پاک افغان تجارت کی الٹی گنتی شروع

کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار افغانستان تھا لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے بانی صدر زبیر موتی والا کے مطابق دونوں ممالک کا تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالر سے زائد تھا، جو گذشتہ دوسالوں کے دوران میں بتدریج کم ہو کر ایک ارب 70 کروڑ ڈالر رہ گیا۔ لگ بھگ پچاس فیصد تجارتی لین دین میں کمی رونما ہوئی۔ حتیٰ کہ آٹا، گوشت اور کپڑے کی برآمدات میں بھی نمایاں کمی ہوئی۔ اب افغانی شلوار قمیص بھی چین اور بھارت سے منگواتے ہیں۔
پاکستان کو افغان مارکیٹ میں بھارت اور ایران ہی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ چین کے ساتھ بھی مسابقت کا سامناہے۔ موتی والا جنہوں نے حال ہی میں کابل کا تفصیلی دورہ کیا، بتاتے ہیں کہ بھارت تجارت اور کاروبار کے میدان میں پاکستان کو ایک منصوبہ بندی کے تحت بچھاڑ رہا ہے۔ وہ رعایتی نرخوں پر نہ صرف ساز و سامان برآمد کرتاہے بلکہ آمد ورفت کے لیے بھی ہوائی جہازوں کے سستے ٹکٹ فراہم کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں مفت ویزے بھی جاری کیے جاتے ہیں اور افغان شہریوں کو بھارت کے اندر پولیس رپورٹنگ سے بھی استثنا دیا جاتا ہے۔
ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق حیات آباد پشاور کے ہسپتال جو افغان مریضوں سے اٹے پڑے ہوتے تھے، اب وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ بھارت افغان شہریوں کو سرکاری ہسپتالوں میں رعایتی نرخوں پر علاج فراہم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں آمد و رفت میں بھی بہت سی آسانیاں ہیں۔
یاد پڑتا ہے کہ صدر اشرف غنی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ 2017ء تک پاک افغان تجارت کو پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ دو طرفہ تعلقات میں تناؤ اور سرحدوں پر ہونے والی غیر معمولی فائرنگ اور محاذ آرائی کے باعث یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ دونوں ممالک کے درمیان 1965ء سے تجارتی راہداری کا ایک معاہدہ موجود ہے۔ 2010ء میں اس معاہدے میں ترمیم کرکے افغانستان کو پاکستان کے راستے واہگہ کے راستے بھارت کو اپنا مال برآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ بدلے میں پاکستانی ٹرکوں کو افغانستان کے تمام علاقوں میں جانے کی اجازت دی گئی۔ بعدازاں اس میں تاجکستان کو بھی شامل کیا گیا۔ تاجکستان بھی ایک لینڈلاک ملک ہے، لہٰذا اسے کراچی اور گوادر کے راستے درآمدات اور برآمدات کی اجازت دی گئی۔ پاکستان اور تاجکستان، واہ خان کے راستے ’’سی پیک‘‘ منصوبوں میں سے ایک بڑی شاہراہ کی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، تاکہ تاجکستان بھی ’’سی پیک‘‘ سے منسلک ہوسکے۔
بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات میں بہتری آنے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ خرابی ہی آتی گئی۔ دونوں ممالک نے سیاسی مسائل کو تجارتی اورکاروباری معاملات سے الگ رکھنے کے بجائے ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کے لیے تجارت کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حکومت پاکستان اکثر پاک افغان سرحد بند کر دیتی ہے۔ افغان تاجروں کے نقصان یا مشکلات کا خیال نہیں رکھاجاتا۔ رفتہ رفتہ افغانستان نے تجارت کے لیے ایران کا راستہ اختیار کرلیا۔ چاہ بہار کی بندرگاہ کو بھارت نے اسی مقصد کے لیے تیزی سے تیار کیا، تاکہ افغانستان کا پاکستان پر انحصار کم کیاجاسکے۔
پاکستان کے برعکس چین نے کئی ایک ممالک کے ساتھ تنازعات کے باوجود تجارتی روابط میں نہ صرف کمی نہیں آنے دی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ بھی کیا۔ چند دن قبل ایک بھارتی اخبار کی خبر تھی کہ گذشتہ برس بھارت اور چین کے مابین 84.44 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی، حالاں کہ اسی دوران میں دونوں ممالک کے درمیان 73 دن تک ڈوکلان کی سرحدپر نہ صرف چھڑپیں ہوئیں بلکہ کشیدگی باقاعدہ جنگ کرتے کرتے رہ گئی تھی۔

گذشتہ برس بھارت اور چین کے مابین 84.44 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی. (Photo: Global Gujarat News)

علاوہ ازیں چین نے بھارت کو عالمی سطح پر بھی زبردست مشکلات سے دوچار کیا۔ اسے نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن نہیں بننے دیا۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جیش محمد کے لیڈر مسعود اظہر کو دہشت گرد قراردینے کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ اس طرح پاک چین اقتصادی راہداری بھی بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن تجارت اور لین دین میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہی حال امریکہ اور چین کے تعلقات کا ہے۔ امریکہ چین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن تجارتی اور کاروباری معاملات میں نہ صرف ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں بلکہ دونوں ممالک کی معیشتیں ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتی ہیں۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا کلیدی ستون کبھی تجارت یا شہریوں کے لیے زیادہ سے زیادہ روزگار کا حصول نہیں رہا، بلکہ اس کی سوچ پر اسٹرٹیجک ایشوز کا غلبہ رہا۔ ہمارے پالیسی سازوں کی ذہنی ساخت اور تربیت ایسی نہیں کہ وہ دنیا کے ساتھ تنازعات کے ساتھ ساتھ تجارتی تعلقات بھی بیک وقت جاری رکھ سکتے ہوں۔ لگ بھگ یہی حال ہمارے ہمسایہ ممالک کا بھی ہے، جو قبائلی سرداروں کی طرح خارجہ پالیسی برتتے ہیں۔ اس طرزِ عمل نے پاکستان اور افغانستان کے شہریوں کے معاشی مفادات کو زبردست نقصان پہنچایا۔ پاکستان کے لیے افغانستان میں کلمۂ خیر کہنے والا کوئی نہیں رہا۔ پاکستان میں افغانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ ان سے جلد از جلد جان چھڑانے کی خواہش کا کھلے عام اظہار کیا جاتا ہے۔
عالم یہ ہے کہ گذشتہ دو سالوں سے پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس تک نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے بہت سارے تحفظات جائز بھی ہیں جیسے کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔ سمگلنگ ہوتی ہے۔ افغانستان کی قومی پیداوار کا 50 فیصد منشیات سے حاصل ہوتا ہے۔ زیادہ تر پاکستان کے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کو استعمال کرکے بیرون ملک سمگلنگ کی جاتی ہے۔ افغانستان سرحد کے تقدیس کو تسلیم نہیں کرتے۔ شکایات کے باوجود ونوں ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کرنا ہے۔ کیوں کہ ہمسائیوں کے ساتھ تعلقاتِ کار استوار کرنے میں ہی دونوں کا فائدہ ہے۔ گذشتہ دنوں اسلام آباد میں امتیازگل کی سربراہی میں چلنے والے ’’سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹیڈیز‘‘ اور برطانوی ادارے ’’سیفر ورلڈ‘‘ کے زیرِ اہتمام پاکستان اور افغانستان کے سیاست دانوں، دانشوروں، سابق سفارت کاروں اور تاجروں کے مابین سہ روزہ مذاکرات ہوئے۔ متفقہ اعلامیہ میں شرکا نے دونوں حکومتوں پر زور دیا کہ وہ تجارت کو سیاست سے الگ کر یں۔ سیاسی اختلافات کی وجہ سے تجارت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ افغان وفد نے کہا کہ پاکستان کا بھارت سمیت کوئی بھی دوسرا ملک متبادل نہیں ہوسکتا۔ یہ بالکل ایک جائز مطالبہ ہے۔
خوشی کی بات ہے کہ ایک غیر سرکاری ادارہ افغانستان اور پاکستان کی سول سوسائٹی اور تاجروں کو قریب لانے اور مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ ایسی کاوشوں میں مزید تیزی لانے اور انہیں ہمہ جہتی بنانے کی ضرورت ہے۔ خاص کر دونوں ممالک کے میڈیا اور جامعات کے مابین وفود کے مسلسل تبادلوں کو یقینی بنایا جانا چاہیے، تاکہ وہ رائے عامہ ہموار کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکیں۔

…………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متنفق ہونا لازمی نہیں۔