یہ دو سال مارچ کے مہینے کے آخری ہفتہ کی بات ہے۔ یہاں کے ٹی وی چینلز پر’’برے دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ دوستانہ ’’گپ شپ‘‘ الموسوم ’’مذاکرات‘‘ کا ڈھول تیزی کے ساتھ بج رہا تھا۔ سیاسی و غیر سیاسی میڈیائی حضرات و خواتین کے تبصروں اور’’پریڈیکشنز‘‘ کا ایک ’’باتمیز طوفان‘‘ بپا تھا۔ صوبہ کے ’’دھڑنا تختہ‘‘ سرکار نے ان کے لیے پشاور شہر میں دفاتر اور دیگر سہولیات مہیا کرنے کا آئیڈیا بھی ’’فلوٹ‘‘ کیا تھا۔ تو اس ’’مذاکرات گردی‘‘ کے دوران میں ایک ’’آسٹرین بدر‘‘ گورے مسٹر جوزف کو ہم نے’’ بقلمِ غیر‘‘ اپنے اور دوست انور حیات کے بارے کچھ ’’سبز باغ‘‘ پڑھوائے اور کچھ فون کے ذریعے سنوائے، جس سے متاثر ہو کر مزید سبز باغوں کی باتیں بہ نفسِ نفیس سننے اور سیکھنے کے لیے انہوں نے ہم کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دے ڈالی۔ ہم نے دعوت کو ’’جٹ منگنی پٹ بیاہ والی‘‘ اسٹیٹس دی اور دعوت کو فوراً سے پیش تر ’’قبول تھا، قبول ہے اور قبول ہوگا‘‘ کا لبادہ پہنا دیا۔ ان کی طرف سے دو عدد ریٹرن ٹکٹ بھجوائے گئے، اگرچہ ٹکٹ کے ریٹرن والے حصے پر ہمیں شدید اعتراض تھا۔ کیوں کہ کوئی ’’باوقوف‘‘ آدمی الباکستان سے ایک دفعہ پھسلے اور پھر واپس بھی آئے، تو اس میں ’’وقوف‘‘ کے ٹرسیز ہوں گے کیا؟ لیکن ساتھ جانے والے ساتھی نے اعتراض کو ’’اُوور روٹ‘‘ کر دیا۔ تیاری کے مرحلوں میں ایکسچینج آف تھاٹس کے دوران میں ہماری اُٹھک بیٹھک، رہن سہن اور کھلائی پلائی عادات پر آپس میں طویل لے دے ہوئی۔ بعینہٖ ہماری حکومت کی طرح ان کے گھر ہمارے دورہ کے لیے ایکشن پلان، ورک پلان اور تفریحی پلان بنے۔ مسٹر جوزف، مسز جوزف اور مس اینڈریا کی تین رکنی ٹاسک فورس بنی، جن کو اس وِزٹ کو کامیاب بنانے کے لیے ہائی لیول کمیشن کے لامحدود اختیارات بھی حاصل تھے۔ پاکستانی کھانوں کے پکانے کے لیے وہاں کے ایک فی میل ایکسپرٹ کی ریکوزیشن کا بھی تکلف کیا گیا۔ ہم نے سفارش کی تھی کہ اگر شیف ہی رکھنا ہے، تو ’’شف شف‘‘ کی بجائے کوئی نازک اندام فی میل ہی رکھی جائے۔ کیوں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ ابھی وہ اس عمل میں مصروف تھے اور ہم اگلے دن کی فلائٹ میں ان کے ایئرپورٹ میں مسٹر جوزف کے انتظار میں پائے گئے۔ ایئرپورٹ کے انتظار گاہ سے باہر ایک لمبے تڑنگے، سرخ و سفید آدم زاد کو گاڑی سے اُترتے دیکھا، تو تعارف کے بغیر ہم اس سے گلے ملے اور اس نے پوچھے بغیر دروازے کھول کر ہمیں بٹھا کے گھر پہنچایا۔ ان کی پُرشکوہ کوٹھی کا ’’صنفِ نازک‘‘ جیسا بیڈ روم سات دن تک ہمارے ’’تصوف‘‘ میں رہا۔ میزبانی کے ریکارڈ تو ٹوٹے ہی ٹوٹے، تیمارداری کی نئی تاریخیں بھی رقم ہوئیں۔ مہمان نوازی کے دوران میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ روزمرہ اور کبھی ’’رات مرہ‘‘ ہمارے پیر میں، پیٹ میں اور پیٹھ میں کہیں درد اور کہیں مروڑ کے ڈرامے نہ رچے ہوں۔ میڈم ’’میزبانیہ‘‘ پاس بیٹھ کر ہماری آؤ بھگت میں لگی نہ رہی ہوں اور اپنی’’سیلونی‘‘ ہاتھوں سے بنایا ہوا ’’شربتِ مروڑی‘‘ پلا کر ہم ڈریمنگ کی کیفیت میں نہ پہنچے ہوں۔ کئی ایک دفعہ تو ’’میزبانیہ‘‘ کاشوہرِ نامدار’’مائی وائف مسنگ، مائی وائف مسنگ‘‘ کا شور کرتے کرتے اور ڈھونڈتے ڈھانڈتے نامعلوم ’’وائف‘‘ کو ہمارے بیڈ روم میں معلوم کرکے برآمد کرتے تو پسینہ خشک کرکے حسرت سے ہمیں یاد دلاتے ہوئے سوال کرتے کہ یہ اس کی بیوی بھی تو ہے جو معالج بنی، آپ کے پاس بیٹھی ہے۔ کیا اس ناجائز تصرف کے بجائے، آپ ہمارے جائز مصرف کے لیے اُسے کچھ دیر کے لیے فری کرسکتے ہیں؟ اور ہم بادلِ نخواستہ’’مروڑ‘‘ کی تان کچھ دیر کے لیے کھینچ لیتے۔ وہ میری تنہائی پر پہلے معنی خیز مسکراہٹ بکھیرتے دوسری اٹیمپٹ میں قہقہہ مارتے، تیسرے میں ہم کو اکیلے چھوڑ کر، خود ہاتھوں میں ہاتھ اور ناک سے ناک ملا کر کمرے سے نکل جاتے اور ہماری مبارک زبان سے اس پریمی سینئر جوڑے کے لیے ضعیف سی بددُعا اس شعر کی شکل میں نکلتی کہ
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا خدا تجھ کو بھی میری طرح تنہا رکھے
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فرازؔ
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
جس ویلے وہ ہنستے مسکراتے، بے گھر بیمار کو سوگوار کرکے کمرے سے نکل جاتے،اُس ویلے ہم سوچ سوچ میں اپنی ’’بالغ‘‘ نظری اور حوصلہ مندی کا لیول جانچنے کے لیے قدِ آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور عبدالرحیم روغانیؔ بابا کے یہ اشعار خود پر صادق جان کر بار بار خود کو سناتے اور ’’بسترِ مشترکہ‘‘ پر اکیلے تشریف ’’پھیلا‘‘ کر اپنے سیاست دانوں کی طرح سونے کا’’ کڑوا گھونٹ‘‘ پینے کی ناکام مشق شروع کرتے……!
آئینہ کی می خپل زان معلومہ وو
پہ خپل زان کی می جہان معلومہ وو
سترگے ھسے می ترے بل خوا واڑہ ولے
ما پہ مینہ کی جانان معلومہ وو
روغانےؔ دومرہ دَ شُنڈو وگے نہ وو
دائے ھسی ستا ایمان معلومہ وو
آپ نے کولمبس کا نام ضرور سُنا ہوگا۔ نہیں سنا؟ تو خیر ہے، ابھی سن لیں۔ اس شخص کے بارے ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ ایک پاگل سیلانی ہوگا۔ اس کا شایدکوئی گھر بار تھا نہ بیوی بچے۔ کوئی حلقۂ احباب تھا نہ دیگر یار دوست۔ اسی لیے سمندر ماپنے پرخود کو مامور کیا۔ کسی طرح وہ ایک’’نو مین لینڈ‘‘ میں پہنچ گیا اور اس کو امریکہ کا نام دیا۔ ہاں، یہی امریکہ جس نے اب پختون ریجن میں بم بارود اور اسلحہ کے ڈھیر لگائے ہیں۔ اس کی ٹیسٹنگ و فروخت کا بازار گرم کیا ہے۔ تاکہ ’’تادمِ دنیا‘‘ یہاں جنگ کی کیفیات جاری رہیں۔ ’’وار اکانومی‘‘ پھلے پھولے، ان کے اسلحہ کے کارخانے دن رات چلتے رہیں۔خون بہتا رہے۔ اس خون کے سودے کے بدلے بھوکے ’’ضیاء الحقوں‘‘ کو ڈالرز ملتے رہیں۔ دنیا پر اُن کی تھانیداری چلتی رہے اور ناہنجار کولمبس کے وطن کے باسی پیتے رہیں، جھومتے رہیں اور عیاشی کے زندگی سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ اس کشت و خون کے بازار کو ’’سجانے‘‘ کا سرغنہ یہی کولمبس ہے۔ اور اسی لیے ہم اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ آپ نے کولمبو کا نام بھی ضرور سنا ہوگا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ کولمبس کے نام پر کوئی شہر ہوگا۔ جس سے شدید نفرت کی وجہ سے ہم دل ہی دل میں کولمبو کو بھی ناپسندیدہ شہر سمجھتے تھے اور وہاں جانا ’’گناہِ صغیرہ‘‘ سمجھتے تھے۔ بہ شرط یہ کہ بوجھ اپنی جیب پر ہو۔ تاہم بوجھ دوسرے کی جیب پر ہو، تو پھر کیا کولمبو کیا امریکہ، جہاں بھی جیسے بھی کوئی ہمیں ’’ایکسپورٹ‘‘ کرے، بے شک ٹرک میں سپلائی کرے یا کنٹینر میں پیک کرے، ہم دل و جان سے ’’رَیڈی‘‘ ہیں۔
جب باتوں باتوں میں انور حیات نے ہماری ریزرویشن کو قہقہے میں اُڑا دیا اور قرار دیا کہ کولمبس کا کولمبو سے سرے سے کوئی تعلق نہیں، تو دل کا بوجھ ہلکا تو ہوا، لیکن اپنی کم علمی پر بہت پچھتاوا ہوا اور اس پچھتاوے کا مداوا کرنے کے لیے ارادہ کیا کہ احوالِ سفر لکھ کر’’حقِ کولمبو‘‘ ادا کریں گے لیکن پاکستان واپس آکر ہم اپنی بھول بھلیوں میں گم ہوئے، جس ڈائری میں یادداشت قلم بند کی تھیں، وہ بھی آس پاس نو دو گیارہ ہو گئی اور پھر بھول ہی گئے کہ ہم کولمبو بھی گئے تھے……!
یاد آتی ہیں مجھے اکثر
بھول جانے کی عادتیں اس کی (جاری ہے)
……………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔