’’ورجلی باقاعدہ طور پر چاول سے بنائی جانے والی ایک ڈش ہے۔ دنیا کے ہر علاقے میں اپنی ایک ثقافتی یا روایتی خوراک ہوتی ہے۔ سو ورجلی کو ہم بجا طور پر سوات کی اپنی روایتی خوراک یا کھانا کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘ یہ کہنا ہے سوات کے سینئر صحافی اور تاریخ و تاریخی مقامات کا وسیع مطالعہ رکھنے والے فضل خالق صاحب کا۔
ورجلی تیار کرنے کے حوالہ سے فضل خالق صاحب کہتے ہیں کہ ’’اس میں سوات میں پیدا ہونے والا مختلف ساگ استعمال کیا جاتا ہے، جن میں یہاں کا شوتل، شلخے، پالک اور اوگکئی نامی ساگ قابل ذکر ہیں۔ ذکر شدہ ساگ کو اتنا کاٹا جاتا ہے کہ یہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ اس عمل کے بعد مذکورہ ساگ چاول میں ڈال کر ورجلی تیار کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔‘‘
راقم نے چوں کہ جب بھی پختونوں کی یہ روایتی خوراک کھائی ہے، تو اس کو یہاں کے مخصوص ’’بیگمی چاول‘‘ سے ہی تیار کردہ پایا ہے۔ فضل خالق صاحب کے بقول، ورجلی کے لیے بہترین چاول ’’بیگمی‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ دوسری اقسام کے چاول میں بھی لوگ اسے تیار کرتے ہیں، مگر جو مزہ بیگمی چاول کا ہے، وہ کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔

ورجلی تیار کرنے میں ماہر سمجھے جانے والے پچاس سالہ محمد امین جن کا تعلق سلام پور سے ہے، کہتے ہیں کہ اسے تیار کرنے کے لئے تین چار قسم تازہ ساگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’ورجلی ہم پختونوں کا ایک ایسا کھانا ہے جسے ہم سوغات کے طور پر اپنے مہمانوں کو پیش کرتے ہیں۔ یہ کوئی عام کھانا نہیں ہے، اس لئے خاص لوگوں کی تواضع کی خاطر ہی اسے تیار کیا جاتا ہے۔‘‘
اہلِ سوات کی محض دو دہائی پہلے یہ روایت ہوتی تھی کہ جب بھی ان کے ہاں کسی اور علاقے کے مہمان آتے، تو ان کی خاطر تواضع ورجلی سے کی جاتی تھی۔ خود اہلِ سوات سردیوں میں اسے کھانے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ مجھ جیسے اسّی کی دہائی میں آنکھ کھولنے والے بہتر طور پر جانتے ہیں کہ ورجلی کے ساتھ رکھا گیا خالص گاڑھا دودھ، بالائی اور دیسی گھی تینوں مل کر کھانے کا مزہ ایسا دوبالا کر دیتے تھے کہ آدمی انگلیاں چاٹنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ دودھ، بالائی اور دیسی گھی کے علاوہ لوگ ورجلی کے ساتھ دہی اور سالن بھی کھاتے ہیں مگر اولذکر اشیا گویا اس کا مزہ دوبالا کرنے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

یہ بات مشہور ہے کہ یوسف زئی افغانستان سے اپنے ساتھ اس روایتی خوراک کو یہاں سوات لائے تھے مگر فضل خالق اس بات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کے بقول: ’’ یوسف زی تو تھانہ میں بھی آباد ہیں، دیر میں بھی آباد ہیں، یہاں تک کہ مردان میں بھی آباد ہیں۔ سوات (ریاستِ سوات یعنی موجودہ سوات، شانگلہ اور بونیر) سے باہر یوسف زئیوں میں ورجلی کھانے کا رواج نہیں ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوسف زئیوں سے پہلے سوات میں آباد لوگوں کی یہ نسل در نسل منتقل ہونے والی خوراک ہے۔‘‘
سوات کے سینئر صحافی نیاز احمد خان مشال ریڈیو کے لئے تیار کردہ اپنی ایک ویڈیو رپورٹ میں کہتے ہیں کہ ’’ورجلی کو دیگر ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ مینگورہ شہر اور اس کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں اسے ورجلی جبکہ بَرسوات میں اسے ساگونڑے اور چُکانڑ بھی کہتے ہیں۔‘‘

میرے ایک دوست نادر شاہ میاں کا تعلق فرحت آباد خوازہ خیلہ سے ہے۔ پیشہ کے لحاظ سے معلم ہیں۔ مینگورہ کے ایک مؤقر نجی تعلیمی ادارے میں اردو پڑھاتے ہیں۔ ان کے بقول ’’ہم ورجلی کو اپنے گاؤں فرحت آباد میں ساگونڑے کہتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول خوازہ خیلہ میں بیشتر گاوؤں میں ورجلی کو اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔
فضل خالق اس فہرست میں بونیر کے حوالہ سے ایک اور نام کا بھی اضافہ کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’’ضلع بونیر میں لوگ اسے ورجلی کے ساتھ ساتھ غٹہ وریجہ بھی کہتے ہیں۔‘‘ نیاز احمد خان بھی اپنی رپوٹ میں اس بات پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں۔
میری یا مجھ سے بڑی عمر کے قارئین یہ بات بخوبی جانتے ہوں گے کہ جب ہماری دادی کی عمر کی خواتین (خاص کر جو سنہ 2000ء یا 2005ء تک زندہ رہیں) کو کسی پر غصہ آتا تھا، تو وہ دل کا غبار نکالنے کے لئے ایک مخصوص بددعا دیا کرتی تھیں کہ: ’’خدائی دی چُکانڑ چُکانڑ کہ۔‘‘ اس بددعا کا مطلب سادہ الفاظ میں کچھ یوں ہے کہ خدا تمہیں تکلیف دِہ موت دے یعنی ایک ایسی موت جس میں آدمی کے پُرزے اُڑ جائیں۔

اب یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ جب ’’چُکانڑ‘‘ لفظ صرف بَرسوات میں رائج ہے، تو بددعا کے لیے یہ لفظ کوز سوات میں کیسے رواج پاگیا؟ اس کے جواب میں مینگورہ شہر میں پیدا ہونے والے پینتالیس سالہ ڈرائیور محمد ایوب کہتے ہیں: ’’چوں کہ اللہ بخشے، میری ماں کا تعلق شین فتح پور سے تھا، جو کہ بَرسوات کا علاقہ ہے۔ ہم ان کی جب بھی حکم عدولی کرتے یا کسی بات پر انہیں غصہ آجاتا، تو بدلے میں یہ بددعا ’الکہ! خدائے دی چُکانڑ چُکانڑ کہ‘ ملتی۔‘‘
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یوسف زئی پختونوں سے پہلے بھی ورجلی یہاں کی رائج شدہ خوراک تھی، تو یہ کب سے رواج پائی ہے؟ فضل خالق اس حوالہ سے کہتے ہیں کہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ کوئی تین ہزار سال پہلے سوات کی سرزمین پر چاول کو بطور خوراک استعمال کیا گیا ہے۔ ’’بدھ مت کا مطالعہ کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ بدھ مت کے پیروکار سبزی خور ہیں۔ اس زمین پر روزِ اول سے سبزی اور ساگ ہی کاشت ہوتا چلا آیا ہے۔ اس لئے میرا ذاتی خیال ہے کہ ورجلی بدھ مت دور سے نسل در نسل منتقل ہونے والی خوراک ہے۔‘‘

آج کل نوڈلز، چپس، برگر، شوارما، پیزا، اسپیگیٹی اور پتا نہیں کیا کیا غیر روایتی کھانے پختون معاشرہ میں رواج پاگئے ہیں۔ ایسے میں موضع شگئی میں مرحوم ڈین صیب کے ہاں ان کے صاحبزادے شوکت علی کی جانب سے دوستوں اور خاص کر نوجوانوں کے لیے ’’ورجلی‘‘ کا اہتمام کرنا کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ ان کی طرف سے پچھلے ہفتے ورجلی کی دعوت رکھی گئی، جہاں کوئی دو سال بعد نہ صرف صحیح معنوں میں ورجلی کھانے کا موقع ہاتھ آیا بلکہ ورجلی پر لکھنے کی تحریک بھی ملی۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔