آج پھر نوجوان کے سامنے وہی اجنبی تھا جس کی بے لوث خدمت وہ تین دن سے کر رہا تھا۔ نوجوان نے سوچا: ’’آج اس سے اس کا تعارف پوچھنا چاہیے۔‘‘ چنانچہ نوجوان نے بڑی ملائمت سے پوچھا: ’’چچا جان! آپ کون ہیں؟ اور مکہ مکرمہ کس نیت سے آئے ہیں؟‘‘،’’بیٹا! میرا نام جندب بن جنادہ ہے، لوگ مجھے ابوذر کہتے ہیں، قبیلہ غِفار سے میرا تعلق ہے، جو یثرب کے قریب بستا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ سچے اور آخری نبی کی آمد ہوگئی ہے اور ان کا ظہور مکہ مکرمہ کی بے آب و گیاہ وادی میں ہوا ہے۔ بیٹا! میں سارا سارا دن اس کی تلاش میں حیران و سرگردان پھرتا رہتا ہوں۔ اور شام کو اللہ کے گھر میں آرام کی غرض سے پہنچ جاتا ہوں۔ لیکن تم تو میرے لئے فرشتۂ رحمت ثابت ہوئے ہو۔ میرا تعارف اور مقصد پوچھے بغیر میری خدمت میں لگے رہے۔ اللہ تعالی تمہیں جزائے خیر دے۔ اب تم بھی اپنے بارے میں بتا دو، تاکہ میں اپنے محسن کے حالات سے واقفیت حاصل کر سکوں۔ ‘‘ اجنبی نے اپنا مکمل تعارف کروانے کے بعد کہا، تو نوجوان بولا: ’’چچا جان! آپ صحیح جگہ پر آئے ہیں۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واقعی تشریف لا چکے ہیں جن کا لوگوں کو صدیوں سے انتظار تھا۔ لیکن انہیں مکہ مکرمہ کے شرپسندوں سے خطرہ ہے، بلکہ اس کو بھی جو اُن کی بات مانے، اسلئے آپ اپنی اس بات کا اظہار کسی کے سامنے مت کرنا۔ ورنہ لوگ آپ کے بھی جانی دشمن بن جائیں گے۔ میں اس نبی کا چچا زاد بھائی ہوں۔ آپ کو صبح ان کی خدمت میں لے چلوں گا۔‘‘
یہ نوجوان، دامادِ رسولؐ، عم زاد رسولؐ، شیر خدا، رأس الاولیا، فاتح خیبر ، والد حسنین کریمین، حضرت ابو تراب علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ تھے۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حقیقی چچا ابوطالب (عبد مناف) کے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسدؓ تھا۔ ابو طالب کا کنبہ بڑا ہونے کی وجہ سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں اپنی گود میں لے لیا تھا۔ بچوں میں سب سے پہلے آپؓ نے ہی اسلام قبول کیا، اور اپنی ساری برادری کے سامنے سب سے پہلے علی الاعلان کلمۂ حق کہنے کی توفیق بھی آپ ہی کو ہوئی ۔
ہجرت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مواخات قائم کرتے وقت آپؓ ہی کو اپنا بھائی بنایا۔ پھر بعد میں حضرت فاطمہؓ سے نکاح فرما کر آپ کو اپنا داماد بھی بنا لیا۔ آپؓ نے تمام غزوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور خوب داد شجاعت دی۔
غزوہ بد ر میں پہلے نکلنے والے تین قریشی سُورماؤں میں سے ایک کو آپؓ نے جہنم رسید کیا۔
غزوہ خندق میں عرب کے معروف پہلوان عمر و بن عبدوُدّ نے جب خندق پار کرکے ہل من مبارز پکارا، تو اس کا کام تمام کرنے والے حضرت علیؓ ہی تھے۔ غزوہ خیبر میں مشہور یہودی پہلوان مُرَحَّب کا سر آپ نے ہی اتارا تھا۔ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نیابت سنبھالی اور پہلے حج میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے نائب بن کر ساتھ گئے۔ شرک کے بڑے بڑے اڈوں یعنی بتوں میں سے بعض کو گرانے کیلئے بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپؓ ہی کا انتخاب کیا ۔
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تدفین میں بھی آپؓ شریک تھے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت بھی آپؓ نے لوگوں کے ہجوم کو چیر کر کی۔ بعد ازاں تمام خلفا کے مشیر رہے۔
آپؓ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: ’’انا دار الحکمۃ و علی بابہا‘‘ (ترمذی) اور حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ’’لولاک علی لہلک عمر‘‘ اگر آج علیؓ نہ ہوتے، عمرؓ ہلاک ہو جاتا۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں: ’’ہم انصار کا گروہ منافقین کو حضرت علیؓ سے بغض رکھنے کی وجہ سے پہچان لیا کرتے تھے۔‘‘
حضر ت ام سلمہؓ، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان سناتی تھیں کہ ’’علی سے کوئی منافق محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مؤمن بغض نہیں رکھ سکتا۔‘‘
نیز آپؓ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی! تیری وجہ سے دو گروہ جہنم جائیں گے۔ ایک تیرے ساتھ محبت (میں غلو) کی وجہ سے، اور دوسرا تیرے ساتھ دشمنی کی وجہ سے۔ خارجیوں نے جب آپؓ کے نام کو بگاڑنا چاہا، تو مسلمانوں نے آپؓ کو کرم اللہ وجہہ کا لقب دیا (یعنی اللہ ان کے چہرے کو باعزت کرے)۔ چنانچہ آپؓ کو 17 رمضان المبارک 40 ہجری میں 83 یا 85 سال کی عمر میں اشقی امت عبدالرحمٰن بن ملجم خارجی نے زہر میں بجھی تلوار مار کر شہید کردیا۔ رضی اللہ عنہ۔

……………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔