سمندر کا بلاوا (دوسرا حصہ)

قافلہ ہذا میں بندے تو ہیں آٹھ۔ پچھلے سفرناموں میں اکثر دوستوں کا تعارف وقتاً فوقتاً ہوتا آیا ہے۔ اس نشست میں اپنے نئے ہم سفر پروفیسر کی بات ہو جائے۔ پروفیسرسید محمدروشن مردِ کوہستانی، جسمانی لحاظ سے جوانی کے جھولے میں جھول رہے ہیں۔ عمرِ رفتہ کے حساب سے پچاس کے پیٹے میں قدم رکھنے والی تاریخ کے چنیدہ چنیدہ بزرگانِ علم و آگہی کے ’’گینگ‘‘سے وابستگی رکھتے ہیں۔ آپ کے جدِ امجد کا تعلق کوہستان کے مردم خیز علاقے سے جوڑ اجاتا ہے اور شجرہ مبارک سینہ بہ سینہ سیدوں سے ہوتا ہوا سیدوں کے وفاداروں سے جا ملتا ہے۔ آپ کے فرمان کے مطابق آپ کی ولادت پچھلی صدی کی ستر کی دہائی میں ہوئی۔ بچپنے ہی میں ’’با سر و باسامانی‘‘ کی حالت میں بوریا بستر گول کرکے علم کی ’’بھوک‘‘ مٹانے نکلے اور مہاجرت کی کڑوی گولی نگلتے ہوئے مینگورہ شہر ’’عارضی نقلِ مکانی‘‘ اختیار کی۔ ’’ناہنجار دوستوں‘‘ نے شہرزدگی کے ’’خمار‘‘ میں اتنا ڈبویا اور پرویا کہ اسی کشورکو اپنا کاشانہ ٹھہرا کے دم لیا۔ مروی ہے کہ شعبۂ تاریخ سے آپ کا شغف اوڑھنی ہی میں پروان چڑھا۔ بچپنے میں کئی تاریخی کتب پڑھیں اور حافظہ میں محفوظ کیں۔ ریشمی رومال، دورِسوات کے والی کا، مکتوباتِ فقیر ایپی اور چند دیگر کتب آپ کے دماغ کے ہارڈ ویئرکی زینت ہیں۔ باقی تو دوست ہیں وہی پرانے، جن میں کوئی آرکیٹی ک ہے، کوئی لکھاری، کوئی ملازم سرکاری، کوئی ٹریول ایجنسی کا مالک، کوئی سماج کا درماں، توکوئی کسی ادارے کے ساتھ وابستگی پر خنداں۔ اُن کے بارے کیا بتائیں، سِوا ئے اس کے کہ ’’ایک توے کی روٹی، کیا چھوٹی، کیا موٹی؟‘‘ ہاں،ہم بے نام و بے نوا بھی اس گینگ کا حادثاتی طور پر حصہ ہیں، ورنہ کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ۔ اس وقت ہم دنیا کے کس کونے میں جلوہ افروز ہیں؟ یہ جاننے سے پہلے اہم بات جاننے کی یہ ہے کہ یہ ٹولہ 25 جنوری دو ہزار اٹھارہ کو صبح گیارہ بجے ’’سوات سے زندہ بھاگ نکلا ہے‘‘ ا ور دو دن کے طویل سفر کے بعد ایک ایسی جگہ پہنچا ہے، جس کو ہواؤں کا دروازہ توکہا جاتا ہے، اب دُنیا کا بھی دروازہ بننے جا رہا ہے۔ اس میں رکاؤٹیں ڈالنے کے لیے ایک دنیا سازشوں کے جال بن اور عرصے سے خونی کھیل کا کھلواڑ کھیل رہی ہے۔

عمران خان کو اسی لیے سب کچھ سچ نظر آ رہا ہے کہ یہاں جھوٹ کو بار بار دُھرایا جا رہا ہے۔ 

مینگورہ سوات سے جی ٹی روڈ پر پشاور کی طرف چلتے ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ سڑک کے دونوں اطراف پر بنے گھروں، دُکانوں، مارکیٹوں اور دیگر آبادیوں کوسڑک کی چوڑائی کے نام پرمسمار کیا جا رہا ہے۔ تعمیر کے نام پر تخریب کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے، جب کہ تعمیر کا عمل برائے نام ہے۔ ایسا سوات بھر کیا، پورے صوبے میں ہو رہا ہے۔ کرپشن اور دو نمبری کا عمل بھی جاری وساری ہے۔ فرق یہ ہے کہ پچھلی حکومتیں ڈھٹائی کے ساتھ یہ کام کرتی رہیں اور موجودہ ہاتھ کی صفائی و ستھرائی اور بھرپور احتیاط کے ساتھ۔ کہتے ہیں کہ جھوٹ کو سچ کے پیمانے پر رکھ کر بار باردھراؤ، تو اُس پر سچ کا گمان ہو نے لگتا ہے۔ عمران خان کو اسی لیے سب کچھ سچ نظر آ رہا ہے کہ یہاں جھوٹ کو بار بار دُھرایا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس بات پربات کرنے سے بات نہ کرنا ہی بہتر آپشن ہے۔ عمران خان نے سیاست میں پھنس کر خود کو عبث میں بد نام کیا۔ کاش، سیاست کی بجائے وہ شوکت خانم ہسپتال کی طرح اور بھی ایسے ادارے بنا لیتے، تو کتنے لوگوں کی زندگی میں آسائشیں آتیں۔ ہمارے سوات کے بعض ایم پی ایز ٹھیکیداروں اور سی اینڈ ڈبلیو کے کرپٹ مافیازکے ساتھ ملی بھگت میں مصروف ہیں۔ وہ جان لیں کہ اُن کے اعمال ناموں میں بہت کچھ نوٹ ہو رہا ہے۔ اینٹی کرپشن اور دیگرادارے بہت کچھ ریکارڈ کر رہے ہیں، جو فائلوں کا حصہ بن کر مناسب وقت پر ذمہ دار لوگوں کے گلوں میں پھندا ڈالنے کے لیے استعمال ہوں گے۔ احتسابی آنکھیں کھلی ہیں، وہ اتنی کھوکھلی نہیں جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے۔یقینا یہ ملک یتیم تو نہیں۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب تخت اُچھالے جائیں گے
جب تاج گرائے جائیں گے
معاف فرمائیں، یہاں اشارہ عوام کی طرف ہے اور خصوصاً آج کے جوانوں کی طرف ہے، جو اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ فوجی بھائیوں کو تاج و تخت گرانے کی بجائے اب صرف اپنے مورچوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختے اور ’’مشرف بہ اسلام‘‘لوگ اُڑایا کرتے تھے ۔
تھانہ ٹاؤن سے آگے چکدرہ پُل سوکئی واقع ہے۔یہ مستقبل قریب میں پورے ملاکنڈ ڈویژن کا مرکز بننے والاہے۔ یہاں کی لہلہاتی چاول کی کھیتیاں سیلاب میں بہہ کر سمندر بُرد ہو گئیں، تو اُن خالی زمینوں پر نان کسٹم پیڈ کاروں کے بارگین سنٹرز، بڑے بڑے ریسٹورنٹس اور شادی ہالز بن گئے۔ اب یہاں ایک اور کاروباری رجحان بھی رو بہ ترقی ہے۔ مختلف قسم کے ڈرائی فروٹ جیسے پستہ، بادام، اخروٹ، مونگ پھلی اور کاجو وغیرہ دیدہ زیب پیکنگ اور خوب صورت سٹالوں میں سجائے گئے ہیں، جو فوری طور پر دھیان کو اُس طرف موڑتے ہیں۔ اس کے آگے برلبِ سڑک پودوں اور پھولوں کے نرسریزکے سجے سجائے بازارنے ہماری سوچ و فکر کی رو کوسرکار کی تخریب کاری اور عوامی نمائندوں کی بلا روک ٹھوک کرپشن سے ہٹا دیا۔ ویسے ہمارے علاقوں میں برسرِراہ دُکانداری کا یہ عمل اُنیس سو اسّی کے دہائی میں ملاکنڈ روڈکے موڑوں میں متعارف ہوا۔ یہاں پر پلئی (ملاکنڈ) اور رباط (دیر) کے مالٹے فروخت ہوتے تھے اور ہم جیسے ’’بڑے لوگ‘‘ موقع پاتے، تو ایک دو دانے کھانے کے لیے ضرور لیتے۔ اب پورا جی ٹی روڈ ایک سڑکی بازار بن گیا ہے۔ تازہ سبزیاں، ہر قسم کے پھل اور اب ڈرائی فروٹس وغیرہ تازہ بہ تازہ بہت ارزاں ریٹس اور وقت کے ضیاع کے بغیر دستیاب ہوتے ہیں۔ بٹ خیلہ کے عقبی بائی پاس سے گذرتے ہوئے دریائے سوات کے بیچ میں چلتی پڑی غلاظتیں اور آس پاس کناروں پر گندگی کے ڈھیروں کے سامنے بنی مارکیٹوں میں لوگوں کا ازدحام،لاپروائی اور گاڑیوں، رکشوں، موٹر سائیکلوں، ریڑھیوں وغیرہ کا بے ہنگم جمِ غفیر دیکھ کر ماننا پڑاکہ ایسی قوم پر ایسے ہی حکمران مسلط ہوں گے۔ ویسے دریائے سوات اتروڑ اور اُوشو سے 170 کلومیٹر کا سفر طے کرکے بٹ خیلہ تک پہنچتا ہے۔ راستے میں کئی خوڑ، آبشار، چشمے اس سے آ ملتے ہیں اور سوات، تھانہ اور بٹ خیلہ کے وسیع علاقے کو اپنے پانی سے سیراب کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب سارے گھروں، ہوٹلوں کے ٹائلٹس اور گندے پانی کا بہاؤ دریا کی طرف ہے، لیکن بٹ خیلہ بازار کے عقب میں یہ معاملہ اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ اب یہ پانی آبپاشی کے لیے تواستعمال ہوتا ہے، لیکن گھریلو استعمال کے لیے بالکل نہیں۔ اس دریا میں مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی اور مقامی باشندے جال وغیرہ کے ذریعے اس کا شکار کرتے تھے، مگر اب یہ باتیں بہترہے کہ قصہ پارینہ سمجھی جائیں۔

پلئی، درگئی ایجنسی کی ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ لوگ اس کو ’’مالٹوں کی وادی‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں کے مالٹے کوالٹی اور ذائقے کے لحاظ سے دنیا میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ (Photo: Getty Images)

بٹ خیلہ سے آگے جیسے ہی ملاکنڈ کی پہاڑیوں کا راج شروع ہو جاتا ہے، ویسے ہی پیرانو کلے اور قالدرہ کے میاگانو کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ پیران اور قالدرہ ایک حسب نسب کے لوگ ہیں۔ جو کتے کے کاٹے کے دم کے لیے ایک زمانے سے مشہور ہیں۔ دور دور سے لوگ یہاں دم کے لیے آتے ہیں۔ ملاکنڈ کی پہاڑیوں میں حسبِ معمول بازار سجے ہیں۔ سڑک کے ہر موڑ پرمالٹوں کے سٹال لگے ہیں۔ پلئی، درگئی ایجنسی کی ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ لوگ اس کو ’’مالٹوں کی وادی‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں کے مالٹے کوالٹی اور ذائقے کے لحاظ سے دنیا میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ اس پریہاں کے کاشتکاروں کے علاوہ دُکان دار، ریڑھی بان ، مزدور، ٹرانسپورٹرز اور علاقے کے سیکڑوں خاندانوں کے گذر بسر کا دار و مدار ہے۔ جنوری، فروری کے مہینوں میں یہاں مالٹوں کا سیزن عروج پر ہوتا ہے۔ خریداروں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے اور فروخت کنندگان کا بھی۔ ابھی پتا چلا ہے کہ موجودہ حکومت یہاں پر سیمنٹ فیکٹری لگانے کے لیے پلئی گاؤں میں کوئی تین ہزار دو سو کنال زمین لے رہی ہے۔ اگر ایسا کیا گیا، تو یہ نہ صرف اِن باغات کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا بلکہ یہاں کے ماحولیاتی نظام کا بھی کباڑا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گا۔ زمین مالکان اور یہاں کے لوگوں کو نوکریوں وغیرہ کے نام پر نہ بہلایا پھسلایا جائے، تو بہتر ہوگا۔
ملاکنڈ کے نیچے تمام بندگانِ خدا کو ایک بڑے امتحان سے گزرناپڑتا ہے۔ چیک پوسٹ پرخود کو پاکستانی ثابت کرنا پڑتا ہے۔ شناختی کارڈ ہولڈر ہونا چاہیے، یہاں سے گزرنے والوں کو۔ شکل سے اپنی عاجزی اور معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹنا پڑتا ہے۔ بتانا پڑتا ہے کہ کہاں سے آ رہا ہوں، کہاں جا رہا ہوں میں، کیوں جا رہا ہوں اور کام کیا کرتا ہوں میں؟ چادر وغیرہ سب کچھ جسم سے ہٹانا پڑتا ہے۔ گاڑی کا ٹیپ ریکارڈر بند کرنا ہو تا ہے۔ ادویہ، لیپ ٹاپ، پرفیوم اور دیگر چیزیں پہلے سے اکھٹی کرکے تلاشی کے عمل سے گزارنا پڑتی ہیں۔شناختی کارڈ کو ہاتھ میں تیار رکھنا پڑتاہے۔ احتیاطاً نوٹ فرمائیں کہ شام کے بعدآنے جانے والوں کو گاڑی کے ہیڈ لائٹس بھی بند رکھ کر گزرنا ہوتاہے۔اس امتحان میں معمولی سی کج روی سے بھرپور ’’عزت افزائی‘‘ کا ہر وقت خدشہ رہتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے آرمی چیک پوسٹ پہنچ جاتے ہیں۔ لمبی قطار میں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ شناختی کارڈز ڈرائیونگ کرنے والے دوست کے حوالے ہوتے ہیں۔ ’’سلو اینڈ سٹیڈی وِنز دی ریس‘‘ والا فارمولا اِپلائی ہوتا ہے اور قریب قریب چالیس منٹ میں’’بندوق بردار جوان‘‘ کے قریب پہنچ کر تفصیلی سوال و جواب کے بعد آگے جانے کی ’’کلیئرنس‘‘ مل جاتی ہے۔ (جاری ہے)

…………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔