کالج کالونی کی یہ عالی شان مسجد جس کو عرف عام میں ’’اللہ اکبر جمات‘‘ کہتے ہیں، اسی نام سے نہیں بنائی گئی تھی۔ یہ کالج کالونی کے نام پر یہاں کے رہنے والے پروفیسروں اور اسٹاف کی سہولت کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ ورنہ ایک مسجد سنٹرل اسپتال کے احاطے میں پہلے سے موجود تھی اور چوں کہ امن و امان کا دور دورہ تھا اور اسپتال کے گرد پودوں کی سدا بہار باڑ کے سوا اور کوئی پردہ یا گیٹ نہیں ہوا کرتا تھا، تو کالونی کے لوگ بھی پنجگانہ نماز یہاں پڑھ سکتے تھے، مگر ’’معمارِ سوات‘‘ والی صاحب نے کالج کالونی کے لیے ایک الگ اور جدید مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کا نقشہ مکمل طور پر دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی مسجد سے نقل کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے اسٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کی ایک ٹیم جو محمد کریم صاحب اور عبدالرؤف پر مشتمل تھی، اکوڑہ خٹک بھیجی گئی اور مرحوم مولانا عبدالحقؒ کی اجازت اور تعاون سے اس کے ہال کی اندرونی پیمائش اور میناروں کی تفصیلات حاصل کی گئیں۔ مذکورہ ٹیم نے اپنی آمد کے فوراً بعد سارے نقشہ جات عبدالرؤف ڈرافٹس مین سے بنوا کر والی صاحب کی خدمت میں منظوری کے لیے پیش کردیے۔ والی صاحب نے کچھ رد و بدل کے بعد مسجد کی تعمیر کی منظوری دے دی۔ اس میں سب سے جو اہم اور بنیادی تبدیلی کی گئی، وہ دو میناروں کے بجائے ایک مینار جنوب کی طرف رہنے دیا۔ باقی تمام چھوٹے بڑے مینار ا ور شمالی مینار حذف کر دیے گئے۔ والئی سوات نے اس کو کسی ٹھیکے دار کی بجائے محکمانہ نگرانی میں تعمیر کا حکم دے دیا۔ اس طرح اس کو سارا میٹریل ریاست کے اسٹور سے اور عام لیبر فوج سے فراہم کیا گیا۔ کام کی خصوصی نگرانی کے لیے ایک مشہور پنجابی مستری ’’نور محمد چاچا‘‘ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مرحوم ایک اعلیٰ پائے کے کاریگر تھے۔ وہ اتنے سخت ’’چین اسموکر‘‘ تھے کہ صبح ایک سگریٹ سلگاتے، تو کام کے دوران میں اسی سے دیگر سگریٹ سلگاتے جاتے اور یہ سلسلہ کھانے کے بریک تک چلتا رہتا۔ دیواروں میں خود اینٹ لگواتے۔ کونوں کی اینٹ تو ضرور خود چن دیتے، تاکہ لائن اور لیول میں بال برابر فرق نہ آئے۔ والئی سوات کو اس مسجد کی تعمیر سے اس قدر دلچسپی تھی کہ روز شام کو اس کا چند منٹ کے لیے ضرور معائنہ کرتے۔
اکوڑہ خٹک والی مسجد کی محراب کے برعکس اس کی محراب سادہ اور پُرکشش ہے۔ اس محراب کے نقش و نگار میرے بھائی فضل معبود نے ڈیزائن کیے تھے، جو اُس وقت اسٹیٹ پی ڈبلیو ڈی میں اسسٹنٹ ڈرافٹس مین تھے، مگر برا ہو انسانی فطرت کی کمینگی کا، محکمے کے ایک اہلکار نے ان کاغذات سے فضل معبود کا نام مٹا کر اپنا نام لکھ دیا اور والئی صاحب سے اس کی منظوری لے لی۔ والی صاحب نے اُن سے پوچھا بھی کہ یہ محراب کس نے ڈیزائن کی ہے؟ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے جواب دیا: ’’حضور! یہ اس نمک خوار بندے نے بنائی ہے۔‘‘ بہرحال خدا کو سب کچھ معلوم ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے؟
مسجد کے اکلوتے مینار کے گنبد کے لیے پنجاب کے مشہور سرامکس کارخانوں سے ٹوٹے ہوئے چینی برتنوں کا اسکریپ لایا گیا، جس کو مقامی کاریگروں نے نور محمد چاچا کی نگرانی میں نہایت مہارت سے لگوایا۔ اس پر سورج کی کرنیں پڑتیں، تو چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔ مسجد کے دروازوں اور کھڑکیوں میں بہترین کوالٹی کا شیشم استعمال کیا گیا۔ ہال کے اندر ’’وال ٹو وال‘‘ قالین بچھایا گیا۔ مسجد کے برآمدے کی پیشانی پر والئی سوات کے حکم سے ’’اللہ اکبر‘‘ کے الفاظ تحریر کیے گئے، یہ مینگورہ کے اس وقت کے مشہور آرٹسٹ اور سائن بورڈ لکھنے والے ’’محمد ایوب‘‘ نے تحریر کیے تھے۔ آخری معائنہ کے وقت والی صاحب نے محمد کریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یہ لکھائی کسی نے کی ہے؟ اس نے تو الف اور کاف کو ملانے کے بجائے ’’کاف اور ب‘‘ کے اوپر نشانِ جذم لگایا ہے۔ پھر فرمایا کہ چلو جو ہوا ہم سب جانتے ہیں کہ اس کو کیسے پڑھنا چاہیے؟
مختصر یہ کہ کالج مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ اس کے مختلف مراحل کی ادائیگی اسی نام سے ہوتی رہی۔ اس وقت کا ریکارڈ اگر کہیں موجود ہو، تو ڈیلی ویجز کے رجسٹر میں، گودام سے سریا اور سیمنٹ کی سپلائی میں، بازار سے خریدے گئے آئیٹمز کے بلوں میں، سب میں اس کا نام ’’مسجد کالج کالونی‘‘ ہے۔ نجانے یہ ’’اللہ اکبر جمات‘‘ نام کیسے چل پڑا کہ سب کی زبان پر چڑھ گیا۔
ریاستی دور میں اس کی دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی اور ہر وقت اس کی چمک دمک برقرار رہتی تھی۔ ادغامِ ریاست کے بعد جس طرح دوسرے ادارے تباہی و بربادی کا شکار ہوئے، اس مسجد کی نگہداشت سے بھی غفلت برتی گئی۔ مجھے معلوم نہیں کہ آج کل اس مسجد کا انتظام کون کرتا ہے اور اس کی سالانہ دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کس کی ذمے داری ہے؟ لیکن ظاہری طور پر اس کی حالت تسلی بخش نہیں۔
کالج کالونی کے مکینوں اور جہانزیب کالج سے پیار کرنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس خوبصورت مسجد کی نگہداشت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھیں۔ یہ مسجد سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔
یا رب وہ پیارے چہرے کس دیس بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں تر ستیاں ہیں
…………………………………………………..
لفظونہ اتنظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔