امریکی ریاست کیلی فورنیا کے سیکولا نیشنل پارک میں دنیا کا دوسرا بڑا درخت کھڑا ہے۔ اس درخت کی عمر تقریباً بتیس ہزار سال ہے۔ اس کی اونچائی دو سو سینتالیس فٹ ہے۔ یہ دیو قامت درخت پچاسی فٹ پر محیط اور اس کا قطر ستائیس فٹ ہے۔ اس کا مکمل حجم چون ہزار مکسر فٹ ہے۔ آج سے کوئی پچانوے سال پہلے امریکیوں نے اس درخت کی شان و شوکت، قدامت اور سربلندی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو ’’دی پریزیڈنٹ‘‘ کا نام دیا۔

یہ کوئی عام بات نہیں۔ یہ صرف ایک استعارہ بھی نہیں بلکہ یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ امریکی اپنے صدر کا کتنا احترام کرتے ہیں اور اُن سے کس قدر امتیازی کردار کی امید رکھتے ہیں۔ وہ اپنے صدر کو امریکی عظمت اور قوت کا نشان سمجھتے ہیں۔ وہ اس کو عام اور اوسط درجے کے انسانوں سے بالاتر مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں، اخلاقی لحاظ سے بھی اور معاملاتی پہلو سے بھی۔ اس کا کوئی مالیاتی یا اخلاقی سکینڈل امریکیوں کے لیے قابل قبول نہیں۔
اس کے برعکس اگر ہم ایشیائی ممالک بالعموم اور اسلامی ممالک کا بالخصوص جائزہ لیں، تو ہمارے اربابِ اقتدار تمام برائیوں کی مجسم تصویر نظر آتے ہیں۔ ان کے نہ صرف کرپشن کے چرچے زبان زد عام ہوتے ہیں بلکہ دیگر اخلاقی جرائم میں بھی یہ ملوث ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے عوام کے دلوں میں اُن کی محبت اور احترام کے جذبات نہیں ہوتے۔ ہم لوگ اُن سے نفرت ہی کرسکتے ہیں اور ان کو اپنی تمام تر محرومیوں، مصیبتوں اور مشکلات کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اس طرزِ عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی ادارے کو اُن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، تو اس کو عوامی پذیرائی نہیں ملتی۔ لوگ اس کا مذاق اُڑاتے ہیں اور کبھی کبھی بہت طنز یہ انداز میں بہ حالت مجبوری، وہ نام استعمال کرتے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ امریکی تو کسی شان دار درخت کو ’’صدر‘‘ کا نام دیتے ہیں اور ہم ایشیائی اپنے رہنماؤں کے رسمی احترام سے بھی گریز کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا جواب اتنا مشکل نہیں۔ یہ سب ہمارے اربابِ اقتدار کی ناقص کارکردگی، مالیاتی کرپشن، حرص و ہوس اور اخلاقی پستی کا شاخسانہ ہے۔
ہم اپنے سیاسی زعما کو زوال کے بعد حقارت کے آخری درجے تک لے جاتے ہیں۔ اُن کو بدترین جانوروں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اپوزیشن والے ہوں یا اقتدار والے، سب کی زبان پر گالیوں، طعنوں اور بہتان طرازیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے ہوسِ اقتدار کو دیکھ کر کون ذی شعور انسان ان کی عزت کرے گا؟ اقتدار کے ہوس میں اندھے ہوکر یہ آپس میں ایسے لڑتے ہیں کہ سارے انسانی اقدار کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ماؤں اور بہنوں کو بھی جلسوں جلوسوں میں آگے رکھتے ہیں۔ اس طرح اخلاق باختہ شہریوں کو کھلی چھوٹ ملتی ہے۔
گذشتہ ایک صدی کے دوران میں آپ کسی بھی مشرقی ملک کے ایک سیاسی لیڈر کا نام لے سکتے ہیں کہ آپ اسی کو سیکولا کے اُس عظیم درخت کے مشابہ سمجھتے ہیں۔ لے دے کے ایک مہاتیر محمد اور سنگاپور کے ’’لی کوان یو‘‘ کے علاوہ ہر طرف خلا ہی خلا ہے۔ ہم نے اپنے سب سے بڑے سٹیڈیم کو قذافی کے نام سے منسوب کیا، مگر وہ دنیا کا بدترین آمر اور اخلاقی طور پر ایک مکمل دیوالیہ شخص ثابت ہوا۔ جس نے اپنے طویل اقتدار میں لیبیا کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا۔ اپنی لایعنی حرکتوں سے اس نے خود کو مسخرہ بنا دیا۔ مصر کے حسنی مبارک، شام کے حافظ الاسد، روس کے پوتین، افغانستان کے کرزیٔ، پاکستان کے مشرف، زرداری اور شریف خاندان، ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔ سب ایک دوسرے سے بڑھ کر بدعنوانی اور اخلاقی برائیوں کے باعث رسوائے زمانہ ہوئے۔
ہم تو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ کون سا معیار ہے یا وہ کیا ’’کرائی ٹیریا‘‘ ہے جس کی بنیاد پر ہم لوگوں نے ائیرپورٹس، یونیورسٹیوں، شاہراہوں اور ہسپتالوں کو بعض ’’سوکالڈ‘‘ مشاہیر سے منسوب کیا ہے؟ کیا ان کا عوامی خدمت کا کوئی کارنامہ ہے؟ معاشرے کی بہبود اور انسانیت کے فلاح کے لیے ان کی کوئی ’’کنٹری بیوشن‘‘ ہے؟ قومی سطح پر کارکردگی کا ذکر چھوڑیئے، تحصیل کے لیول پر بلکہ اپنے گاؤں یا شہر کے لیے ان کا کوئی کام ہو تو بتایئے۔

یہ جو گلی کوچے کی پختگی پر اشتہاری بورڈ لگواکر نام کمانے کا گھٹیا طریقہ چل نکلا ہے، یہ ان سیاسی بونوں کی ذہنیت کی عکاسی کا بدترین نمونہ ہے۔ ان کا ’’مینٹل لیول‘‘ بس اتنا ہی ہے اور وہ اسی کو اپنی زندگی کا معراج سمجھتے ہیں۔
ہر گلی میں بورڈ، ہر ٹرانس فارمر کے نیچے بورڈ اور گھٹیا کوالٹی کی واٹر سپلائی سکیموں کے اوپر لگے بورڈ، یہ ساری حرکتیں کتنی مضحکہ خیز اور اوچھی لگتی ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر رحمتیں نازل فرمائے ہمارے مرحوم حکمراں میاں گل جہانزیب پر جنہوں نے سیکڑوں سکول بنوائے، کالج بنوائے، ہزار میل لمبی شاہراہیں تعمیر کروائیں، بڑے بڑے ہسپتال اور لا تعداد ڈسپنسریاں قوم کے مفاد میں بنوائیں اور کسی پر بھی تختی نہیں لگوائی۔ کسی کا افتتاح نہیں کیا۔ کسی کو اپنے نام سے منسوب نہیں کیا۔ لے دے کے ایک جہانزیب کالج اُن کے نام سے منسوب تھا، وہ بھی بدطینت حکام کی نظروں میں کھٹکنے لگا تھا، اب اس کی آخری رسومات ادا کی جا رہی ہے۔
(نوٹ: سیکولا درخت ’’دی پریزیڈنٹ ‘‘ (The President) کے بارے میں معلومات ’’نیشنل جیوگرافک میگرین‘‘ سے اخذ کی گئی ہیں)۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔