منظور احمد پشتین اور پختون تحفظ تحریک

منظوراحمد پشتین اورپختون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) اتنی پرانی تحریک نہیں ہے۔ اس میں منظور احمد کے علاوہ کئی دیگر راہنما بھی شامل ہیں لیکن ’’پختون تحفظ تحریک‘‘ اور منظور احمد پشتین دونوں لازم و ملزوم بن گئے ہیں۔ منظورپشتین انسانی حقوق کے کارکن کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ موصوف ایم اے تک تعلیم یافتہ ہیں۔ بالآخر ’’پختون تحفظ تحریک‘‘ کی قیادت منظور احمد پشتین کی منزل ٹھہری۔ چیک پوسٹوں پر پختونوں کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک، لاپتا پختون افراد کی برآمدگی، ملزمان، مجرمان پر سول و کریمنل عدالتوں میں کارروائی، پختونوں کے علاقوں سے فوج کا انخلا اور نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کی فوری گرفتاری پختون تحفظ تحریک کے اہم مطالبات ہیں۔
نقیب اللہ محسود کے حق میں دیے گئے اسلام آباد کے تاریخی پُرامن دھرنے میں منظور احمد پشتین کی تحریک محسود تحفظ تحریک 2014ء سے تبدیل ہو کر پختون تحفظ تحریک بن گئی۔ یوں بلوچستان اور کے پی کے کی قوم پرست پارٹیاں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہوئے تحریک کی کامیابی کی ضمانت بن گئی ہیں۔ جذبات اور احساسات کا طوفان ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پختون تحفظ تحریک ان مذکورہ مطالبات کے علاوہ ریاست سے آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ دوہری اور امتیازی رویے کے برخلاف کھڑی ہے۔ تحریک والوں کا کہنا ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہمیں برابر کا شہری سمجھا جاتا ہے یا نہیں؟ پی ٹی ایم ریاست سے مطالبہ کرتی ہے کہ صرف سنٹرل پنجاب پاکستان نہیں بلکہ ہمیں بھی پاکستانی مان کر ہمیں ہمارے آئینی وقانونی حقوق اور وسائل پر اختیار دیا جائے۔ ہمیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ پختون قومی وحدت اور آئینی و قانونی طور پر سلوک کرنے کا دعویٰ پی ٹی ایم کی تقاریر کا عنوان ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی ایم کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک اس کے سوشل میڈیاپیج پر تقریباً دو لاکھ لوگ شامل ہوئے ہیں۔
سوات کا جلسہ جس میں پی ٹی ایم کے راہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا۔ بعد میں سوات قومی جرگے کے آرمی کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں اسے ملتوی کیا گیا۔ پی ٹی ایم کے راہنماؤں نے سوات قومی امن جرگہ کے راہنماؤں سے ملاقات کی اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بات کی گئی۔

16 مارچ کو کابل کے ہزاروں پختون نیشنلسٹوں کا منظور پشتین کے حق میں مظاہرہ۔

سوات کی صورتحال اور مسائل دیگر پختون علاقوں سے مختلف ہیں۔ سوات کے مسائل چیک پوسٹ پر ناروا سلوک، نامعلوم جگہوں پر لاپتا افراد، چادر و چار دیواری کا تقدس، کنٹونمنٹ ایریاز اور ایکسپریس وے کے علاوہ بھی ہیں جن میں سول ایڈمنسٹریشن کو اختیارات کی منتقلی، مجسٹریسی نظام، دہشت گردوں پر کریمنل عدالتوں میں مقدمے، سیاحت، سکولز اور کالجز کی تعمیر، نئے بائی پاس،انڈسٹرئل زونز، جنگلات کی رائلٹی، لینڈ ایکویزیشن، عدالتیں اور جیل، ٹریفک مسائل، تعمیر نو وغیرہ جیسے مسائل شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پختونخوا پاٹا اور فاٹا کے علاقوں میں بھی ذکر شدہ امور کی ضروریات اور مطالبات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس مد میں سوات قومی امن جرگہ کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو اگر عملی جامہ پہنایا گیا، تو یہ پاکستان آرمی کی عزت و وقار میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اس طرح یہ ایک کامیاب ٹیسٹ کیس اور ایک بہترین مثال بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ بعد ازاں آرمی کو اپنی اصل جگہ جہاں اس کو ڈیوٹی دینی ہوگی، وہاں پیشہ ورانہ ڈیوٹی دی سکے گی۔ سوات میں مکمل طور پر دہشت گرد اور دہشت گردی ختم ہوگئی ہے، جس کا اعتراف حکومت سے لے کر خود فوج کے اعلیٰ عہدیدار تک وقتاً فوقتاً کرچکے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کو نان ایشوز سے فرصت نہیں، تو وہ بھلا کیوں اس قسم کی تحاریک پر کان دھرے گی۔ لاکھوں لوگ کسی دشمن ملک کے ہاتھ لگ جائیں، یہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے منظور پشتین کے احتجاج کے متعلق اپنے ٹویٹر پر تحریک کو سراہتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ میرا خیال ہے کہ فوج کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی پی ٹی ایم کے اٹھائے گئے مطالبوں پر سنجیدگی سے غور کرکے سوچنا چاہیے اور اس کے جائز مطالبات کو جلد از جلد حل کیا جانا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ معاملہ بہت دور نکل جائے اور حکومتی کنٹرول سے بھی باہر ہوجائے۔
میرے علم کے مطابق پی ٹی ایم کے وزیرستان،ژوب، قلعہ سیف اللہ اور کوئٹہ جلسے کامیاب ہوئے ہیں۔ اب تحریک کے بڑوں کا اسے دیگر اضلاع تک بڑھانے کا ارادہ ہے۔ اسلام آباد کا دِہ روزہ کامیاب دھرنا اس تحریک کے لیے آکسیجن کا کام کرگیا اور یوں تحریک کی تنظیم نو کی گئی۔ اگرچہ ان کے مطالبات زیادہ تر فوج کے متعلق تھے، لیکن سول حکومت نے ان کی مطالبات پر یقینی دہانی کروائی اور دھرنے کو ملتوی کر وا دیا۔ اس سے پہلے بھی منظور احمد پشتین چھوٹی چھوٹی تحریکوں کے ذریعے اپنی آواز لوگوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ پشتین ا پنی تحریک کا دائرہ کار فاٹا قبائیلی علاقوں سے لے کر بلوچستان اور کراچی تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے آئین اور قانون کے اندر رہ کر اپنے مطالبات پیش کیے ہیں۔ اس لیے اس تحریک کو افرادی قوت اور امداد، قوم پرست تحریکوں سے ملنے کا قومی امکان ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس تحریک میں ہر سیاسی پارٹی کے کارکن شرکت کر رہے ہیں۔ یاد رہے وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پی ٹی ایم ایک غیر سیاسی تحریک ہے لیکن اس کے ڈیمانڈز سیاسی ہونے کے ساتھ آئینی اور قانونی ہیں۔ پورے خیبر پختونخوا اور جنوبی بلوچستان سے لے کر کراچی تک کے علاقوں سے زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اس تحریک میں دھڑا دھڑ شامل ہو رہے ہیں۔ یہ تحریک ایک طرح سے انقلاب کی طرف اشارہ کر رہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آتش فشاں پھٹ پڑے اور سب کچھ راکھ کر ڈالے۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔