ایران اسرائیل جنگ کا تجزیہ

Blogger Ikram Ullah Arif

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے۔ دونوں فریق فتح کے دعوے دار ہیں۔ جنگوں میں دعوؤں اور افواہوں کا بازار ہمیشہ گرم رہتا ہے۔ اب چونکہ گرد بیٹھ چکی ہے اور معمول کی زندگی بہ حال ہوچکی ہے، اس لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ دونوں میں سے کس کو کتنا نقصان ہوا؟ کیوں کہ مکمل فتح کے دعوے درحقیقت صرف دعوے ہی ہیں۔
یہ پرانے زمانے کی بات تھی، جب جنگیں لشکروں کے ذریعے لڑی جاتی تھیں۔ شہر کے شہر تاراج ہوتے تھے، کشتوں کے پشتے لگتے تھے، کوئی فاتح بنتا تھا اور کوئی مفتوح۔ سلطنتیں گرتی تھیں، ممالک پر قبضہ ہوتا تھا، بادشاہ مارا جاتا یا مفرور ہوتا اور مفتوحین کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ فاتح کی شان و شوکت اور دولت میں اضافہ ہوتا تھا اور مفتوح کی عزت، دولت اور ناموس نیلام ہوجاتی تھیں…… لیکن عصری جنگوں میں مکمل فتح یا مکمل شکست کا تصور باقی نہیں رہا۔ اب بات ’’کم‘‘ یا ’’زیادہ‘‘ نقصان کی ہوتی ہے۔
یہ سوال کہ کس ملک کو کس نوعیت کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا؟ اکثر لوگوں کو اپنے مخالف کو مفتوح اور پسندیدہ ملک کو فاتح تصور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
پاکستانی عوام کی اکثریت کی صہیونیوں کے ساتھ نفرت واضح ہے، اس لیے اسرائیل کے مقابلے میں ایران سے ہم دردی اور محبت ایک فطری ردِ عمل ہے۔ اسی وجہ سے اکثر پاکستانی حالیہ جنگ میں ایران کی ’’فتح‘‘ پر خوش ہیں۔
لیکن اگر حقیقی طور پر غیرجانب دار تجزیہ کیا جائے، تو دونوں ممالک کو پہنچنے والے نقصانات کی کئی سطحیں سامنے آتی ہیں۔ ذیل میں اُن میں سے کچھ کا اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے ۔
٭ فوجی نقصانات:۔
سب سے پہلے فوجی نقصانات کی بات کی جائے، تو اب تک موصولہ اطلاعات کے مطابق ایران کو فوجی سطح پر انتہائی شدید نقصان پہنچا ہے۔ درجنوں اعلا عسکری قیادت کا یوں لمحوں میں جان سے جانا ایسا واقعہ ہے جس کے صدمے کی شدت کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ ایرانی فوج اور خفیہ اداروں کے تمام سربراہ صہیونی حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ ایرانی اداروں میں موساد (اسرائیلی خفیہ ایجنسی) کی حد سے زیادہ رسائی کی واضح دلیل ہے۔
اس کے برعکس، ایرانی جوابی حملوں میں اسرائیلی فوج کو جو جانی نقصان پہنچا، وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی ایسی فوجی شخصیت نشانہ نہیں بنی، جس کی موت عالمی سطح پر قابلِ ذکر خبر بن سکی ہو۔
٭ معاشی نقصانات:۔
معاشی نقصانات کی بات کریں، تو دہائیوں سے عالمی پابندیوں میں جکڑا ہوا ایران اس جنگ سے مزید متاثر ہوا۔ اگر یہ کش مہ کش طویل ہوجاتی، تو پہلے سے دگرگوں معاشی حالت مزید ابتری کا شکار ہوجاتی۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس اپنے وسیع وسائل موجود ہیں اور ساتھ ہی مغربی و امریکی سرمایہ اور امداد کا تسلسل بھی اسرائیلی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کافی ہے ۔
٭ عوامی اموات:۔
عوامی اموات کے لحاظ سے ایران میں 500 سے زائد عام شہری صہیونی حملوں کا نشانہ بنے، جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں، جب کہ جوابی ایرانی حملوں میں تقریباً 50 صہیونی ہلاک ہوئے ۔
٭ انفراسٹرکچر کی تباہی:۔
انفراسٹرکچر کے اعتبار سے تہران اور تل ابیب دونوں کو نقصان پہنچا۔ تہران پر اسرائیلی فضائی حملوں نے قیامت ڈھائی، تو ایرانی میزائلوں نے تل ابیب کی رات کو دن میں تبدیل کر دیا اور کئی اہم عمارتوں، بشمول موساد کے ہیڈکوارٹر، کو نشانہ بنایا گیا۔
٭ عوامی جذبہ:۔
عوامی جذبے کے لحاظ سے ایرانی عوام کا حوصلہ دیدنی رہا، جب کہ صہیونی شہریوں کی بنکروں میں چیخ و پکار نے دنیا کو دکھا دیا کہ ناجائز صہیونی ریاست کے جنگ پرستوں کی حقیقت کیا ہے؟
٭ عالمی تاثر:۔
عالمی تاثر کے حوالے سے دیکھا جائے، تو ایرانی دفاعی جواب نے ایران کی عسکری صلاحیتوں کو نمایاں کر دیا۔ ایران، امریکی صدر ٹرمپ کی حالیہ تقاریر کا مثبت حوالہ بن گیا۔ دنیا نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اسرائیل بالکل ناقابلِ تسخیر نہیں۔ اسرائیل کے اُس فرضی تصور کو کہ وہ ناقابلِ شکست ہے، ایرانی میزائلوں نے توڑ کر رکھ دیا۔
٭ بھارت کی اصلیت:۔
اس محدود جنگ سے بھارت کی اصلیت بھی واضح ہو گئی، اور کچھ عرب ممالک کے کردار میں بھی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔
٭ نتیجہ:۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی قیادت مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہونے جا رہی ہے اور اس جنگ نے اس تبدیلی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ مستقبلِ قریب میں بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس کے اثرات اہلِ غزہ کے لیے بھی ایک بہتر وقت کی نوید لے آئیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے