مارچ 2018ء کے پہلے عشرے میں سینٹ کے آدھے ریٹائرڈ شدہ ممبران کی جگہ نئے ممبران کا انتخاب ہوا۔ ہر جماعت نے اس میں رشوت ستانی کے شبے کا اظہار کیا ہے۔ کیوں کہ بعض واقعات مشکوک محسوس کی گئیں۔ سینٹ میں دو قسم کے افراد آتے ہیں۔ ایک عام سیٹوں پر اور دوسرے خاص سیٹوں پر جن کو ٹیکنوکریٹس کی سیٹیں کہتے ہیں۔ انتخابات میں عموماً ایسے مالدار لوگ حصہ لیتے ہیں جن کی عموماً کسی فیلڈ میں مہارت نہیں ہوتی۔ اس لیے کاروبارِ حکومت و ریاست کو درست انداز سے چلانے کے لیے ٹیکنوکریٹس کے نام سے سینٹ کے ذریعے ماہرین مہیا کیے جاتے ہیں جو واقعتا قابلِ قدر کردار ادا کرتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، صحت کے ماہر، تعلیم کے ماہر، مالیات کے ماہر، بیرونی معاملات کے ماہر، انسانی آبادی کے مسائل کے ماہر، ماہرین زراعت و صنعت و جنگلات اور دوسرے اس قسم کے ماہرین کو حکمرانوں کو تقویت دینے کے لیے لایا جاتا ہے۔ پھر ان ماہرین سے بعض کو متعلقہ شعبے کی وزارتیں سونپی جاتی ہیں جس کے عام طور پر بہتر نتائج ہوتے ہیں۔
بڑے مولوی صاحب جامعۂ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مولانا سمیع الحق کو صوبائی حکمران جماعت نے سینٹ کا ٹکٹ دے کر انتخابات میں کھڑا کیا جو صرف تین عدد ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہونے سے بال بال بچ گئے۔ اس سے قبل صوبائی حکومت نے اسی مدرسے کو ستاؤن کروڑ روپے دیئے جو اے این پی کے زاہد خان کے مطابق ایک سوالیہ نشان ہے۔
دوسرے بڑے مولوی صاحب ’’گل نصیب‘‘ تھے جن کو شاید سدا بہار مذہبی سیاسی جماعت جمعیت العلمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کی طرف سینٹ انتخابات کا ٹکٹ ملا تھا، یہ اس جماعت کے معروف مشران میں سے ہیں۔ یہ بھی انتخابات میں صرف چار ووٹ لے کر ناکام رہے۔
سمیع الحق صاحب کو پی ٹی آئی نے ٹیکنوکریٹ سیٹ کا ٹکٹ دیا تھا، گل نصیب کا مجھے علم نہیں۔ میں عمران خان کی یہ منطق نہ سمجھ سکا کہ مولوی صاحب کون سے ٹیکنیکل شعبے کے ماہر تھے؟ اسی کو مثال بناکر ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست کاروں کی ترجیحات یہ نہیں ہوتیں کہ قوم کو اعلیٰ افراد مہیا کیے جائیں بلکہ اُن کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ شاید زیادہ تر ٹیکنوکریٹس کی سیٹوں پر عام افراد لائے جاتے ہوں گے۔ یعنی ملک کے اندر بے شمار ماہرین کی موجودگی کے باوجود اس کو ان کی خدمات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس کو ہم سیاست کاروں کی کوتاہ نظری اور تنگ دلی ہی کہہ سکتے ہیں۔ حالاں کہ ماہرین میں سیاسی وابستگی کے افراد بھی ہوتے ہیں۔
سنجیدہ اور وسیع النظر سیاست دان آئین میں اس گنجائش سے فائدہ اٹھا کر بہترین افراد کو حکومت میں شامل کر دیتے، لیکن ہمارے یہاں اپنے پیاروں کو نوازنے کے لیے یہ آئینی گنجائش استعمال کی جاتی ہے۔
مولویوں کے ہارنے سے دو نِکات واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں نے ووٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں دیے اور بہ ظاہر دین دار اراکینِ اسمبلی نے بھی اِن کو ترجیح نہیں دی۔ دوسرا نکتہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایلیٹ کلاس مذہبی افراد کو وہ وزن نہیں دیتی جو عوام کا ایک طبقہ اُن کو دیتا ہے۔
جدوجہدِ آزادی کے دنوں میں اسلام یا اسلامی نظامِ کے نفاذ کا مطالبہ موجود نہ تھا بلکہ مسلمانوں کے لیے اُن کے اپنے آزاد ملک کی بات ہوتی تھی۔ اگر اسلامی نظام کی بات ہوتی، تو مدرسہ دیوبند سمیت مولوی حضرات پاکستان بنانے کی شدید مخالفت نہ کرتے۔ پاکستان بن جانے کے بعد یہاں کے مولوی حضرات متحرک ہوگئے اور انہوں نے 1953ء میں قرار دادِ مقاصد تخلیق کی، جس کے بعد علما کی موجودگی پارلیمنٹ میں آج تک موجود ہے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ اسلامی نظام کی طرف اُن سے منسوب کوئی تحریک یا مسودۂ قانون نظر نہیں آیا۔ آئین کے اندر جو اسلامی نِکات ہیں، وہ ضیاء الحق کے دنوں میں ڈالے گئے تھے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جو حضرات ’’علما‘‘ کہلائے جاتے ہیں، اُن کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ جدید حکومتوں اور ریاستوں کو ہزار سال سے زیادہ پرانی اورناکافی روایات پر نہیں چلایا جاسکتا۔ اس کے لیے قرآن و سنت کی روشنی اور ان کی حدود میں قوانین سازی کرنا ہوگی۔ حکمرانی کے لیے اچھے افراد بے شک ضروری ہوتے ہیں لیکن اگر ایک اچھے انسان کے پاس اچھے قوانین و قواعد نہ ہوں، تو اُس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوتے ہیں۔ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے فارغ افراد اس زمانے کے لوگ نہیں ہوتے، وہ قدیم زمانوں سے چمٹے افراد ہوتے ہیں۔ اس لیے اُن کو حکمران بنانا وقت اور وسائل کو ضائع کرنا ہوتا ہے۔ آج بھی کئی ایک علما و وزرا موجود ہیں لیکن اُن کے اپنے محکموں میں اسلامی نکتۂ نظر سے کوئی تبدیلی ہم نہ دیکھ سکے۔ اس احساس کا پر تو مذکورہ بالا مولویوں کو نظر انداز کرنے سے سامنے آ جاتا ہے۔ قدیم علوم و روایات کے ماہرین پرچند روپوں کو ترجیح دی گئی۔ ممبران نے سوچا ہوگا کہ دونوں اطراف کے امیدوار غیرموزوں ہیں، لیکن ایک طرف سے بڑی رقومات ملتی ہیں جب کہ دوسری طرف سے وہ بھی نہیں ملتیں، تو چلو مال تو بنالو۔
مبینہ رشوت کے ذریعے سینیٹروں کی غیر متوازن تعداد سامنے آئی تھی، اس لیے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں مشکلات رہیں۔ دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے؟ ن لیگ کے بڑوں کے بیانات سے واضح ہوگیا ہے کہ ان خواتین و حضرات میں تحمل و تدبر کم ہے اور خود پسندی زیادہ ہے جو مستقبل میں قوانین سازی کو متاثر کریں گے۔
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔