حکمران نون لیگ کی لیڈرشپ کی مایوسی اور بے چارگی دیکھی نہیں جاتی۔ اس کی اعلیٰ سطحی قیادت کا یہ عالم ہے کہ وہ اسمبلی میں کورم پورا کرانے سے بھی قاصر ہے۔ قومی اسمبلی میں چاردن تک سپیکر ایاز صادق منادی کرتے رہے کہ ارکان سیشن میں آئیں، لیکن ان کی سنی اَن سنی کردی جاتی۔ رضاربانی نے ناراض ہوکر سینٹ کا اجلاس ہی ملتوی کر دیا کہ وزرا اور ارکان کارروائی میں دلچسپی لیتے اور نہ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے درست کہا کہ پارلیمنٹ کو اس حال تک پہنچانے کے ذمہ دار نوازشریف ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کو اپنے دور حکومت میں اہمیت دی نہ اس کی بالادستی کو خوش دلی سے تسلیم کیا۔
نون لیگ اپنے اتحادیوں کے ہاتھوں میں بھی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نہیں چاہتے کہ قبائلی علاقہ جات خیبرپختون خوا کا حصہ بنیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح تحریک انصاف ان علاقوں سے بھی ان کا بوریا بستر گول نہ کر دے۔ چنانچہ نون لیگ اسمبلی میں قبائلی علاقہ جات پر بل پیش نہیں کر پا رہی حالاں کہ وہ چاہتی ہے کہ قبائلی علاقہ جات کے مستقبل کا فیصلہ عام الیکشن سے قبل ہوجائے۔
نون لیگ ایک نفسیاتی خوف میں بھی مبتلا ہے۔ پیر حمیدالدین سیالوی نے نون لیگ کے کچھ لوگوں سے استعفے کیا لیے کہ رانا ثناء اللہ جو پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کے بعد سب سے طاقتور وزیر سمجھے جاتے ہیں، ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ پر گرجے برسے۔ فرماتے ہیں کہ اسلام آباد میں جن قوتوں نے دھرنا دلوایا تھا، وہ ہماری حکومت غیر مستحکم کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایک ’’ادارہ‘‘ نون لیگ کے لوگوں کو اپنے دفاتر میں بلاکر انہیں پارٹی چھوڑنے کے مشورے دیتاہے۔ ملتان میں وکلا نے توڑ پھوڑ کی، تو وزیرقانون رانا ثناء اللہ کو طنز کے نشتر چلانے کا ایک موقع دستیاب ہوگیا۔ فرمایا: "ہماری حکومت وکلا سے مذاکرات کرے گی اور اگروہ نہ مانے، تو "کسی اور” سے کہیں گے کہ ان سے معاہدہ کرا دیں۔”
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ایک سنجیدہ اور حلیم الطبع شخصیت ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ان کے اعصاب پر بھی خوف سوار ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں کہتے ہیں: ’’انہیں اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتے ہوئے نظر نہیں آتیں۔ جمہوریت کے خلاف اندرون اور بیرون ملک سازش رچائی جا رہی ہے۔‘‘ نون لیگ کی پوری قیادت ایک زبردست نفسیاتی صدمے سے دوچار محسوس ہوتی ہے۔ پتا بھی ہلتاہے، تو اس کے پیچھے اسے قومی سلامتی سے متعلقہ اداروں کا ہاتھ نظر آتا ہے یا پھر کوئی سازش۔ کسی زمانے میں پیپلزپارٹی والوں کو ہر جگہ اسٹیبلشمنٹ تعاقب کرتی نظر آتی تھی، اب یہ حال نون لیگ والوں کا ہے۔
نون لیگ میں اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت اور سودے بازی کے ذریعے اپنی سیاست جمائے رکھنے والا طبقہ کمزور پڑ چکا ہے۔ اس کے برعکس وہ عناصر غالب آچکے ہیں جو مقابلہ اور مزاحمت کے پرچارک ہیں۔ اس طالب علم کی نون لیگ کے جس بھی لیڈر سے بات ہوئی، اسے یہ کہتے پایا کہ ’’بغیر مقابلے کے مارے جانے سے بہتر ہے کہ دادِ شجاعت دی جائے۔ممکن ہے اس طرح پاکستانیوں بالخصوص اہل پنجاب کے دل میں جگہ بنائی جاسکے۔‘‘نون لیگ کے سیاسی حکمت کاروں کا خیال ہے کہ آج کا پاکستان بہت بدل چکا ہے۔ ووٹر پہلے کے مقابلے میں باشعور ہے۔ سوشل میڈیا کے انقلاب نے غیر جمہوری قوتوں کے لیے شب خون مارنا مشکل بنا دیا ہے۔ حقائق کو قالین تلے دبانا اب سہل کام نہیں۔ عالمگیریت کی بدولت دنیا ایک گاؤں میں بدل چکی ہے۔ ماضی کے برعکس عالمی طاقتوں کے لیے پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں کی پیٹھ ٹھونکنا ممکن نہ ہوگا۔ پنجاب جو نون لیگ کا گڑھ ہے، وہاں کا ووٹر بھی جرأت مند اور مزاحمت کار سیاستدانوں کو پسند کرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی سیاست کی عمارت ہی مزاحمتی سیاست نے اٹھائی۔ بھٹو نے ایوب خان کو چیلنج کیا۔ ان کے اقتدار کے در و دیوار کو ہلا ہلا کر زمین بوس کیا۔ نواز شریف نے پیپلز پارٹی جو کہ ملک گیر اور سب سے مقبول جماعت تھی کی قیادت کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پنجاب میں قدم جمنے نہیں دیئے۔ رفتہ رفتہ پیپلز پارٹی کو دیس نکلا سنا دیا گیا۔
اس تجزیئے میں نون لیگ کی قیادت ایک تلخ حقیقت کو بھول رہی ہے کہ پنجاب کے شہری سلامتی کے متعلقہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی کو پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے کبھی بھی دفاعی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کے حامیوں کا ساتھ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی کی نظیر ہمارے سامنے ہے۔ پی پی پی سلامتی کے اداروں سے ٹکرائی، تو اس کا ساتھ دینے کے بجائے عوام نواز شریف کے گرد جمع ہوگئے۔
نون لیگ کے جو عناصر تصادم اور ٹکراؤ کی کوکھ سے مزاحمتی سیاست کے ظہور کے متمنی ہیں، انہیں مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں جو نظام حکومت جڑ پکڑ چکا ہے، وہ جلدی بدلنے والا نہیں۔ قوم سیاستدانوں پر آج بھی پوری طرح اعتماد نہیں کرتی۔ ایک تو ان کی کارکردگی متاثر کن نہیں۔ دوسرا ہر ایک نے سیاست اور خدمت کے نام پر ذاتی اور خاندانی کاروباری سلطنت کو وسعت دی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنی جان چھڑا کر سارا بوجھ فوج پر ڈال دیا۔ بلوچستان، کراچی اور خیبر پختون خوا میں امن وامان کی بحالی میں صوبائی حکومتوں نے قابل ذکر کردار نہیں ادا کیا۔ جہاں بھی سیکورٹی فورسز نے آپریشن کیے اور علاقے خالی کرائے ان میں سے بھی اکثر علاقوں میں سول انتظامیہ اپنی رٹ قائم نہیں کر پائی۔ اس نوعیت کے تلخ حقائق شہریوں کے سامنے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سیاستدانوں کو اقتدار سے نکالا یا سولی پر چڑھایا جاتاہے، تو آسمان پھٹتاہے نہ زمین کانپتی ہے۔
نون لیگ کے لیے بہتر حکمت عملی یہ ہے کہ قومی اداروں کے ساتھ تصادم کی پالیسی ترک کرکے مفاہمت کی راہ اختیار کرے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ امریکہ اور سعودی عرب اس کی جیب کی گھڑی اورہاتھ کی چھڑی ہیں۔ ٹکراؤ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نون لیگ کے لیے اگلے عام الیکشن میں بے پناہ مشکلات پیدا ہوجائیں گی، جن کا مقابلہ اس کی کمزور تنظیم نہ کرسکے گی۔
نون لیگ کی لیڈر شپ جنتا زیادہ یہ تاثر دے گی کہ اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف ہے، اتنا ہی جلدی اس کا خیمہ اجڑے گا۔ ارکانِ قومی اور صوبائی اسمبلی بھی موسمی پرندوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ سیاستدان، پارٹی بھی دھوتی کی طرح بدلتے ہیں۔ ووٹر ناراض ہوتاہے نہ کوئی سماجی دباؤ پڑتاہے۔
………………………………..
لفطونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق نہیں۔