معاشی پالیسیاں کسی بھی ریاست کی سمت طے کرتی ہیں۔ کسی ملک کی معیشت کی صحت کا اندازہ اُس کی مالیاتی اور اقتصادی پالیسیوں سے لگایا جاتا ہے۔ اُن پالیسیوں میں سب سے اہم فیصلہ شرحِ سود سے متعلق ہوتا ہے، جو نہ صرف سرمایہ کاری، قرض اور بینکاری کو متاثر کرتا ہے، بل کہ عام آدمی کی زندگی، مہنگائی، بے روزگاری و معاشی مواقع پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک، یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ مالیاتی پالیسی بیان میں شرحِ سود کو 11 فی صد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ بادی النظر میں یہ فیصلہ افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کی ایک کوشش ہے، لیکن اس کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں وسیع تر معاشی تناظر میں سوچنا ہوگا کہ آیا یہ فیصلہ معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے یا جمود کی علامت؟
سب سے پہلے بات کرتے ہیں شرحِ سود (Interest Rate) کی۔ یہ ایک ایسا مالیاتی ہتھیار ہے، جسے مرکزی بینک استعمال کرتے ہیں، تاکہ معیشت کو گرمی یا سردی میں متوازن رکھا جاسکے۔ جب شرحِ سود بلند ہوتی ہے، تو لوگ بچت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیوں کہ بینک میں جمع شدہ رقم پر انھیں اچھا منافع ملتا ہے۔ اس کے برعکس، کاروباری طبقہ قرض لینے سے گھبراتا ہے، کیوں کہ سرمایہ پر لاگت بڑھ جاتی ہے۔ یوں مارکیٹ میں پیسے کی روانی کم ہوجاتی ہے، جس سے افراطِ زر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
مگر اس کے منفی پہلو یہ ہیں کہ جب سرمایہ کاری کم ہوگی، تو صنعتی ترقی، کاروباری وسعت اور روزگار کے مواقع بھی محدود ہوجائیں گے۔ اس لیے شرحِ سود کا تعین ایک تلوار کی مانند ہے، جو دونوں طرف کاٹتی ہے۔ اسے انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا ہے۔
2025ء کی دوسری سہ ماہی میں جب اسٹیٹ بینک نے شرحِ سود کو 11 فی صد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا، تو اس فیصلے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما تھے۔ سب سے اہم مسئلہ افراطِ زر (Inflation) کا ہے، جو گذشتہ سالوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ اشیائے خور و نوش، ایندھن، بجلی اور روزمرہ کے اخراجات میں ہوش ربا اضافہ عوام کو معاشی طور پر مفلوج کرچکا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق، شرحِ سود کو بلند رکھنے کا مقصد افراطِ زر کی توقعات کو نیچے لانا اور مارکیٹ میں مالیاتی نظم و ضبط قائم رکھنا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف شرحِ سود بلند رکھنے سے مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے یا پھر یہ پالیسی خود ایک نیا معاشی بحران پیدا کر رہی ہے؟
شرحِ سود میں اضافہ سب سے پہلے کاروباری طبقے کو متاثر کرتا ہے۔ ایک درمیانے درجے کا صنعت کار یا تاجر، جو بینک سے قرض لے کر نئی فیکٹری لگانا چاہتا ہے، جب یہ دیکھتا ہے کہ اُسے 11 یا 12 فی صد سود کے ساتھ قرض لینا ہوگا، تو وہ اپنے منصوبے کو موخر کر دیتا ہے۔ نتیجتاً نہ صرف صنعت نہیں لگتی، بل کہ روزگار کے مواقع بھی پیدا نہیں ہوتے۔
اسی طرح چھوٹے کاروبار، جیسے دکان دار، آڑھتی یا زمین دار، بھی بینک سے قرض لینے سے گریز کرتے ہیں۔ کیوں کہ شرحِ سود اُن کے لیے ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے۔ یوں معاشی پہیہ سست روی کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ سست روی ایک جمود میں بدلنے لگتی ہے۔
جب سرمایہ کاری رُک جاتی ہے، جب صنعتیں نئی بھرتیاں نہیں کرتیں، جب کاروبار وسعت اختیار نہیں کرتے، تو اس کا لازمی نتیجہ بے روزگاری کی صورت میں نکلتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی بے روزگاری کی سنگین صورتِ حال کا شکار ہے، جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمت کے مواقع سے محروم ہے۔
شرحِ سود کو کم کیے بغیر روزگار کے مواقع پیدا کرنا ایک خواب ہی رہے گا۔ بینکوں میں پیسا تو جمع ہوگا، مگر وہ پیسا مارکیٹ میں حرکت نہیں کرے گا۔ معاشیات کا ایک بنیادی اُصول ہے کہ سرمایہ اگر جامد ہوجائے، تو وہ موت کی علامت ہے۔
یہ ایک معاشی مغالطہ ہے کہ افراطِ زر پر صرف بلند شرحِ سود سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا مقابلہ صرف طلب کو کم کرکے نہیں، بل کہ رسد میں اضافہ کر کے بھی کیا جاسکتا ہے۔
اگر زرعی پیداوار کو بڑھایا جائے، اگر صنعتوں کو آسان قرضے فراہم کیے جائیں، اگر درآمدات پر انحصار کم کیا جائے، تو اشیائے ضروریہ کی فراہمی بہتر ہوگی اور مہنگائی قدرتی طور پر کم ہو جائے گی۔ اس لیے سٹیٹ بینک کو چاہیے کہ وہ مالیاتی پالیسی کے ساتھ ساتھ حکومت کی مالیاتی اور صنعتی پالیسیوں کو بھی مربوط کرے۔
شرحِ سود کا بہ راہِ راست اثر متوسط طبقے پر پڑتا ہے، جو نہ اتنا غریب ہوتا ہے کہ سرکاری امداد حاصل کرے، اور نہ اتنا امیر کہ اسے مہنگائی یا کاروباری جمود سے فرق نہ پڑے۔ جب بینکوں کے قرضے مہنگے ہوجائیں، جب روزگار کے مواقع کم ہو جائیں، جب مہنگائی بڑھتی رہے، تو متوسط طبقہ پس جاتا ہے۔
یہی طبقہ معاشرے میں تعلیمی، سماجی اور معاشی استحکام کی ضمانت ہوتا ہے۔ اگر یہی طبقہ بددل ہو جائے، دیوالیہ ہوجائے، یا نقلِ مکانی پر مجبور ہو جائے، تو ریاست کی بنیادیں کم زور ہوجاتی ہیں۔
شرحِ سود بلند رکھنے کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ فائدہ صرف بینکوں کو ہوتا ہے۔ جب عوام اپنا پیسا بینک میں رکھتی ہے، تو بینک اس پر سود دیتا ہے اور اسے مہنگے داموں دوسرے قرض خواہوں کو قرض پر دیتا ہے۔ یوں بینک منافع کماتے ہیں، مگر مارکیٹ میں سرمایہ کی گردش کم ہو جاتی ہے۔
اس مالیاتی نظام میں بینک سب سے محفوظ اور منافع بخش ادارے بن جاتے ہیں، جب کہ مارکیٹ، صنعت اور عوام خسارے میں چلی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاشی نظام ہے، جو سرمایہ داروں کو تحفظ دیتا ہے، مگر محنت کش عوام کو مسلسل مالی دباو میں رکھتا ہے۔
اگر ہم واقعی معیشت کو بہ حال کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں صرف شرحِ سود پر انحصار کرنے کے بہ جائے دیگر معاشی اصلاحات کی طرف بھی جانا ہو گا، جیسے: زرعی اصلاحات، چھوٹے کاروباروں کے لیے بلا سود قرضے، صنعتی پالیسیوں میں آسانیاں، ٹیکس اصلاحات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی اور حکومت کے غیر پیداواری اخراجات میں کمی۔
یہ تمام اقدامات معیشت کو بہتر بنا سکتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ اگر شرحِ سود کو آہستہ آہستہ کم کیا جائے، تو یہ عمل معیشت کو دوبارہ متحرک کر سکتا ہے۔
چین، ترکی، بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ممالک نے معاشی ترقی کے لیے شرحِ سود کو کنٹرول میں رکھا اور سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا۔ ترکی نے اپنے سخت مالیاتی فیصلوں کو لچک دار صنعتی پالیسیوں کے ساتھ جوڑا، چین نے حکومت کی مدد سے صنعتی انقلاب لایا اور بنگلہ دیش نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو فروغ دے کر غیر معمولی ترقی حاصل کی۔
پاکستان کو بھی ایسی ہی جامع پالیسی اپنانا ہوگی، جہاں سٹیٹ بینک صرف ایک خود مختار ادارہ نہ ہو، بل کہ قومی معاشی وژن کا حصہ ہو۔
شرحِ سود کو مکمل طور پر کم کر دینا بھی خطرناک ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اس سے افراطِ زر بے قابو ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اسے مسلسل بلند رکھنا بھی معاشی جمود، بے روزگاری اور غربت کو جنم دیتا ہے۔
لہٰذا، ضرورت اس امر کی ہے کہ سٹیٹ بینک اپنی مالیاتی پالیسی کو قومی معاشی حکمتِ عملی کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ جب تک پالیسی ساز شرحِ سود، افراطِ زر، سرمایہ کاری اور روزگار کے درمیان توازن قائم نہیں کرتے، اُس وقت تک معیشت کا پہیا پوری رفتار سے نہیں چل سکتا۔
سٹیٹ بینک کا شرحِ سود کو 11 فی صد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ وقتی طور پر افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کی کوشش ضرور ہوسکتا ہے ، مگر یہ فیصلہ طویل المدت میں معاشی جمود، سرمایہ کاری میں کمی اور بے روزگاری کا باعث بن سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شرحِ سود کی پالیسی کو ایک جامع معاشی فریم ورک کے تحت تشکیل دیا جائے، جس میں صنعت، زراعت، ٹیکس، برآمدات اور روزگار کے اہداف بھی شامل ہوں۔ کیوں کہ شرحِ سود کی بلند فصیل کے پیچھے اگر معیشت قید ہوجائے، تو یہ استحکام نہیں، جمود ہوتا ہے…… اور جمود، کسی بھی قوم کی ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
