گیا کہ ممبئی حملوں سے متعلق دیا گیا نواز شریف کا بیان غلط اور گمراہ کن ہے اور حیران کن طور پر اجلاس کے دوران میں نواز شریف کی ہاں میں ہاں ملانے والے وزیر اعظم پاکستان نے بھی کسی قسم کی کوئی لچ نہیں ڈالی۔ اور قریں از قیاس یہ کہ وہ بھی شاید نواز شریف کے اس بیان سے مشکل میں آ گئے کہ نواز شریف کے حق میں بیان دیں، تو عوامی غصہ اور خلاف بیان دیں، تو خود بڑے میاں صاحب کا غصہ۔ لولی لنگڑی توجیح محترم شاہد خاقان عباسی صاحب نے پیش کی اور پریس کانفرنس کو جس بے تکے انداز سے نواز شریف صاحب کے وفادار ساتھیوں نے ڈیل کیا ، اس سے اور واضح ہو گیا کہ حکومتی سطح پر بے چینی کا عالم کیا ہے؟ پھر وزیر اعظم صاحب کی بڑے میاں صاحب سے ملاقات کے بعد ان کا لب و لہجہ بدلنا شروع ہو گیا۔ شاید کہا گیا ہو کہ تھوڑ ا خیال سرکار، ہم نے ہی آپ کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی دی ہے اور اب ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ واپس نہ لے سکیں۔ لہٰذا وزیر اعظم پاکستان نے قومی اسمبلی میں ٹوٹے ہوئے لہجے میں میاں نواز شریف کی حمایت میں تقریر داغ دی۔ کچھ ایسے ہی حالات میاں شہباز شریف کے ساتھ بھی پیش آ رہے ہیں۔ وہ ایک دوراہے پہ ہیں۔ ایک طرف بڑا بھائی، دوسری طرف مستقبل میں وزارت عظمیٰ کی کرسی۔ نہ بھائی کو ناراض کر سکتے ہیں کہ ابھی ان کا بہر حال اثر و رسوخ باقی ہے اور نہ ہی مقتدر قوتوں کی ناراضگی مول لے سکتے ہیں کہ مستقبل میں حنانِ اقتدار سنبھالنے کی بہت سی صورتیں باقی ہیں۔ سونے پہ سہاگا چوہدری نثار علی خان کے جوابی بیان نے ڈال دیا کہ بڑے میاں جی کا بیان حقائق کے برعکس ہے۔ اور پارٹی کے اندر سے ہی نواز شریف کے بیان کے خلاف دبی دبی اُٹھتی آوازوں نے بھی میاں شہباز شریف کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ بیان کے فوراً بعد ان کا ردعمل حقیقی معنوں میں ایک پارٹی صدر کا تھا، مگر اس کے فوراً بعد ان کے لہجے میں بڑے بھائی کی فرمانبرداری واضح نظر آنے لگی۔ جس میں سارا ملبہ اخبار پہ ڈال دیا گیا اور حیرت پہ حیرت کہ اخبار کے خلاف خبر کو توڑنے مروڑنے پہ کسی کارروائی کا عندیہ بھی نہیں دیا گیا۔ ڈان لیکس کے محرکات ہی ممبئی حملوں پہ بیان میں سامنے آ رہے ہیں۔ وہی ادارہ، وہی صحافی، وہی کردار۔ یعنی میاں محمد نواز شریف صاحب پیچھے دیوار آگے کھائی دیکھ کر ہر حد سے گزرنے کو تیار ہیں کہ شاید کوئی پیرا شوٹ میسر آ جائے۔ اور اس حد بندی کو توڑنے میں انہوں نے بہت سے لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے کہ وہ ایک دوراہے پہ آ گئے ہیں۔ میاں محمد شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور دیگر ن لیگی راہنما کسی واضح سمت کے بغیر صفائیاں دینے میں مصروف ہیں کہ اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں۔ اس موقع پر کم از کم وہ میاں نواز شریف کی ناراضگی تو مول لینے سے رہے۔
ملاحظہ کیجیے، ایک منتخب وزیر اعظم اپنی ہی صدارت میں ہونے والے اجلاس، اس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پہ سر جھکائے محسوس ہو رہا ہے۔ اور اُس کا قائد اسے غصیلی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ اور منتخب وزیر اعظم اپنی زیرِ صدارت ہونے والے فیصلوں کے خلاف تقاریر کرنے پہ مجبور ہے۔
دوسری جانب ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ، حکومتی جماعت کا صدر، جو وزیر اعظم پاکستان کی سیاسی پارٹی میں صدر ہے اور وزیر اعظم بھی بطور پارٹی پالیسی کوئی بیان دینے سے پہلے صدر کی اجازت لینے کا پابند ہے، اتنا مضبوط عہدہ پارٹی صدارت کا اور وہ بڑے بھائی کی محبت میں اپنا نقصان مستقبل میں کرنے پہ مجبور ہے۔ اور اُسے مجبوراً کچھ مائیک بڑے بھائی کے بیان کی حمایت میں توڑنے ہیں۔ پہلے دن کے بعد ہی اس کا لب و لہجہ بھی بدل گیا ہے کہ اسے معلوم ہے ابھی بہرحال بڑے میاں صاحب کی گرفت تو ہے پارٹی پہ اور چھوٹے بھائی اپنی مستقبل کی وزارت عظمیٰ کو ابھی سے کیسے ٹھکرا دیں؟
حالات یہ کہ میاں محمد شہباز شریف اور محترم شاہد خاقان عباسی صاحب اس وقت تمام اختیارات ہوتے ہوئے بھی بے بس ہیں۔ اور میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز شریف کوئی اختیار نہ رکھتے ہوئے بھی با اختیار ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب اور عباسی صاحب کی جان ایک ایسے شکنجے میں پھنس گئی ہے کہ شکنجہ خود گرفت ڈھیلی کر چکا ہے اور ان کی جان چھوڑ رہا ہے، مگر وہ جان چھڑوا نہیں سکتے۔ مجبور ہیں اس شکنجے میں پھنسے رہنے پہ۔ شکنجہ جان چھوڑنا چاہتا ہے، وہ چھڑوانا نہیں چاہتے۔
مجبوری کا یہ عالم ہے کہ شکنجے میں پھنسے رہنا ہی ان دونوں صاحبان کو فی الحال اپنا مفاد لگتا ہے، لیکن مستقبل کے بیانیے میں دونوں ہستیاں بڑے میاں صاحب کے بیان و بیانیے پہ واضح سمت اختیار نہ کر کے اپنا نقصان کر رہی ہیں اور یہ نقصان آنے والا وقت دکھا دے گا۔
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونےوالی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔