جاپان پوری دنیا میں بہترین ٹیکنالوجی کے لئے مشہور ہے۔ یہاں کی کاروں اور الیکٹرانک اشیا کی مضبوطی اور پائیداری کی وجہ سے دنیا بھر کے صارفین اہلِ جاپان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں۔ تاہم جاپانی قوم اپنی منفرد ثقافت اور روایات کے لئے بھی دنیا بھر میں جانی اور مانی جاتی ہے۔ جاپان کی سیمورائے فلمیں ہوں یا ہائیکو شاعری، یہاں کے شینٹو شرائین ہوں یا گینجی کی کہانی، دلفریب خواتین کا کیمونو لباس ہو یا سوشی مچھلی کا ڈش، عظیم ’’فوجی‘‘ پہاڑ ہو یا گرم پانی کے چشمے، یہاں کی سومو پہلوانی ہو یا لوگوں کا احتراماً جھکنا، سب کے سب سیاحوں کی دلچسپی کا سامان ہیں، تاہم بہت کم لوگ ’’جاپان کی اماں‘‘ کے بارے میں جانتے ہیں۔
ویسے تو جاپان کی کئی چیزیں، رسومات، عادات اور طور طریقے دوسری قوموں سے مختلف اور نرالے ہیں جو غیر ملکیوں کے لئے باعث کشش بھی ہوتے ہیں، تاہم جاپان کی اماں کا کردار سب سے منفرد اور خوبصور ت ہے۔ اول تو یہ کہ ہزاروں سال پر محیط اماں کا یہ کردار نسوانی ہے جو پوری دنیا کی مردانہ قوتوں کی توجہ کا باعث بنتا ہی ہے، مگر ساتھ ساتھ پانی اور عورت کے معاشقے کی یہ داستان دنیا بھر کی خواتین کے لئے بھی کشش کا باعث ہے۔ اس میں اگر کوئی مرد جاپان کے ساحلی علاقوں کی حسین دوشیزاؤں کی سمندروں کی خطرناک لہروں سے الفت جیسے پاگل پن کو اندر ہی اندر محسوس کرتا ہے، تو خواتین کی اندرونی کیفیات بھی ان اماؤں کے پُراسرار جذباتی لگاؤ کو محسوس کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
ٹھہرئیے، یہ وہ والی اماں نہیں جو اپنے بچوں کو پالتی ہے بلکہ یہ جاپان کے ساحلوں پر رہنے والی وہ غوطہ خور خاتون ہے، جو سمندر میں غوطہ لگا کر سمندری سیپیاں، جھینگا مچھلی اور سمندری گھونگے جمع کرکے باہر لاتی ہے۔ جاپانی زبان میں اماں کے معنی ماں کے نہیں بلکہ ’’سمندری عورت‘‘ کے ہیں۔ جب کہ بعض اوقات ان مَردوں کو بھی اماں کہتے ہیں جو سمندر میں سیپیوں اور سمندری گھونگھوں کے لئے غوطے لگاتے ہیں۔

جاپانی اماں کی پچاس کی دہائی سے پہلے کی لی گئی ایک تصویر (Photo: theculturetrip)

’’اماں‘‘ کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے۔ معلوم تاریخ میں اس کے آثار دو ہزار سال تک دریافت ہوئے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بغیر اکسیجن ماسک اور جدید آلات کے سمندر کی تہہ تک جاتی ہے (مؤنث صیغہ اس لئے استعمال کرنا پڑ رہا ہے کہ اس پیشے سے زیادہ تر خواتین وابستہ ہیں)۔ سمندری سیپیاں اور گھونگھے وغیرہ تلاش کرکے ایک ٹوکری میں جمع کرتی ہے اور کچھ دیر بعد واپس باہر آتی ہے۔ یوں اماں یہ عمل کئی بار دہراتی ہے اور جب اس کا شکار پور ا ہوجاتا ہے، تو واپس آکر مارکیٹ میں اسے فروخت کرکے اپنے خون پسینے کی کمائی گھر لاتی ہے۔ بعض اوقات اسے مذکورہ سیپیوں میں ہیرے بھی ملتے ہیں جس سے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔
اس پیشہ سے وابستہ خواتین کم عمری ہی میں غوطہ خوری شروع کرتی ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پیشہ سے وابستہ خواتین میں سے زیادہ تر کی عمریں 70 یا 80 سال کے لگ بھگ ہوتی ہیں، مگر پھر بھی بڑی پھرتی سے یہ سمندر کے اندر جاکر شکار کرتی ہیں۔ ان خواتین کے لئے سمندر میں غوطہ لگانا محض سیپیاں یا گھونگے تلاشنا یا آمدنی کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک طرح سے ان کے لئے روحانی عمل ہوتا ہے۔ سمندر کے ساتھ ان کا جذباتی لگاؤ ہوتا ہے۔ یوں کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ سمندر اور اماں کا رشتہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔ اس رشتہ کو ہم سمندر اور اماں کی پریم کہانی کا نام دے سکتے ہیں۔
میرے جاپان کے دورہ میں میری ملاقات ’’شیما‘‘ نامی جگہ میں 65 سالہ اماں ’’یوشی اوزاکی‘‘ سے ہوئی، جو غوطہ خوری اور سمندر کے ساتھ جنون کی حد تک محبت کرتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ سمندر میں غوطہ خوری اور گھونگیمچھلیاں پکڑنے کا عمل اسے جوان رکھتا ہے:’’مجھے سمندر میں پہلا غوطہ لگانے سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے۔ ہر رات میں صبح ہونے کا شدت سے انتظار کرتی ہوں کہ کب رات ڈھلے گی اور میں سمندر میں غوطہ لگاؤں گی۔ غوطہ مارتے ہوئے میرا سینہ پانی کو چھوتا ہے، تو میرا بے قرار دل قرار پاتا ہے۔ میں پانی سے بغل گیر ہوکر سکون پا لیتی ہوں۔‘‘ یوشی اوزاکی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پیسے کمانے سے زیادہ اسے سیپیاں اور گھونگے مچھلیاں پکڑنے سے دلی سکون ملتا ہے۔ اس کی جوانی کے دنوں میں ہر دوشیزہ کا یہ خواب ہوتا تھا کہ کب وہ سمندر میں غوطہ لگانا اور پھر سیپیاں اور گھونگے پکڑنا سیکھے گی۔ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کس میری خوشی کی اتنہا نہ تھی جب میں نے پہلی دفعہ سمندر میں غوطہ لگایا تھا اور شکار پکڑا تھا۔‘‘ وہ تھوڑی شرمیلی مگرانتہائی جذباتی ہوکر کہنے لگیں کہ سمندر میں غوطہ لگانے اور شکار کھیلنے میں اتنا مزہ اور خوشی ملتی ہے کہ اگر دوسرے پیشوں کے افراد ایک دفعہ غوطہ لگائیں اور شکار کھیلیں، تو وہ ہمیشہ کے لئے اپنے پیشے چھوڑ کر غوطہ خوری کرنے لگ جائیں اور سمندری گھونگوں کا شکار ہی کرنے لگ جائیں۔ تاہم وہ اس بات پر رنجیدہ ہے کہ نئی نسل غوطہ خوری اور شکارکا پیشہ اپنانا نہیں چاہتی اور اسی لئے جاپان کی اس قدیم روایتی اماؤں کا پیشہ معدوم ہو رہا ہے۔ ’’میں مرتے دم تک سمندر میں غوطہ خوری اور مچھلیوں کا شکار کھیلوں گی۔ کیوں کہ مجھے سمندر سے پیار ہے ۔ یہ محض غوطہ خوری نہیں بلکہ میرے اور اس پانی کے درمیان جذباتی لگاؤ ہے۔ پانی جب میرے وجود کو چھوتا ہے، تو میرے اندر عجیب جذباتی کھیل شروع ہوجاتا ہے اور پھر میں شکار کھیلتی ہوں اور یہی احساسات مجھے جوان رکھتے ہیں۔‘‘
اپنے جذبات بیان کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کی چمک اور جسم کی لرز ش میں نے صاف طور پر محسوس کی۔ اماں ’’یوشی اوزاکی‘‘ اپنے تجربات بیان کرتے سمے جب پانی میں غوطہ لگانے کی بات کرتی، تو اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نظر آتی اور فرطِ جذبات میں اس کی آواز میں عاشقانہ لے سی محسوس ہوتی۔ غوطہ خور اماں کی سحر انگیز باتوں سے میں اتنا متاثر ہوا کہ جب وہ بات کرتی، تو میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو پانی کی موجیں تصور کرتا اور جاپانی کی ان پُراسرار اور پُرکشش غوطہ خور خواتین سے بغل گیر ہونے والے تصورات میں کھو سا جاتا۔ کہتے ہیں کہ جاپان کی یہ خواتین زیا دہ تر غیر شادی شدہ ہوتی تھیں اور وہ اس پیشے ہی سے اپنے لئے اتنا کماتی کہ ان کو مَردو ں کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ یہ امائیں جذباتی اور جنسی اطمینان تو پانی کے ساتھ بغلگیر ہو کر ہی حاصل کرتی تھیں۔
پچاس کی دہائی تک یہ غوطہ خور خواتین برہنہ حالت میں سمندر میں غوطے لگاتی تھیں، تاہم پچاس کی دہائی کے بعد سے یہ رواج ختم ہوا اور تب سے اب تک یہ امائیں اپنے جسم کو ڈھانپ کر غوطے لگاتی ہیں۔

جاپانی اماں کی پچاس کی دہائی سے پہلے کی لی گئی ایک اور تصویر (Photo: yoshiyuki-iwase- tumblr)

ایک روایت کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد جب جاپان میں سیاحت کی صنعت فروغ پانے لگی اور سیاح جب ان برہنہ اماؤں کو دیکھتے، تو وہ اکثر ان سے ان کی برہنہ غوطہ خوری کے بارے میں سوالات پوچھتے تھے جس کے بعد آہستہ آہستہ ان خواتین کو اپنے جسموں کو ڈھانپنے کی فکر لاحق ہوئی۔

جاپانی اماں کی حالیہ تصویر (Photo: theculturetrip.com)

جاپان میں اماں گھونگے اور سیپیاں جمع کرنے کے اس پیشے میں تنہا نہیں ہوتی۔ بیشتر اوقات میں اماں اور اس کا مرد اکٹھے سمندر جاتے ہیں۔ اس وقت جب اماں سمندر میں غوطہ لگا کر اندر جاتی ہے، تو اس کا مرد کشتی میں اس کا انتظار کرتا ہے۔ اماں جب سمندر میں غوطہ لگاتی ہے، تو ایک رسی اس کے ساتھ نیچے جاتی ہے جس کا ایک سرا کشتی سے اور دوسرا اماں سے جڑا ہوتا ہے۔ جب اماں شکارمکمل کرتی ہے ، تو رسی کو کھینچ کر اوپر اپنے مرد کو اشارہ کرتی ہے اور وہ پھر گھونگوں اور سیپیوں سے بھری ٹوکری اور اماں دونوں کو اوپر لانے میں مدد دیتا ہے۔
یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ جاپان کی حکومت اماں کے پیشے کو محفوظ کرنے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے مختلف سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں ’’می اے پریفکچر‘‘ کے تعلیمی بورڈ (The Mie Prefecture Board of Education) جو اماں کو یہاں کا ثقافتی ورثہ گردانتا ہے، اس پیشہ کو محفوظ کرنے کے لئے کئی اقدامات کر رہا ہے۔ اس ادارے کا ایک اہلکار ’’سکورائے تکوما‘‘ کے مطابق ان کا ادار ہ کئی اقدامات کر ر ہا ہے، جس میں موجودہ اماؤں کو مراعات اور نوجوان دوشیزاؤں کو اس طرف راغب کرنا شامل ہے۔ یہ ادارہ اس پیشہ کو سیاحت سے بھی جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس ادارے کی اعداد و شمار کے مطابق ’’می اے پریفکچر‘‘ میں 2010ء میں 978 اماں خواتین تھیں جن کی تعداد سال 2014ء میں 755 رہ گئی تھی، تاہم یہ ادارہ پُرامید ہے کہ وہ اس منفرد ثقافتی پیشے کو محفوظ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ادارہ اس قدیم روایتی اور ثقافتی پیشہ کو یونیسکو کے عالمی ورثہ کی لسٹ میں شامل کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔
اگر آپ جاپان میں ہیں یا جاپان جانے کے خواہش مند ہیں، تو آپ بھی جاپان کی اماں سے ضرور ملیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ آپ کی زندگی کا منفرد اور دلچسپ تجربہ ہوگا۔ اماں ایک کردار نہیں بلکہ ایک تاریخی اور ثقافتی تسلسل ہے اور یہ محض جاپانی خاتون اوراس کی آمدنی کا ذریعہ نہیں بلکہ نسوانیت، سمندر کا پانی اوسمندری گھونگھوں کے درمیان جذبات اور کیفیات کا رشتہ ہے جسے ہر حال میں قائم رہنا چاہیے ۔ کیوں کہ اگر اماں نے سمندر جانا چھوڑدیا، تو اس سے نہ صرف یہ قدیم ثقافتی پیشہ ختم ہوجائے گا بلکہ جاپان کے سمندر بھی افسردہ رہ جائیں گے۔ (جاری ہے)

……………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔