بات ہے، پانچ ہزار کلومیٹر طویل ایک منفرد اور یادگار سفر کی۔ کارواں ہے دو کاروں اور آٹھ زندہ دل بندوں کا۔ دو روز بعد خراماں خراماں جہاں پہنچتے ہیں، وہاں دن ہے خیر و برکت سے ہفتے کا۔ دریچۂ تاریخ ہے ستائیس جنوری دو ہزار اٹھارہ عیسوی، نوجمادی الاول 1439ہجری اور 1 5 ماگھ 2074بکرمی کیلنڈر۔ وقت ہے شام کے چھے ساڑھے چھے بجے۔ منظر ہے غروبِ آفتاب کا۔ جگہ ایسی، جہاں تین اطراف میں تری کی اجارہ داری اور ایک محدود کونے پر خشکی کا بسیرا ہے۔جہاں دو سمندر ایک زمانے سے آپس میں گتھم گتھا بھی ہیں اور ’’یک جان و دو قالب‘‘ بھی۔ جہاں، کچھ دیر کے لیے ہمارا جسم یک لخت وزن کی کیفیت سے ماورا ہوتا ہے، اور جان، جانِ آفرین کے سپرد ہونے کی بجائے سکڑ کر کہیں کونے کھدرے میں روپوش ہوجاتا ہے،جب پتا چلتا ہے کہ جس پہاڑی کے اوپر کھڑے ہم سمندر کا نظارہ کر رہے ہیں، اُس کے نیچے بھی سمندر ہی تو ہے۔ جہاں، ایسے ہی موج موج میں دونوں سمندروں کو ایک دوسرے کو گھیرے میں لے کر اٹکھیلیاں اور شرارت سوجھتی ہے، تو ایک کشمکش اور غیض و غضب کی سی کیفیت ہوجاتی ہے۔ پانی آپس میں لڑنا جھگڑناشروع کرتا ہے، طغیانی آ جاتی ہے، بھونچال سا محسوس ہونے لگتا ہے، کشتیاں اور جہاز ڈگمگا اُٹھتے ہیں، مچھلیوں، کچھوؤں، جھینگوں، وھیل اور شارک مگرمچھ وغیرہ ’’ایکسٹرنلی ڈسپلیسڈ‘‘ ہو جاتے ہیں اور پشتونوں کی طرح ’’انٹرنلی‘‘ بھی۔ ہواؤں میں طوفان بپا ہوتا ہے، رُخ بدل جاتے ہیں، موسمی تغیر آ جاتا ہے، صحراؤں میں ائیر ببل بننا اور بگڑناشروع ہو جاتے ہیں، فلائیٹس متاثر ہو جاتی ہیں، ماہی گیروں کے گھروں میں بھوک کے سائے منڈلانے لگتے ہیں لیکن زیادہ ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ روز کا معمول نہیں کبھی کبھار کی بات ہوتی ہے۔ ہم خود سمندر سے ڈرتے ورتے نہیں، لیکن آپ کو اس ڈراؤنی ماحول سے خبردار کرنا مقصود ہے۔ عام طور پر تو سمندر وں کی شرافت اور خاموشی ایک خاصہ ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
کہہ رہا ہے موجِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے، اتنا ہی وہ خاموش ہے
فی الوقت ایک پہاڑی کے کندھے پر کھڑے ہم جس بحرِبیکراں کا نظارہ کر رہے ہیں۔ دیکھتی آنکھوں کو اس کا کوئی کنارا، کوئی حد، کوئی ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ نظر نہیں آتی۔ سنتے کانوں کو لہروں کی مدھم ترنم کے سِوا، کوئی شور محسوس نہیں ہوتا۔ جواپنی نظر کی وسعتوں سے کہیں گنا زیادہ وسیع اور سوچ و فکر کے بھاؤ تاؤ سے کہیں زیادہ بڑا اور زیادہ فراخ ہے۔ جہاں پہنچنے کے لیے ہم فصلات اور باغات سے لدھی زرخیز زمینوں کے طویل سلسلوں سے گزرے۔ مخلوقات سے بھرے شہروں، بستیوں، وسیع میدانوں، صحراؤں، ریگستانوں، پہاڑوں اور چٹانوں کی چوٹیوں کو سر کیا۔ دن دیکھا نہ رات، صبح دیکھی نہ شام، بس چلتے رہے، دیکھتے رہے اور سوچتے رہے۔ اللہ تعالی جلہ شانہ کے اس رنگ بہ رنگ اور وسیع کائنات کی حدود و قیود، اس کی رنگا رنگی، نیرنگی اورتنوعِ حیات پر انسان جتنا بھی دماغ لڑاتا جاتا ہے، اتنا ہی حیرت کی اتھاہ گہرائی میں گُم ہو تا جاتا ہے۔ہم بے اختیار چیخ پڑتے ہیں:
تُو ہے محیطِ بیکراں، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
سوچ کے مزید دریچے وا ہوتے ہیں۔ دریائے نیل کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے طویل دریا ہے جو دو دریاؤں نیلِ ابیض اور نیلِ ازرق کے ملاپ سے تشکیل پاتا ہے۔ زرخیز زمینوں کا سبب دریائے ازرق ہے، لیکن طویل دریا ابیض ہے۔ یہ سوڈان سے مصر تک صحرا میں گزرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ دریائے نیل کا ایک مگرمچھ اگر منھ کھولے، تو اس میں دو چار اونٹ اور دو تین ہاتھی بیک وقت چبانے کے عمل سے گزرے بغیر سیدھے اس کے پیٹ تک ’’پارسل‘‘ ہو جاتے ہیں۔ مگرمچھ کی بات آئی، تو خیالوں کے بے ربط سلسلوں میں اچانک حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی وہ داستان بھی گھومنے لگتی ہے،جب آپ ربِ کائنات کے حضور میں ساری مخلوقات کی ضیافت کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ جواب ملتا ہے کہ تیرے بس کا نہیں یہ کام۔آپؑ ضد کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت دکھانے کے واسطے اجازت دیتے ہیں۔ دعوتِ خصوصی کاا نتظام ہوتا ہے۔ انسان، جِن،درند، پرند، چرند وغیرہ سب کھانے کی دعوت پر پہنچ جاتے ہیں۔ مخلوقات کا مشاہدہ کرنے تختِ سلیمان دریا کے اوپر معلق ہو جاتا ہے۔ دریں اثنا ایک مچھلی دریا میں سے سر نکال کر آپ کو مخاطب کرکے کہتی ہے: اے اللہ کے نبی، آپؑ نے تمام مخلوق کو مہمان بنایا ہے،مجھے بھوک لگی ہے، پہلے مجھے کھانا کھانے کی اجازت دیجیے۔ اجازت ملتی ہے، تومچھلی سارا کھانا ایک ہی لقمے میں کھا جاتی ہے اور مزید مانگنے کی تمنا کرتی ہے۔ سلیمان علیہ السلام حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ فرماتے ہیں،اے مچھلی ،تم نے تمام مخلوق کا کھانا ایک ہی نوالے میں کھا لیا۔ تب بھی پیٹ نہیں بھرا؟ مچھلی بولتی ہے، اے نبی! مجھے روزانہ تین لقمے رزق ملتا ہے، جو کھانا یہاں تھا، وہ صرف ایک لقمہ تھا اور دو مزید چاہیے۔ تب میرا پیٹ بھرے گا۔ آپ کا مہمان بن کر آج میں بھوکی رہ گئی ہوں، تو آپؑ مخلوقِ خدا کا پیٹ کیسے بھریں گے؟ سلیمان علیہ السلام مچھلی کی یہ باتیں سن کر حیرت زدہ ہوتے ہیں۔ ندامت سے سجدے میں گرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی نادانی کی معافی مانگتے ہیں، توبہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں، میں نادان و مسکین، بیشک سارے جہان کو رزق دینے والاصرف تو ہی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ا س بے حساب و بے کنار پھیلی ہوئی کائنات کی اور مخلوقات کے تنوع کا اندازہ لگانا کتنا مشکل ہے۔ معذرت قبول ہو، بات ہو رہی ہے سمندر کی وسعتوں کی، جہاں پہنچنے کے لیے ہمیں سوات سے لگ بھگ ڈھائی ہزار کلو میٹر کا یک طرفہ سفر کرنا پڑا اور ہم درمیان میں بے جا اپنے علم ودانش کا ’’ڈھول باجا‘‘ بجانے لگے۔ کیا کریں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اِس وقت ہمیں بتایا گیا کہ سوات کے بعض علاقوں میں سردی کی شدت فریزنگ پوائنٹ تک پہنچی ہے۔ لوگ کمبلوں، جرسیوں اور جیکٹوں میں جکڑے ہیں لیکن جہاں ہم موجود ہیں، وہاں افضل شاہ باچا کے موبائل فون کی تفصیلات کے مطابق درجۂ حرارت 32 ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ ہوا میں نمی 77 فیصد ہے۔ پنکھے زور و شور سے چل رہے ہیں۔ سطحِ سمندر سے کاغذی بلندی 92 فٹ بتائی جاتی ہے، لیکن حقیقت میں تو اتنی ہے جیسے وہ اور ہم، ہم پیالہ و ہم نوا ہوں۔ ہماری مستی اور تیکھے پن کو دیکھ کر سمندر کے پیٹ میں غصے سے گویا مروڑ اُٹھ پڑے، جو تیز لہروں کی صورت میں برآمد ہو کر ہمارے تلوؤں کو چاٹتے ہیں، جسم کو گدگداتے ہیں، ذہنوں کو ورغلاتے ہیں کہ آؤ میرے ساتھ چل، میرے سینے میں ڈوب کر راحت و سکون میں غرقاب ہو جاؤلیکن ہم ایسے کسی دھوکے میں آئے بغیر اس کا نظارہ کرتے ہیں۔ اس کے ساحل پر ننگے پاؤں چلتے ہیں، دوڑتے ہیں، لہروں کے ساتھ خرمستیاں کرتے ہیں۔ مچھیروں کے مچھلی پکڑنے کے عمل سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلّی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
(جاری ہے)

………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔