سرِدست روزنامہ مشرق میں چھپنے والی ایک خبر ملاحظہ کیجیے: ’’سوات کے علاقہ خوازہ خیلہ میں چیک پوسٹوں پر سخت چیکنگ کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والے سول سو سائٹی کے ارکان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی دفعات کے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا۔ گذشتہ روز سول سو سائٹی نے خوازہ خیلہ بازار میں پُرامن احتجاج کیا تھا۔ آدھے گھنٹے احتجاج کے بعد پُرامن طور پر مظاہرین منتشر ہوئے تھے جس کے بعد خوازہ خیلہ پولیس نے مظاہرین کے چھ رہنماؤں باچا گل، ایمل خان، احمد شاہ، اظہار خان، حسین شاہ اور لطیف خان کے خلاف ایس ایچ او خوازہ خیلہ کی مدعیت میں دفعات سیون اے ٹی اے، نائن اے ٹی اے، ون ٹوینٹی فور اے، ون ایٹی سکس، تھری فارٹی سیون، ون ایٹی نائن، ون فارٹی سیون اور ون فارٹی نائن کے تحت ایف آئی آر درج کرا دی ہے۔ ایف آئی آر میں اِن افراد پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مظاہرے کے دوران ریاست کے خلاف بے ہودہ الفاظ استعمال کیے ہیں، ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا ہے، بازار میں دکانوں کو زبردستی بند کرایا ہے، عوام میں خوف وہراس پیدا کیا ہے، ٹریفک میں خلل ڈالی ہے، آپریشن ایریا میں بغیر خصوصی اجازت کے مظاہرہ کیا ہے اور سیکورٹی فورسز کے خلاف باتیں کی ہیں۔ آخری اطلاعات تک پولیس کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لاسکی۔ دوسری جانب سول سو سائٹی کے ارکان نے سوشل مےڈیا پر پُرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرانے کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ احتجاج کی تمام وےڈیو موجود ہے جس میں ریاست کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی تھی اور پُرامن احتجاج کیا گیا تھا۔‘‘
مجھے ایف آئی آر کی جو کاپی ملی ہے، وہ ایس ایچ او خوازہ خیلہ تھانہ کی درج شدہ ہے۔ اس تحریر کے ذریعے میں حضرتِ ایس ایچ صاحب کو کھلا چیلنج دیتا ہوں کہ جو ایف آئی آر وہ درج کرچکے ہیں، اس کا ایک بھی نکتہ ثابت کرکے دکھائیں، تو پشتون شرط کے مصداق ’’بریت بہ وخریم۔‘‘

صاحب کی ایف آئی آر کا پہلا نکتہ ملاحظہ ہو: ’’مظاہرے کے دوران ریاست کے خلاف بے ہودہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔‘‘ مظاہرے کی تمام ریکارڈنگ میرے پاس موجود ہے، اسے بار بار دیکھنے کے بعد بھی مجھے ایک بھی بے ہودہ لفظ سننے کو نہیں ملا۔ اگر ایسا کوئی لفظ جو ہمارے کیمرے ریکارڈ نہیں کر پائے، حضرت ہمیں دکھا دیں یا سنا دیں، تو محولہ بالا شرط پوری کردوں گا۔ ہاں، اب یہ بھی قابلِ بحث ہے کہ آپ کی ڈکشنری میں ’’بے ہودگی‘‘ کے کیا معنی ہیں؟
اب ایف آئی آر کا دوسرا نکتہ ملاحظہ ہو: ’’بازار میں دکانوں کو زبردستی بند کرایا گیا ہے۔‘‘ حضرت، صرف ایک دکان دار ایسا دکھا دیں جس کی دکان زبردستی بند کرائی گئی ہو۔ اور اگر نہیں دکھا سکے، تو کیا آپ بھی میری والی شرط پوری کریں گے؟
تیسرا نکتہ ’’عوام میں خوف وہراس پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ حضرت، یہ تو عجیب خوف و ہراس ہوا۔ عوام کی فوج ظفرِ موج مظاہرہ کو لیڈ کرنے والوں کی ہمرکاب ہے اور اپنے مطالبات کے حق میں آواز بلند کر رہی ہے، مگر حضرت فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔
چوتھا نکتہ ’’ٹریفک میں خلل ڈالی گئی ہے۔‘‘ اَجی حضرت، ایک ایس ایچ اُو کے ہوتے ہوئے یعنی قانون سے آگاہ ہوتے ہوئے مجھے آپ کو یہ بھی بتانا پڑے گاکہ یہ تو عوام کا آئینی اور قانونی حق ہے کہ وہ اپنے جائز مطالبات کے حق میں مظاہرے بھی کریں گے، بھوک ہڑتال کا اہتمام بھی کریں گے، اس کی مدد سے اعلیٰ حکام تک اپنی آواز بھی پہنچائیں گے۔ اب اگر آپ عوام کا یہ آئینی و قانونی حق چھیننا چاہتے ہیں، تو بسم اللہ کیجیے۔ معذرت خواہ ہوں، وہ تو آپ کرچکے ہیں۔

پانچواں نکتہ ’’آپریشن ایریا میں بغیر خصوصی اجازت کے مظاہرہ کیا گیا ہے۔‘‘ لو دسو، اجازت، اور وہ بھی ’’خصوصی‘‘؟؟؟ حضرت دل پہ مت لیجیے گا، یہ آپریشن بھی پشتو کہاوت ’’د اُوخ پوسکئی‘‘ کے مصداق ہے۔ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آپریشن اپینڈکس سے شروع ہوا تھا، اہلِ سوات کا دل اور گردہ نکالنے کے بعد اب آنکھیں بھی نکالی جا رہی ہیں۔ گویا آپریشن، ایک اچھے خاصے پوسٹ مارٹم کی شکل اختیار کرگیا۔
حضرت، ایک بات اور ابھی کل پرسوں مینگورہ کے سیکڑوں زمینداروں نے پریس کلب کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ فرمایا تھا، کیا انہوں نے اس کی ’’خصوصی اجازت‘‘ لی تھی؟ مدین میں سیکڑوں لوگوں نے کچھ روز قبل مظاہرہ کیا تھا، کیا انہیں ’’خصوصی اجازت‘‘ ملی تھی؟ کبل نیک پی خیل میں ان دنوں درجن بھر مظاہرے ہوئے ہیں، ان کے لیے ’’خصوصی اجازت‘‘ لی گئی تھی؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے، تو پھر تو پوری دال کالی ہے۔
آخری نکتہ ’’سیکورٹی فورسز کے خلاف باتیں کی ہیں۔‘‘ جس ریاست میں ہم رِہ رہے ہیں، اس میں کئی ادارے ملک کو قائم رکھنے کے دعویدار ہیں۔یہاں پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج اور دیگر سول ادارے ہیں۔ یہ تمام ادارے عوام اپنی جیب سے چلاتے ہیں۔ عوام ٹیکس ادا کرنے والے ہیں اور انہی ٹیکسوں سے مذکورہ بالا اداروں میں کام کرنے والے ملازمین تنخواہیں لیتے ہیں۔ گویا عوام ہی پورا نظام چلانے والے ہیں۔ اب اگر عوام کو اپنے اداروں (پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج وغیرہ) سے کوئی شکایت ہے، تو انہیں سنا جائے۔ ہاں، یہ ہے کہ کسی ادارے کی تضحیک بالکل بھی اچھی بات نہیں۔ مگر کیا عوام کی تضحیک اچھی بات ہے؟ انہیں محض کیڑے مکوڑے سمجھنا اچھی بات ہے؟ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا اچھی بات ہے؟ انہیں لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑا رکھنا اچھی بات ہے؟ حضرت، کچھ تو خدا کا خوف کیجیے۔ آپ نے ایک دن مرنا بھی ہے۔ اپنے اعمال کی جواب دہی بھی دینی ہے۔
جاتے جاتے نہ صرف حضرتِ ایس ایچ اُو ’’صاحب‘‘ نوٹ فرمائیں بلکہ ہر وہ شخص چاہے وہ مجھ سا کوئی نام نہاد صحافی ہو، رپورٹر ہو، سماجی ’’شخصیت‘‘ ہو، سیاست دان ہو، سول سرونٹ ہو یا پھر کوئی عام شخص، جب تاریخ رقم کی جائے گی، تو کئیوں پر لعنت بھیجی جائے گی۔ اس دن سے بچنے کے لیے ہر کسی کو قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ کل جب ہماری قبروں پر سنگ باری کی جائے گی، تو اس وقت ہماری روحوں کو بڑی تکلیف ملے گی۔
حضرت، بس اُس روز کی تکلیف سے بچنے کے لیے یہ چند سطور ’’بطورِچیلنج‘‘آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کی جا رہی ہیں۔ اگر آپ ایک بھی نکتہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے، تو مجھے اپنی عزیز مونچھوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔