’’ووٹ کا تقدس‘‘ کہنے کو تو یہ صرف ایک نعرہ ہے لیکن یہ حقیقت میں اس نظام کی کامیابی کی کنجی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس نعرے کے پیچھے کروڑوں لوگوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ تیرھویں صدی کے وسط میں برطانیہ کے عوام نے سب سے پہلے اس نعرے کے لیے تحریک چلائی تھی جو کہ "Baron” جنگ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں ’’انکو میگنا کارٹا‘‘ کی صورت میں ان کے حقوق کی دستاویز مل گئی اور انہوں نے ثابت کیا کہ عوام کو بھی بادشاہ جتنے ہی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ فرانس کے عوام نے بزورِ شمشیر اس نعرے کو منوایا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تو بنیاد ہی اس نعرے کے اوپر رکھی گئی ہے۔ ادارہ اقوام متحدہ جن تیس بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے، اس میں بھی رائے کی آزادی کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ تحریک آزادی پاکستان تو چلائی ہی اس مطالبے پر گئی تھی کہ ’’مسلمانوں کے ووٹ کو تقدس دو‘‘ اور جب یہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں نظر نہیں آیا، تو پھر اسی ووٹ کی طاقت سے ہی خداداد ریاست پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔
یہ نعرہ تمام اقوامِ عالم کی امنگوں کا ترجمان ہے، لیکن ہمارے ملک میں ہمیشہ سے ہی اس نعرے کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ہے۔ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ قائد اعظم نے پاکستان بننے کے بعد بہت مختصر زندگی پائی۔ یہ ہمارے ملک کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک سیاسی بونوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور لیاقت صاحب نے اس وجہ سے آئین اور انتخابات کو ملتوی رکھا۔ کیوں کہ وہ اس بات سے خائف تھے کہ کہیں حسین شہید سہروردی ووٹ کی طاقت سے اسے شکست نہ دے دیں۔ اس کا دور بھی ٹھیک گزرا لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کی اچانک موت کے بعد ملک پر بیوروکریسی قبضہ کرکے ہر چیز کا بیڑہ غرق کردے گی۔ اس کے بعد عوامی رائے کو کبھی ایوب خان نے اپنے پاؤں تلے روندا، کبھی ضیا نے من مانی کی اور کبھی مشرف آسمان سے آ ٹپکے۔ یہ اس نعرے کا انکار ہی تھا کہ ملک یحییٰ جیسے غاصبوں کی وجہ سے دو لخت ہوگیا اور بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ کسی مجرم کو کبھی کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ اگر ایک بھی شخص کو سزا دینے کی جرأت کی جاتی، تو پھر کسی میں بھی عوامی رائے کی توہین کی ہمت نہ ہوتی۔
سینیٹر عثمان کاکڑ کے بقول ہمارے ملک میں 1977ء کے بعد کبھی انتقالِ اقتدار ہوا ہی نہیں، بلکہ شراکتِ اقتدار کے نام پر عوامی راہنماؤں کو صرف ٹرخایا گیا ہے۔ میں جب اس ملک کے عوام کی سوچ کو دیکھتا ہوں، تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی شخص جمہوریت اور ووٹ کی عظمت کو نہیں سمجھتا اور اس میں ان کا قطعی گناہ کوئی نہیں۔ کیوں کہ ہمیں نصاب میں کبھی یہ چیزیں پڑھائی ہی نہیں گئی ہیں بلکہ عوامی طاقتوں کو وِلن جب کہ مقتدر حلقوں کو ہیرو کی روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ یہاں پر تو لوگوں کو اعلیٰ سویلین اور ریاستی اعزازات کی خبر بھی نہیں اور خود مجھے حال ہی میں پتا چلا ہے کہ ہماری اعلیٰ ریاستی اعزازت تو نشانِ پاکستان، ہلالِ پاکستان، تمغائے پاکستان اور ہلالِ قائداعظم ہیں۔
ہمارے ملک میں بڑی مکاری کے ساتھ ’’ووٹ کی حرمت‘‘ کو عوامی نظروں میں گرا دیا گیا ہے اور یہ روز دیکھنے میں آتا ہے کہ ٹی وی پر بیٹھے تجزیہ نگار جو کونسلر جتنے ووٹ لینے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ وزرائے اعظموں کو تبدیل کرانے کی سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ووٹ کا تقدس تب پیدا ہوگا جب ہم اپنے گریبان میں جھانک کر سوچیں کہ کیا ایک ووٹ لینا اور پھر اسے اکثریت میں تبدیل کرنا آسان کام ہے؟ ایک انفرادی امتحان میں پاس ہوکر اعلیٰ عہدہ حاصل کرنا آسان کام ہے، لیکن ووٹ لینا اور عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنا اجتماعی قابلیت ہوتی ہے جو کہ اوّل الذکر سے لاکھ درجے مشکل ہے۔ اس نعرے کو عزت دینے کی بات کرنا کوئی بغاوت نہیں بلکہ آئین کی بالادستی کو مانتے ہوئے ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنے کا مطالبہ ہے۔ اگر آئین کہتا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، تو پھر اس کی ’’سپریمیسی‘‘ کو ماننا ہم سب پر فرض ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرنا قرض بھی۔
1947ء سے لے کر اب تک ہم اس کشمش میں مبتلا ہیں کہ کون سا نظام اس ملک کے لیے بہتر ہے اور کون سا نہیں؟ پھر ہم گلہ بھی کرتے ہیں کہ دنیا مریخ پر پہنچ گئی اور ہم پیچھے رہ گئے۔ ارے بھئی، دنیا اس بنیادی بحث سے نکلی ہے تو آگے بڑھی ہے اور اسی پوائنٹ پر ہم مار کھا گئے۔ ہمارے ہاں تو خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسیاں عوامی نمائندوں کو بننے نہیں دیا جاتا، لیکن قصورواری کا اعزاز انہی کے حصے میں آتا ہے۔ لیکن خیر، دیر آید درست آید، اس نعرے نے اب ہمارے ملک میں جگہ بنانی شروع کی ہے اور یقین مانئے اگر 2018ء کے انتخابات اس نعرے کی بنیاد پر لڑ کر کامیابی حاصل کی گئی، تو اس دن حقیقی معنوں میں اس ملک کی کامیابی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ کیوں کہ اگر پوری دنیا پر نظر دوڑائی جائے، تو اس نعرے کی اہمیت سمجھنے والے ہی ترقی کرتے نظر آتے ہیں اور جہاں پر بھی اس نعرے سے انکار کیا گیا، وہاں پر تباہی و بربادی ان کا مقدر بن چکی۔ ہم اگر عوامی نمائندوں پر اتنا ہی تنقید کریں جتنا ان کو اختیار ملتا ہے اور اتنا ہی مقتدر حلقوں پر کریں، جتنی وہ حکومت کرتے ہیں، تو چیزیں درست سمت میں چلنی شروع ہو جائیں گی۔ ورنہ خدا نخواستہ ڈگڈگی کی آڑ میں حقائق کو چھپا کر ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگیاں برباد کر دیں گے ۔ اللہ ہماری قوم کو سچ بولنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
…………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔