صوبائی حکومت کا لائقِ تحسین اقدام

صوبہ کے پی کی پی ٹی آئی حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے کہ اس نے مساجد کے آئمہ کرام کے لیے ماہوار اعزازیہ مقرر کیا۔ اگر چہ ایک مذہبی سیاست کار جماعت نے اس اقدام کو پسند نہیں کیا، لیکن قومی خزانے میں ان شہریوں (آئمہ کرام) کا بھی حق ہے جو امامت کا فریضہ تمام تر تنگ دستیوں کے باوجود رضا کارانہ انداز سے ادا کرتے ہیں۔
مساجد اور ان کے آئمہ کرام و خدام کی تعداد زیادہ ہے۔ مساجد کی تعمیر میں حکومت کی رائے شامل نہیں ہوتی۔ اس لیے پُرجوش مسلمان جہاں چاہیں، وہاں مساجد بناتے ہیں۔ اس طرح علما کی اپنی کوئی ایسی بااختیار تنظیم بھی نظر نہیں آتی، جہاں سے مساجد کی تعمیر، آئمہ کرام کی بہبود کی نگرانی اور رہنمائی ہوتی ہو۔ مبینہ طور پر عرب ممالک سے بڑی رقومات مساجد کی تعمیر اور مدارس کے قیام کے لیے آتی ہیں۔ مقامی مخیر اور خواتین و حضرات سب سے زیادہ تعاون کرتے ہیں۔ مذہبی امور اور اوقاف کے نام پر ایک محکمہ موجود ہے لیکن علما، آئمہ کرام اور مذہبی طلبہ کی فلاح و بہبود کے لیے سرکاری کردار کا ہمیں علم نہیں۔
اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق ہے۔ اسلام دین ہے، ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس کے اندر برداشت اور اختلاف رائے کی اتنی قوت ہے کہ مسلمانوں کے اندر مختلف مسالک اور فقہوں کی موجودگی کے باوجود یہ ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیر و شکر ہیں۔ جہاں کہیں کوئی کمی بیشی سامنے آجاتی ہے، وہ دین میں نہیں ہوتی بلکہ فرد یا افراد میں ہوتی ہے۔ اسے پھر آسانی کے ساتھ دور کیا جاتا ہے۔ آئمہ کرام لوگوں کی مذہبی تربیت اور رہنمائی کرتے ہیں۔ عوام پر ان کا اثر و رسوخ سب کو معلوم ہے۔ وہ ان کی بات مانتے ہیں اور اُس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ عوام کی تربیت کا بہترین ذریعہ آئمہ کرام ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کی ہر حکومت کا فرض ہونا چاہیے کہ ان کی جدید معاملات میں، وقت کے تقاضوں میں، بین الاقوامی تعلقات وغیرہ میں عمدہ تربیت کریں۔ دنیا کے بہت سارے مسلمانوں کے ممالک میں آئمہ کی نہ صرف تربیت کی جاتی ہے بلکہ عوام کے سامنے تقاریر (خطبات) بھی مخصوص ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں ایک ہزار سال سے لے کر چھے، آٹھ ہزا رسال کی اسرائیلی روایات کی مسلسل تکرار ہوتی ہے جو وقت کے جبر و حالات کے تحت ہماری مذہبی لٹریچر میں جگہ پاگئے تھے اور اب اُن کی جگہ جدید مسائل و معاملات اور واقعات درج کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا کے جدید برقی آلات سے آئمہ دور رہتے ہیں۔ اس لیے ان کو پورا علم نہیں ہوتا کہ عوام کن مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں؟

میڈیا کے جدید برقی آلات سے آئمہ دور رہتے ہیں۔ اس لیے ان کو پورا علم نہیں ہوتا کہ عوام کن مشکلات کا سامنا کررہے ہیں؟

ہمارے یہاں ہمارے زیادہ تر مذہبی لوگ افلاس اور تنگ دستی کا شکار ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کا ایک چھوٹا طبقہ اُن کی بے قاعدہ مالی مدد کرتا ہے جب کہ اُن کے اخراجات مسلسل ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں اور نہ سرکاری سیکٹر میں آئمہ کے لیے باقاعدہ تنخواہ یا مشاہیرہ کا کوئی عمدہ نظام موجود ہے۔ حالاں کہ مسلمانوں کے بیت المال سے ان کا باقاعدہ اور مسلسل اعزازیے کا بندوبست ہوسکتا ہے۔ بہ شرط یہ کہ مسلمان مال دار لوگ زکوٰۃ بیت المال کو ادا کریں۔ مولانا لوگوں کی مالی آمدن ہمیشہ اہم ضرورتوں سے بہت کم ہوتی ہے۔ عمدہ علاج و معالجہ اور بچوں بچیوں کی شادیاں کروانا اور بھی مشکل کام ہوتا ہے۔ جاگیرداری (فیوڈل) علاقوں میں مولوی کا مقام اور بھی گرایا گیا ہوتا ہے۔ مختصر بات یہ ہوئی کہ معاملات و حالات، جدید علوم میں بھی تہی دست اور مالی حالات میں بھی غربت کا شکار۔
کچھ مذہبی علما لکھ پتی سے ارب پتی تک مال دار ہیں۔ اُن کا دنیاوی وقار بھی بہت زیادہ ہے۔ اُن کروڑ پتیوں میں سے چند آئمہ کی حقیر سی اعزازیہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ہر بات کو اپنی من مانی مذہبی تشریح کے تحت رد کرتے ہیں۔ وہ اس غریب مولوی کی حالت کو نہیں دیکھتے جو مانگے کے ٹکڑوں پر چھپکے سے زندگی گزارتا ہے، جو اپنے بیمار والدین یا بچوں کے علاج کے لیے دوسروں کے سہارے رہتا ہے، جو حضرات سرکاری تعاون کو یہودیوں کا مال کہتے ہیں، وہ ذرا نرمی کریں۔ ہمارا معاشرہ پورے کا پورا سودی نظام میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ حضرات اس کو حلال راستوں پر ڈالیں۔ فی الحال تو منتخب افراد کی اپنی تنخواہیں بھی سودی نظام سے ہیں۔
صوبائی اور ملکی وسائل کم ہیں اور مساجد کے آئمہ کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لیے ہر ایک کو مناسب اعزازیہ پہنچانے کے لیے نظامِ زکوٰۃ و عشر و صدقات کو منظم کروانا ضروری ہے۔ تاکہ سود سے پاک وسائل سے ان پاکیزہ افراد کی مدد ہو۔ پارلیمنٹ میں موجود مولانا حضرات کی دین کے حوالے سے کارکردگی صفر کے برابر ہے۔ اس لیے اگر وہ وطنِ عزیز میں زکوٰۃ کے نظام کو دورِ جدید کی سہولتوں کے مطابق باقاعدہ اور مستحکم کروائیں، تو یہ اُن کی بڑی خدمت ہوگی۔ صدیوں سے مسلمان زبانی کلامی امیدوں پر جی رہے ہیں۔ اب عملی کام کی ضرورت ہے۔
موبائل فون اور کمپیوٹر کے نظام نے عقائد کو متاثر کردیا ہے۔ ان نئی اور آنے والی ایجادات اور نئے جنم لینے والے نظریات کے زمانے میں مسلمان قرآن و سنت سے باہر پرانی روایات پر مزید انحصار نہیں کرسکتے۔ اگر موجودہ نصاب مدارس کو تبدیل نہیں کیا جاتا، تو مسلسل تربیت کسی نہ کسی حد تک علما اور اُن کے ذریعے عوام مختلف جدید مسائل کو اسلام کی روشنی میں سمجھ اور حل کرسکیں گے۔ مذہبی علما کی بے روزگاری کا خاتمہ بھی اہم ہے۔
علما اور آئمہ کو مساجد کی قوت سے کام لینا چاہیے۔ اگر شہری آبادی کو حلقوں میں تقسیم کیا جائے اور ہر حلقے کے مخصوص امام مسجد کو معتمد یا اسی قسم کا نام دیا جائے اور اُس کے ساتھ چار معتبر معززین محلہ جو کرایہ دار نہ ہوں اورمستقل باشندے ہوں، کی ایک کمیٹی بنائی جائی اور یہی کمیٹی متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی مختلف امور مثلاً پیدائش اور موت، شادیوں، بچوں بوڑھوں کی تعداد مع دوسرے افراد خانہ کے کوائف، ڈومیسائل بنوائے۔ کیریکٹر، ویرفکیشن، سینئرز کی موجودگی، مختلف خدمات مثلاً پولیو، امدادی اشیا کی تقسیم کے فرائض انجام دیا کریں، تو ان معاملات میں آسانیاں پیدا ہوجائیں گی۔

……………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔