میرے گھر آسمان سے اترا فرشتہ

Blogger Sajid Aman

بیٹیاں آسمان سے اُترے فرشتوں جیسی ہوتی ہیں۔ میری آج کی تحریر اُن والدین کے لیے بھی ہے، جن کی بیٹیاں ہیں…… اور اُن کے لیے بھی ہے، جن کے گھر آسمان سے فرشتے نہیں اُترے، یعنی اُن کے ہاں بیٹی نے جنم نہیں لیا۔
قارئین! میرے گھر ایک ہی فرشتہ اترا ہے،یعنی میری ایک ہی بیٹی ہے۔ یہ فرشتے اپنے والدین کو چھوڑ کر کسی اور کے گھر میں جا بستے ہیں۔ یہ صبر، شکر، خوشی، غم، رونے اور ہنسنے کا امتزاج ہوتے ہیں۔
جب میری بیٹی کی شادی تھی، اُس سے کچھ دن پہلے مَیں خود کلامی کا شکار ہوگیا تھا۔ آج سوچا، کیوں نہ قارئین سے وہ وقت، یادیں اور کیفیت شریک کرلوں……!
مَیں نے اپنی فیس بک والی پر ایک تصویر دی ہے، جو محض ایک تصویر نہیں…… اُس میں میری کہانی ہے، جس کے لکھنے کی ہمت میں نہیں کر پا رہا۔ میری بیٹی کی رخصتی 30 اپریل 2023ء کو طے ہے۔ یوں شادی کی تقریبات یکم مئی کو مکمل ہوں گی۔ یوں تو معاشرتی معنوں میں یہ ایک خوشی کی بات ہے، مگر میں دل گرفتہ ہوں۔
’’ہانیہ ساجد امان‘‘ کی پیدایش تب ہوئی تھی، جب ہماری رہایش لاہور میں تھی۔ ایک اچھے محل وقوع اور بہترین پڑوس میں رہتے ہوئے بھی جب آپ اپنے وطن (جیسا کہ میرا وطن سوات ہے) میں نہیں ہوتے، تو بہ ہر حال دوسرے درجے ہی کے شہری ہوتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ خواہ آپ کتنے ہی باوقار اور بااعتماد کیوں نہ محسوس کریں، آپ ’’پٹھانوں کا گھر‘‘ کے نام سے پکارے اور جانے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ عجیب قسم کا امتیاز ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہم بھی سات پشتوں تک کسی کو گرین کارڈ نہیں دیتے۔ پنجابی، کشمیری (وغیرہ) پہچان اور تاریخ ساتھ ضرور لگاتے ہیں۔ انسانی خصلت یا خصوصیات سے بڑھ کر انسان کی نسل میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں۔ کتے، بلی، گائے، بھینس وغیرہ کے حوالے سے بھی ہماری روش ایسی ہی رہتی ہے، جو شاید بامعنی ہو، مگر انسانی نسل میں ذیلی نسل پر اصرار مجھے اپنی انا کی تسکین سا لگتا ہے۔
لاہور میں رہتے ہوئے تین چوتھائی پاکستان میری سلطنت تھا، جس کے دورے میری مزدوری تھی اور اسی عمل سے کمائی تھی۔ کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، بالائی پنجاب، وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب میں کوٹ سبزل تک پنجاب اور سندھ کا آخری قصبہ میرے رحم کرم پر دے کر مجھے ایک طرح سے خود قابلِ رحم بنایا گیا تھا۔ یوں میں عملی طور پر اپنے گھر میں گندے کپڑے دے کر واپس صاف اور استری شدہ لے کر بھاگ نکلنے تک ہی ممبر تھا۔
میری بچی (ہانیہ ساجد امان) میرے ساتھ بہت مانوس تھی۔ ایک دن مَیں نے دیکھا کہ وہ بہت چھوٹی ہے۔ مَیں گھر سے گاڑی نکال رہا ہوں، وہ ماں کی گود میں ہے اور میری طرف لپک رہی ہے۔ اُس روز گاڑی نکال کر اُسے سیاہ تارکولی روڈ پر دوڑاتے ہوئے مَیں اپنی بے بسی، بل کہ غلامی پر بہت رنجیدہ تھا۔
پھر 2009ء میں جب مجھے کراچی جانا پڑا، تو فیملی کراچی لے جانا شاید ممکن نہیں تھا۔ اُن دنوں کراچی ٹارگٹ کلنگ اور نسلی فساد کی بدترین آگ میں جل رہا تھا۔ دوسری طرف شمالی پاکستان، فرقہ واریت اور عسکریت پسندی کی شدید لپیٹ میں تھا۔ اگر عملی طور پر زندگی کہیں پُرسکون تھی، تو وہ پنجاب ہی میں تھی، جہاں میرا خاندان سماجی تنہائی کے احساس میں دوہرا ہو رہا تھا اور کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی کہ رہایش لاہور ہی میں رکھی جائے۔
سوات شفٹ ہونے کے بعد مَیں پاکستان کے ایک آخری کنارے اور خاندن دوسرے آخری کنارے پر رہ کر تقسیم ہوگئے۔ ایک ناقابلِ برداشت خلیج ہمارے درمیان حائل ہوگیا۔ پیشہ ورانہ زندگی کی یادداشتوں پر مبنی ایک الگ تفصیلی تحریر لکھنے کا پروگرام ہے، جس کے کئی نوٹس اور یادداشتوں پر مبنی صفحات پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔ یقینا پیشہ ورانہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی راہ نمائی درکار ہوگی اس ضمن میں۔
باس یا افسر کا انتخاب کوئی نہیں کرنا چاہتا، مگر ایک آئیڈیل باس کی اُمید ہر کوئی کرتا ہے۔ مجھے پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف افسران کے ماتحت کام کرنے کا موقع ملا، جن میں انتہائی ایمان دار، صاف گو اور راست باز لوگ بھی رہے اور ایسے بھی رہے، جن کو غصے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔ ایسے مصنوعی دانش ور بھی دیکھے، جو ہر مسئلے کا حل گوگل کرکے دھاک بٹھانے میں ماہر اور کینہ پروری میں یکتا تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے، جو احساسِ کم تری کے مارے مسخروں کی طرح اشارے کرتے اور جبر کرتے کہ اُن کا احترام کیا جائے۔
’’ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم‘‘
کے مصداق مالک کے سامنے اپنے وجود کی نفی کرنے والے، زاہد و عابد بن جانے والے اور چمچے مسکے لگا کر نوکری پکی کرنے والے اور زیرِ دست لوگوں کے لیے آسمان ہمیشہ نیچے رکھنے والے بھی قریب سے دیکھے۔ پیشہ ورانہ زندگی میں سختی اور اچھی ملازمت کا بہ ہرحال تقاضا ہوتا ہے۔ اس دوران میں، مَیں جب بھی اپنے خاندان سے ملتا، تو واپس اپنی بیٹی سے جدا ہونا سب سے مشکل ہوتا۔مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب اُس نے بولنا شروع کیا……مگر پہلا لفظ جو اُس نے سیکھا وہ ’’پاپا‘‘ ہی تھا۔
2016ء میں مجھے کمر کی تکلیف شروع ہوئی، تو کئی دفعہ مجھے ’’بیڈ ریسٹ‘‘ کا مشورہ ملا۔ تکلیف میں عجیب سا سکون ملتا۔ میری بیٹی دیوانگی کی حد تک مجھ سے منسلک رہی۔ پھر جب میری تکلیف ختم ہوتی اور کام پر طویل وقت کے لیے نکلتا، تو اُس کے لیے مشکل ہوتی کہ کون سی دعا کرے؟ ’’میری بیماری طویل ہو کہ مَیں گھر پہ رہوں؟‘‘ یا ’’میری تکلیف ختم ہواور میں تلاشِ رزق میں اُس سے دور رہوں؟‘‘
اگر کسی کو میری وجہ سے میری بیٹی کے ساتھ رقابت کا عجیب سے جذبہ ہوتا، تو وہ میری بیوی ہی تھی۔ وہ نیک بخت کہتی: ’’یہ لڑکی ہے۔ اس کی ہر خواہش کے آگے جھکنا تمھیں ایک دن ضرور رُلائے گا۔ یہ لڑکی ہے لڑکا نہیں۔‘‘
اور مجھے احساسِ محرومی آپکڑتا۔ میری بیوی نے میرا بہت ساتھ دیا۔ آدھی محبت اور آدھی خاندانی دل چسپی نے مل کر میری شادی ممکن بنائی۔ میری شریکِ حیات نے بڑی بہادری سے میری زندگی آسان بنائی۔ رونا دھونا اور شکوہ شکایت سے آگے مجھے خبر نہ ہونے دی۔ بچوں کی سکول کی فکر، ڈاکٹر اور کپڑوں کی فکر لاہور جیسے دیارِ غیر میں بھی اُن ہی کی دامن گیر رہی اور مجھے خبر تک نہ ہونے دی۔ مَیں چار بچوں کے ساتھ پانچواں بچہ بن کر پلتا رہا۔
مارچ 2018ء میں جب مجھے بیماری کے سبب ملازمت چھوڑنا پڑ رہی تھی، تو اُس وقت میری بیٹی بہت خوش تھی، جب کہ میری بیوی مستقبل کی بے یقینی کا ذکر کرتیں اور کہتیں کروگے کیا؟ تو اِس کا جواب اُس وقت میرے پاس بھی نہیں تھا۔ مَیں جو 1992ء سے ایک نئی شناخت کے ساتھ نکلا تھا۔ 1997ء میں شادی کی۔ 2000ء میں عملی طور پر شہر چھوڑ چکا تھا اور 18، 19 سالوں میں میرا اپنا شہر مجھے بھول چکا تھا۔ میری شناخت ایک اجنبی کی سی تھی، جس کو بس قریبی رشتے دار اور چند جاننے والے بھلا نہیں پائے تھے۔ میرے لہجے میں توازن آگیا تھا، مگر صورت پر سخت وقت اپنا اثر چھوڑ چکا تھا۔
اپریل 2018ء کے بعد ایک نئی اور مختلف زندگی شروع کرتے وقت ہر دفعہ مایوسی اور بے یقینی نے میرا استقبال کیا۔ 2018ء میں شروع کرنے والے کاروبار پر اگلے ہی سال فروری کے آخر میں کورونا وبا نے ترقی کے دروازے بند کر دیے۔ کاروبار بھی وہ جو ابھی پورا ایک سال بھی گزار نہیں پایا تھا، ابھی ابتدائی جد و جہد ہی میں تھا۔
ایک طرف کشتیاں جلا چکا تھا، جب کہ دوسری طرف یہ فیصلہ مشکل تھا کہ مَیں دوبارہ ملازمت شروع کروں، یا کاروبار کی نوعیت بدل دوں؟ مشورہ ہر طرف سے مل رہا تھا، مگر میں ایک طویل عرصہ جدائی اور بغیر شناخت کے رِہ کر حوصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ معیارِ زندگی آمدن کی کمی کے ساتھ پہلے ہی دن بہ دن گر رہا تھا، جس کا اثر پورے خاندان کے اعتماد پر پڑ رہا تھا۔ ایسے میں میری بیٹی مجھے حوصلے دیتی اور کہتی، ’’شروع میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے اور دیگر لوگوں سے بڑھ کر ہے۔‘‘
مَیں اُس کی خواہش کو ساتھ رہنے کی تمنا سمجھتے ہوئے خود کو ایک طرح سے مطمئن کرتا۔ میری خواہش تھی کہ وہ پڑھے اور جتنا پڑھ سکے، پڑھ لے۔ وہ پوچھتی، ’’پاپا! اگر مجھے ملک سے باہر جانا پڑ جائے اعلا تعلیم کے لیے، تو آپ کیا محسوس کریں گے؟‘‘
مَیں جواب دیتا، ’’مَیں ہر جگہ فخر سے سینہ تان کر کھڑا رہوں گا۔‘‘
وہ سن کر خوش ہوتی۔ افسوس، وہ صرف میٹرک تک ہی پہنچ پائی۔ مَیں اس کے رشتے کے حوالے سے ہار گیا۔ کیوں کہ سب کی یہی خواہش تھی۔
ہانیہ میری اس پوری دنیا میں سب لڑکیوں سے مختلف بیٹی ہے، جس سے مَیں آج بھی ہر بات کہنے اور واپس اُس کی طرف سے سننے کی طاقت رکھتا ہوں۔
مَیں اُس کے رشتے پر کوئی بات نہ کرسکا۔ کیوں کہ شادی کی بات، بل کہ موضوع پر بپھر جانے والی ہانیہ، رشتہ ہونے کے حق میں تھی شاید…… مجھے اس کے منھ سے سننے کی ضرورت نہیں تھی۔
میری بیوی، جس سے مَیں ہر جنم میں شادی کرنے کو ترجیح دوں گا، بھی کھل کے نہیں کَہ رہی تھی، مگر مجھے رشتے کی مخالفت سے روک بھی رہی تھی۔ میرا داماد، میرا بھانجا، میری پھوپھی کا پوتا، میرے سامنے ہے، جو ہمیشہ ہی مجھے اتنا عزیز رہا، جتنا آج ہے۔ انجینئرنگ کرکے فارغ ہوا ہے۔ وہ کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی اور میری بیٹی تین بھائیوں کی اکلوتی بہن، کیا خوب جوڑی ہے۔
معلوم نہیں، مگر معاشرتی طور پر یہ بہت خوشی کی بات ہے…… اور مَیں خوش بھی ہوں، اس طرح سب بہت خوش ہیں، مگر بیٹی کی جدائی کا درد ہر خوشی پر غالب ہے۔ معلوم نہیں یہ پیار ہے، اُنسیت ہے، یا خود غرضی …… کہ میری بیٹی ہوتے ہوئے بھی ہانیہ ایک بیٹے کی طرح مجھ سے سلوک کرتی چلی آ رہی ہے۔ میرے آنے کا انتظار، میرے کھانے کی فکر، میرے سونے جاگنے کا خیال، میری طبیعت اور موڈ سے بہ خوبی واقفیت، اتنی محبت شاید مَیں بھی کبھی اس سے نہ کرسکوں۔
ہر لمحے بس اُسے ایک آواز دینا اور اگلے ہی لمحے ایک دل فریب مسکراہٹ کے ساتھ ہانیہ کی موجودگی، کسی بھی فرمایش کے بغیر فوراً سے پیش تر عمل۔
ہانیہ میری رگوں میں دوڑ رہی ہے۔ مَیں اُسے رخصت کرتے ہوئے اور رخصتی کے بعد کیا محسوس کروں گا، یہ احساس بہت تکلیف دِہ ہے۔
امجد اسلام امجدؔ کی اس دعائیہ نظم کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
تم جس خواب میں آنکھیں کھولو
اُس کا رُوپ امر
تم جس رنگ کا کپڑا پہنو
وہ موسم کا رنگ
تم جس پھول کو ہنس کر دیکھو
کبھی نہ وہ مُرجھائے
تم جس حرف پہ انگلی رکھ دو
وہ روشن ہو جائے

……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے