لوک ورثہ اسلام آباد نے امیریکن ایمبیسی پاکستان، امیریکن انسٹیٹیوٹ فار پاکستان سٹڈیز، بوسٹن یونیورسٹی امریکہ، اوطاق اور آئی آرسی کے باہمی اشتراک سے اسلام آباد میں فوک کلچر اور ہیرٹیج مینجمنٹ کے حوالہ سے دس روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کیا ۔ یہ ورکشاپ اٹھارہ دسمبر سے اٹھائیس دسمبر 2017ء تک جاری رہا۔ اس کورس کے لئے لوک ورثہ اسلام آباد نے ملک کے کونے کونے سے مختلف ثقافتی اور لسانی پس منظر رکھنے والے لوگوں کا انتخاب کیا تھا۔ کورس میں تقریباً چالیس شرکا نے حصہ لیا جن میں یونیورسٹیز اور کالجز کے پروفیسرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ و طالبات، ثقافت اور زبانوں کے لئے کام کر نے والی مختلف تنظیموں کے لوگ ، صحافی اور ہنرمند وغیرہ شامل تھے۔ کورس کے شرکا میں ہر قسم کاتنوع موجود تھا یعنی اس میں مختلف علاقوں کے رہنے والے لوگ اور مختلف زبانوں کے بولنے والے مرد اورخواتین شامل تھے۔ اس کورس کو بوسٹن یونیورسٹی کے انتھروپولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر فرینک کوروم نے ترتیب دیا تھا جنہوں نے مسلسل دس روز تک شرکا کو کورس پڑھایا۔ پروفیسر کوروم کے علاوہ جن لوکل وزیٹنگ سکالرز نے لیکچر دی، ان میں ڈاکٹر فوزیہ سعید ایگزیکٹیو ڈائریکٹر لوک ورثہ اسلام آباد، فاروق قیصر، پروفیسر سعید احمد، پروفیسر ڈاکٹر نادرہ خان، قاضی جاوید، وسیم خان، زبیر توروالی وغیرہ شامل تھے۔

ورکشاپ میں جاری ایک سرگرمی کا منظر جس میں زبیر توروالی اور ڈاکٹر محمد علی دینا خیل دکھائی دے رہے ہیں۔

اس دس روزہ تربیتی ورکشاپ میں ہر روز الگ الگ موضوعات پر درس دئیے جاتے تھے۔ وزیٹنگ سکالرز کے لیکچرز کے علاوہ اس ورکشاپ میں جن موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ان میں ’’فوک کلچر کیا ہے اور ہم کس طرح اس کا مطالعہ کرتے ہیں؟‘‘، ’’یوروپ اور شمالی امریکہ میں فوک کلچر کے مطالعہ کی تاریخ‘‘، ’’جنوبی ایشیا میں فوک کلچر کے مطالعہ کی تاریخ‘‘، ’’فوک کلچر کے بارے میں مختلف نظریات‘‘، ’’فوک کلچر موجودہ تناظر میں‘‘، ’’میوزیم کا آغاز اور ارتقا‘‘، ’’مادی کلچر‘‘، ’’لوک ورثہ مادی اور غیر مادی‘‘، ’’مادی کلچر کی حفاظت، ترتیب، نمائش اور وضاحت وغیرہ‘‘ شامل ہیں۔
ورکشاپ کے دوران میں شرکا کو مختلف گروپوں میں تقسیم کر کے ہر ایک گروپ کو ایک ایک پراجیکٹ بھی دیا گیا۔ تمام گروپوں نے اسی دوران میں اپنے پراجیکٹ پیش کرکے منتظمین سے خوب داد وصول کی۔ ورکشاپ کے شرکا میں فیصل علی ارائیں، عمران خان، سنجے کمار، سید راشد علی شاہ بخاری، حبیب اللہ، نادل شاہ، فضل وہاب، جہان داد خان، ثمر ماجد، شائستہ شیر، ناصر نیروان، عادل شاہ، عمران نفیس صدیقی، محمد اسحاق خان، ایوب غم دل راج پر، راقم، محمد ہلال امین، دولت بیگ، پاون سنگھ اروڑہ، عرفان علی تاج، زبیر توروالی، زاہدہ قادری، شاہ زیب عثمان، شیر زادہ، رابعہ جاوید، وقار مصطفٰی سپرا، دیدار علی، عبدالحمید، امتیاز علی سیلرو، عزیر انور، حارث کبیر، انس محمود وغیرہ شامل تھے۔

بوسٹن یونیورسٹی کے انتھروپولوجسٹ ڈاکٹر فرینک کوروم ورکشاپ سے خطاب کر رہے ہیں (Photo: Dr. Muhammad Ali Dena khel)

ورکشاپ کے منتظمین نے اس کو احسن طریقے سے اختتام تک پہنچایا۔ اسی دوران میں ورکشاپ کی کوآرڈی نیٹر ایمن فاطمہ نے ہر کام کو بروقت اور احسن طریقے سے سر انجام دیا جسے شرکا نے خوب سراہا۔ اٹھائیس دسمبر 2017ء کی شام کو ورکشاپ کا اختتامی پروگرام منعقد ہوا۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آبادکے وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد صدیقی تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر احمد سلیم اعزازی مہمان تھے۔ تقریب میں امریکن ایمبیسی کے ایکٹنگ کونسلر فار پبلک افیئرز مس مشیل کے ساتھ ایکٹنگ کلچرل اتاشی ماورین اور اظفر اقبال بھی شامل تھے۔ لوک ورثہ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر فوزیہ سعید نے گریجویٹ سرمنی میں تمام کامیاب شرکا کو مبارک باد دی اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ ورکشاپ کے شرکا نے مستقبل میں رابطے کیلئے بھی حکمت عملی وضع کی، کورس کو سراہا اور یہ عہد بھی کیا کہ مستقبل میں ہم اس پروگرام کوآگے بڑھائیں گے۔ تمام شرکا نے اس بات کی بھی شدید ضرورت محسوس کی کہ لوک ورثہ اسلام آباد کو اس قسم کے تربیتی کورسوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے۔ تربیتی کورس کے شرکا نے یہ بھی تجویز دی کہ متعلقہ اداروں کو اس کورس میں شامل افراد کی سرگرمیوں کا فالو اَپ کرکے کامیاب اور ایکٹیو کارکنان کیلئے ایڈوانسڈ کورس کا انتظام کرناچاہئے۔

……………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔