پویس کے فرائض میں سے اولین شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ پولیس ہی سے ہے۔ یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ پاکستانی پولیس بدمعاشوں اور قاتلوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پولیس پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ چکا ہے۔ نقیب اللہ محسود جو وزیر ستان کی غیر یقینی صورت حال اور جہنم کی آگ سے نکل کر کراچی چلے آئے، وہ کراچی کو جنت سمجھ کر آئے تھے لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ کراچی میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور اس کے گسٹاپو وردی پوش ٹولہ انھیں دہشت گرد گردان کر اوچ شریف میں ایک اور ساتھی سمیت جعلی مقابلے میں مار دے گا۔ وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا بھانڈا پھوڑ دیا کہ نقیب اللہ دہشت گرد نہیں بلکہ ایک محب وطن پاکستانی تھے۔ سوشل میڈیا نے شور مچایا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں، کیوں کہ راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کوماورائے عدالت قتل کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ساتھ بعد میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھی اعلیٰ سطح پر تحقیقات اور چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا۔ میڈیا کے دباؤپرسندھ حکومت نے واقعے کے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔ جے آئی ٹی نے تحقیقات کے بعد نتیجہ نکالا کہ نقیب اللہ محسود دہشت گر د نہیں تھا اور راؤ انوار نے انھیں جعلی مقابلے میں بے گناہ قتل کیا ہے۔ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی تحقیقات کرنے کے مطالبے میں جب اضافہ ہوا، تو راؤ انوار روپوش ہوگیا۔ چیف جسٹس نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے سندھ پولیس، آئی جی سندھ اور خفیہ اداروں کو راؤ انوار کو گرفتار کرنے کا حکم دیا،لیکن دو ماہ تک خفیہ ادارے اورسندھ پولیس اپنے پیٹی بند بھائی کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ حالاں کہ روپوشی کے بعد راؤ انوار بے نظیر ائیر پورٹ پردیکھا گیا تھا۔ ائیرپورٹ کے عملے نے راؤ انوار کی بیرونِ ملک فرار کی کوشش ناکام بنا دی اور یوں وہ ایک بار پھر روپوش ہوگئے۔
راؤ انوار تو اسلام آباد کے کسی سیف ہاؤس میں چھپ کر رہ رہا تھا، لیکن مقتول کے ورثا در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھے اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، گذشتہ روزنقیب اللہ محسود کے قاتل راؤ انوار نے گھبرا کر خوف و دہشت کے عالم میں گرفتاری دے دی۔
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت اس لیے پیش ہوئے، کیوں کہ تمام ادارے انھیں ڈھونڈ رہے تھے اور آئی جی سندھ خواجہ بھی ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ راؤ انوار کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا کہ وہ مزید روپوش رہتا۔
اسلام آباد ائیرپورٹ میں جو کیمرے لگے ہوئے ہیں، نے یہ عقدہ کھول دیا تھا کہ راؤانوار وہاں کیسے آئے تھے؟ وہ دو افراد جو راؤ انوار کو لے کر آئے تھے، کون تھے؟ ان دو افراد کی پہچان ہو گئی تھی اور ان کا پتا چل گیا تھاکہ ان کا پس منظر کیا ہے؟ ان کا تعلق کہاں سے ہے اور وہ کہاں رہتے ہیں؟ اس بات کی اطلاع عدالتی شخصیات کو دے دی گئی تھی۔ آئی جی سندھ خواجہ کے پاس بھی یہ اطلاعات پہنچ چکی تھیں۔ ایک بریفنگ میں بھی یہ بات واضح طور پر سامنے آئی تھی کہ راؤ انوار کہاں ہے؟ اس سلسلے میں نادراسے بھی مدد طلب کی گئی تھی۔ نادرا رپورٹ میں ان دومتعلقہ افراد کی پہچان کے ساتھ ان کے شناختی کارڈ زاور پتے بھی سامنے آئے تھے۔ اب اگر راؤ انوار اپنے آپ کو عدالت میں پیش نہ کرتے، تو معاملہ خراب ہو سکتاتھا اور ان کے دو ساتھی بھی کسی بڑے جنجال یا مسئلے پڑ سکتے تھے۔ رات گئے پویس آئی جی اسلام آباد کو کال کی گئی کہ کل راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے اور پیش ہونے کا طریقۂ کار یہ ہوگا۔ اس بارے میں وزارتِ داخلہ کو بھی آگاہ کیا گیا تھا۔ راؤ انوار کالے کپڑے پہنے سفید رنگ کی موٹر کار میں عدالت آئے، جنہوں نے منھ کو ماسک سے ڈھا نپ رکھا تھا۔
راؤ انوار کی سپریم کورٹ میں پیشی کے وقت اس کے اطراف میں سخت سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔ پیشی کے وقت چیف جسٹس نے راؤ انوار سے پوچھا کہ جب ہم نے پیش ہونے کا کہا تھا، تو آپ اُس وقت پیش ہو جاتے۔ راؤ انوار کی بہادری کے تو بہت قصے مشہور ہیں، آپ لوگوں کو گرفتار کرتے تھے اور خود اس کیس میں بزدلوں کی طرح عدالت سے چھپتے پھر رہے تھے۔
راؤ انوار نے جواب دیا کہ میری زندگی کو خطرات لاحق تھے۔ راؤ انوار کی گرفتاری کے بعد ابتدائی طور پر انھیں ڈپلومیٹک انکلیو میں منتقل کر کے بعد ازاں انھیں سندھ پولیس کے حوالے کیا گیا۔
ایس ایس پی ملیرراؤ انوارکی طرح پُر اسرار کردار کے حامل سرکاری اہلکار کسی بھی معاشرے کے لیے رول ماڈل نہیں ہوسکتے۔ راؤ انوار جیسے قانون کی دھجیاں اُڑانے والوں کو سیاستدانوں اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور ایسے افراد کو عہدے اس لیے دیے جاتے ہیں کہ وہ ان کے احکامات پر من و عن عمل کریں۔ تبھی تو سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ راؤ انوار بہادر بچہ ہے جو ایم کیو ایم سے اب تک بچا ہوا ہے۔
سندھ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اور خاتون رکن اسمبلی شیلا رضا نے بھی راؤ انوار کی تعریف کی تھی۔ اسی طرح کے اور بھی بہت سے بہادر بچے ان سیاست دانوں کے کام تو آتے ہیں، لیکن مصیبت کے وقت ان سے منھ پھر لیا جاتا ہے۔گویا انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے بعد میں پھینک دیا جاتا ہے۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔