ابوہا تاریخ کے آئینہ میں

’’ابوہا‘‘ عام شاہراہ جسے عرف عام میں جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے، پر واقع ہے۔ اس کی آبادی دس اور پندرہ ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ سوات کے دیگر گاؤں اور دیہاتوں کی طرح یہاں بھی مختلف الطبع لوگ رہتے ہیں۔ ہر گاؤں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ حرام خور بھی ملتے ہیں اور حلال لقمہ کھانے والے بھی، ظالم بھی اور مظلوم بھی۔ یہی حال اسی گاؤں کا بھی ہے۔ اس پہلو سے اس گاؤں کی کوئی امتیازی شناخت ممکن نہیں ہے، مگر تاریخی لحاظ سے اس کو ہر دور میں ایک جدا گانہ حیثیت حاصل رہی ہے۔ قبل از مسیح زمانے میں یہاں بت پرستی عام تھی اور اُس دور کی یادگاریں گاؤں کے قرب و جوار میں بکھری پڑی ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ تمام یادگاریں ہوسِ زر کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور لوگوں نے بے دردی سے تاریخ کے سرمائے کو لوٹا ہے۔ پہاڑ کی چوٹیوں اور میدانوں سمیت کوئی ایسی جگہ نہیں جو ان لوگوں سے محفوظ رہ چکی ہو۔
’’ابوہا‘‘ کا نام لے کر کتاب میں جو ذکر آیا ہے۔ اس کے مطابق 1200 عیسوی کے اواخر میں سلطان معزالدین نے سوات میں افغان آبادکار بسائے اور مقامی آبادی کو پہاڑوں کی طرف بھگا دیا۔ یہ افغان نسلاً گبری، متراوی اور ممیالی تھے جو بنیادی طور پر یوسف زیٔ ہی کی ایک ذیلی شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ کیوں کہ جب 1530ء کے لگ بھگ یوسف زیٔ نے ان کو شکست دے کر دریائے سندھ کے پار بھگا دیا، تو یوسف زیٔ سردار گجو خان نے اپنے لشکر کو کہا: ’’نہ ان کا پیچھا کیا جائے اور نہ ان کی بے عزتی کی جائے۔ کیوں کہ یہ ہمارے اپنے قبیلے کے لوگ ہیں۔‘‘ (بحوالہ کتاب ’’پختونوں کی جڑیں‘‘ صفحہ 71تا 73، مصنف محمد جمیل خان یوسف زیٔ)۔

ملک احمد خان نے ایک اور کمال یہ کیا ہے کہ اپنے بیٹے یا قریبی رشتہ دار کے بجائے مندنڑ ملک گجو خان کو سرداری کے لئے چن لیا۔ انہوں نے شیخ ملی کے ساتھ اس حوالہ سے مشورہ کیا کہ یہ شخص (گجو خان) بہادر بھی ہے اور ہوشیار بھی۔ جب گجو خان سے اس حوالہ سے بات کی گئی، تو انہوں (گجو خان) نے کہا کہ آپ کے جیتے جی میں زمامِ اقتدار نہیں سنبھال سکتا۔ لیکن جب ملک احمد خان انتقال کرگئے، تو پھر جرگہ بلوایا گیا اور جمہوری طریقہ سے گجو خان پختونوں کے سردار بن گئے۔
یوسف زئی سردار گجو خان۔

سواتیوں کے سلاطین کا دارالخلافہ منگلور تھا اور ’’ابوہا‘‘ ان کا آخری سرحدی گاؤں تھا۔ جب یوسف زیٔ اور دلہ زاکوں کے اختلافات بڑھ گئے، تو انہوں نے دلہ زاک کو شکست دے کر ابوہا گاؤں تک کا سارا علاقہ بشمول صوابئی مردان وغیرہ قبضہ کیا۔
دریں اثنا بابر ہندوستان پر قابض ہوچکا تھا۔ سواتیوں نے بابر کو یوسف زیٔ کے خلاف اُکسانا شروع کیا۔ جنوری 1519ء میں بابر یوسف زئیوں پر حملہ کی غرض سوات آیا، مگر شاہ منصور کی فراست کام آئی۔ انہوں نے بابر سے صلح کرلی اور اپنی بیٹی بی بی مبارکہ کی شادی بابر سے کرا دی۔ بابر نے ان لوگوں کو کابل آنے کی دعوت دی۔ تیئس مئی 1519ء کو بابر اور یوسف زیٔ سرداروں کی ملاقات ہوئی، جس کے دوران معاہدہ میں یہ قرار پایا کہ یوسف زیٔ، ابوہا گاؤں سے آگے مداخلت نہیں کریں گے مگر بابر کی وفات کے بعد یوسف زئیوں نے اس معاہدے کو توڑا اور بھرپور قوت سے سواتی قوم پر حملہ آور ہوئے۔ اُن کو سوات سے بے دخل کرکے مانسہرہ کی طرف دریائے سندھ کے پار بھگا دیا۔ وہاں پر سواتیوں نے ’’سید جلال بابا‘‘ کی قیادت میں ہزارہ میں مقیم ترکوں وغیرہ کو شکست دی اور وہاں پر سواتیوں کے آخری ’’سلطان پکھل‘‘ کے نام پر ’’پکھلئی‘‘ کا قصبہ آباد کیا۔ (بحوالہ ’’پختونوں کی جڑیں‘‘ مصنف محمد جمیل خان یوسف زیٔ)۔

جنوری 1519ء میں بابر یوسف زئیوں پر حملہ کی غرض سوات آیا، مگر شاہ منصور کی فراست کام آئی۔ انہوں نے بابر سے صلح کرلی اور اپنی بیٹی بی بی مبارکہ کی شادی بابر سے کرا دی۔ (Photo: Famous People)

اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ اس روداد سے آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ ابوہا کی تاریخی اہمیت کیا ہے؟ ابوہا کے بارے میں ہم نے پہلے بھی کچھ واقعات نذرِ قارئین کیے ہیں۔ یہاں ایک اور کتاب سے حاصل کردہ کچھ باتیں آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ برطانیہ کے مشہور سیاستدان اور جنگ عظیم دوم کے مایہ ناز لیڈر سرونسٹن چرچل اپنی کتاب ’’دی سٹوری آف دی ملاکنڈ فیلڈ فورس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب ملاکنڈ کی لڑائی میں پٹھان مجاہدین شکست کھا کر بے سر و سامانی کے عالم میں پسپا ہوگئے، تو انگریز کماندار نے فیصلہ کیا کہ طاقت کے اظہار یعنی ’’شو آف فورس‘‘ کے طور پر سوات کے اندر دور تک فوجی مارچ کیا جائے۔ انگریز سوات پر قبضہ کے حق میں نہیں تھے۔ یہ فوج لنڈاکی سے لے کر بازار کوٹ تک چلتی گئی اور پھر اُسی راستے سے واپس ملاکنڈ آگئی۔ سارے راستے میں سوات کے لوگوں نے ان سے تعرض نہ کیا بلکہ ان کی طرف پشت کرکے کھڑے رہے۔ صرف ’’ابوہا‘‘ میں ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس میں ایک لیفٹیننٹ مارا گیا تھا۔
اب چلیں واپس ’’سید جلال بابا‘‘ کی طرف، ان کا مزار ہمارے گاؤں کے سب سے پرانے قبرستان کے بیچوں بیچ واقع ہے۔ یہ قبرستان کسی زمانے میں گھنے جنگل کی طرح سر سبز و شاداب تھا۔ یہاں پر ایک پُرسکون خاموشی چھائی رہتی۔ اسی مزار کے اوپر میری یاد کے مطابق ایک بڑا کچا کوٹھا تھا اور سید غواث نامی ایک شخص جو سید جلال بابا کی اولاد میں سے تھا، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ یہاں مقیم تھا۔ اس مزار کے قریب ہی پرانے دور کے کھنڈوں کے آثار تھے۔ مذکورہ شخص ان کی کھدائی کرتا اور یہاں سے اُس دور کی اینٹیں برآمد ہوتی تھیں، جب کہ پورے گاؤں میں کسی نے اینٹ دیکھی بھی نہ ہوگی۔ ان اینٹوں کی بناوٹ تقریباً مربع ہوتی تھی اور موٹائی ڈیڑھ انچ کے قریب۔ ان اینٹوں سے موصوف نے اپنا چھوٹا سا گھر بنا دیا۔ ان لوگوں سے یہ بات منسوب تھی کہ یہاں پر سواتیوں کے آخری بادشاہ ’’سلطان پکھل‘‘ کا محل یا سرحدی قلعہ تھا۔ یہ لوگ اس بادشاہ کو پکھل کی جگہ سلطان پرگل کہتے تھے۔
بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ’’ابوہا‘‘ منگلور میں قائم سواتی حکمرانوں کی سلطنت کا سرحدی گاؤں تھا اور یہاں پر اُن کا قلعہ ہونا بعید از قیاس نہیں۔
اب یہ سوال غور طلب ہے کہ اگر ابوہا میں واقع سید جلال بابا کے مزار میں وہی صاحب مدفون ہیں جن کی قیادت میں سواتیوں نے ہزارہ کا بیشتر علاقہ فتح کرکے اپنی حکومت قائم کی، تو وہ پکھلئی سے واپس کیسے اور کیوں آگئے؟ اگر یہ وہ سپہ سالار نہیں، تو پھر ان کی شناخت کس طرح ہوگی؟ جب کہ سید جلال الدین بخاریؒ کے متعلق مشہور ہے کہ سات مختلف مقامات پر اُن سے منسوب مزارات واقع ہیں۔

…………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔