حضرت مولانا مسعود احمد (چارباغ، سوات)

Blogger Hilal Danish

وادیِ سوات کے قلب، چارباغ کی سرسبز وادیوں میں ایک ایسی ہستی نے آنکھ کھولی جس کا وجود علم، حلم، فہم، فراست اور استقامت کا پیکر بن کر اُبھرا۔ وہ جن کی مسکراہٹ میں شفقت، خاموشی میں حکمت اور اندازِ گفت گو میں دل نشینی کی مہک تھی۔ مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ صرف ایک نام نہیں، ایک عہد، ایک ادارہ اور ایک روحانی مرکز تھے۔
٭ خانوادۂ علم و عرفان:۔ مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ 1954ء میں چارباغ، سوات کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ والدِ گرامی، مولانا خونہ گل المعروف کیملپور مولوی صاحب اور دادا، مولانا عبد الحنان رحمہ اللہ، علاقہ بھر میں علم و تقوا کے حوالے سے معروف تھے ۔ اُن کا گھر علم و ہنر، ذکر و فکر اور محبتِ دین کا گلشن تھا۔
بچپن ہی سے والد کی گود میں اذانیں سننا، کتابوں کی مہک اور صوفیانہ تربیت کا فیض ملا۔ وہ گھر جہاں درسِ نظامی کی آوازیں دن رات گونجتی تھیں، وہی اُن کے قلب و ذہن کا پہلا مکتب ثابت ہوا۔
٭ ابتدائی تعلیم و روحانی نشو و نما:۔ 1959ء میں چارباغ پرائمری اسکول میں داخل ہوئے۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں بھی دل چسپی برقرار رہی۔ والدِ محترم سے فارسی نظم، قافیہ، صرف و نحو اور فقہ کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ یہ مطالعہ محض درسی نہیں، بل کہ جذبِ دل سے سرشار ایک روحانی تربیت کا آغاز تھا۔ 1970ء میں چارباغ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
٭ دارالعلوم اسلامیہ چارباغ علمی تشنگی کا پہلا سنگِ میل:۔ مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ میٹرک کے بعد جب دارالعلوم اسلامیہ چارباغ میں داخل ہوئے، تو گویا پانی اپنی سطح کی طرف لوٹ آیا۔ یہاں ’’شرحِ جامی‘‘، ’’اُصولِ شاشی‘‘، ’’نقولِ اکبری‘‘، ’’نور الانوار‘‘، ’’تلخیص‘‘، ’’شرح وقایہ‘‘، ’’بدیع‘‘، ’’میزانِ قطبی‘‘ جیسی جلیل القدر کتابیں پڑھیں۔ اُن کے مطالعے میں جو انہماک تھا، وہ اُن کے مستقبل کے علمی وقار کا اعلان کر رہا تھا۔ شاگردی میں انکسار، مطالعے میں ہمہ وقت انہماک، اور گفت گو میں علم و حلم کا توازن، ہر استاد اُن پر فخر کرتا۔
٭ شامنصور سے لاہور:۔ دارالعلوم چارباغ میں دو سال گزارنے کے بعد صوابی کے معروف علمی مرکز شامنصور کا رُخ کیا۔ یہاں شیخ القرآن حضرت مولانا عبد الہادی سے تفسیر کا دورہ مکمل کیا۔ 1972ء میں علم کا قافلہ لاہور کی جانب روانہ ہوا۔ جامعۂ مدینہ لاہور میں تین سال قیام کیا اور مختلف درجات کی کتب مکمل کیں۔ ساتھ ساتھ ایف اے، مولوی فاضل (1973ء)، اور منشی فاضل (1975ء) کے امتحانات پاس کیے۔ 1976ء میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں داخلہ لیا۔ یہاں کے اساتذہ اُن کے علمی ذوق و شوق سے بے حد متاثر ہوئے۔
٭ وہ اساتذۂ کرام جنھوں نے نکھارا:۔ مولانا کے اساتذہ نہ صرف بلند پایہ علما تھے، بل کہ روحانی و علمی تربیت کے ماہر بھی تھے۔ اُن میں نمایاں نام درجِ ذیل ہیں:
مولانا کریم اللہ رحمہ اللہ، مولانا ظہور احمد رحمہ اللہ، مولانا مرزا گل بونیری رحمہ اللہ، مولانا محمد مالک کاندھلوی رحمہ اللہ (شیخ الحدیث)، مولانا عبد الرحمان رحمہ اللہ، مولانا محمد موسیٰ خان رحمہ اللہ اور مولانا صوفی سرور رحمہ اللہ۔ یہی وہ نفوسِ قدسیہ تھے، جن کی تربیت نے مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ کو علومِ نبوت کا امین بنا دیا۔
٭ دینی علوم کے ساتھ طبی علوم:۔ 1976ء میں اپنے والد کی خواہش پر ’’طبیہ کالج لاہور‘‘ میں داخلہ لیا۔ فاضل الطب و الجراحت کا چار سالہ کورس کیا۔ دورانِ تعلیم انار کلی لاہور کی ایک مسجد میں امامت بھی کی اور اپنی قلیل تنخواہ سے نہ صرف اپنے اخراجات پورے کیے، بل کہ خود داری کو کبھی داغدار نہ ہونے دیا۔ اسی دوران میں شادی بھی ہوئی، مگر تعلیم و خدمت دونوں میں اخلاص کا دامن نہ چھوڑا۔
٭ تدریس کی دنیا بزمِ علم کی روشنی:۔ 1980ء میں ’’طبیہ کالج‘‘ کی چھٹیوں میں گھر واپسی پر دارالعلوم اسلامیہ چارباغ میں بہ طور مدرس تقرر ہوا اور یوں درس و تدریس کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جس نے ہزاروں طلبہ کی تقدیر بدلی۔
مولانا ہر کتاب کا درس یوں دیتے جیسے وہ کتاب اُن پر نازل ہوئی ہو۔ ’’فتح الباری‘‘ اور ’’فیض الباری‘‘ جیسے دقیق متون کو سادگی سے سمجھا دینا ان کا خاصا تھا۔ نحو میں مہارت وراثت میں ملی تھی، اس پر محنت نے نکھار پیدا کیا۔
٭ سادگی، استقامت اور فکری رُوح:۔ سادگی مولانا کی پہچان تھی، مگر باطن میں شہزادگی تھی۔ لباس ہو یا طعام، طرزِ گفت گو ہو یا نشست و برخاست ہر جگہ علم، وقار اور سچائی کا عکس دکھائی دیتا۔ وقت کے سخت پابند تھے۔ درد و بیماری میں بھی درس ترک نہ کیا۔ باطل کے سامنے چٹان کی مانند کھڑے رہتے۔ شاگردوں سے محبت اور تربیت کا انوکھا امتزاج رکھتے تھے۔
٭ علمی و روحانی بلندی صدارت اور خدمات:۔ 1997ء میں مولانا ادریس کی ریٹائرمنٹ کے بعد دارالعلوم اسلامیہ چارباغ کے صدر مدرس مقرر ہوئے۔ یہاں آپ نے نصاب، نظم، تربیت اور امتحانات کے نظام کو ایک نئی جہت دی۔ طلبہ کی ذہنی و روحانی تربیت کو ہمیشہ مقدم رکھا۔ ان کی مجلس میں بیٹھنے والا صرف علم نہیں لیتا تھا، وہ حلم، وقار، استقامت اور سچائی کا سبق سیکھتا تھا۔
٭ شہادت ایک تاب ناک اختتام:۔ سوات کے حالات جب بدترین رُخ اختیار کرگئے، تب بھی مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ حق پر ڈٹے رہے۔ پیر سمیع اللہ کی شہادت کے دو دن بعد، جولائی 2008ء میں مولانا کو بھی شہید کر دیا گیا۔ تحریکِ طالبان پاکستان ’’ٹی ٹی پی‘‘ کی دھمکیاں، سماجی دباو اور ذاتی خطرات کے باوجود وہ اپنی ذات سے آگے حق کو ترجیح دیتے رہے۔
٭ وارثانِ علم تسلسل کی امیدیں:۔ آپ کے پس ماندگان میں ڈاکٹر مصباح احمد (سینئر سائنٹسٹ، ارنم ہسپتال پشاور)، مولانا منہاج احمد (ممتاز عربی مدرس)، مدرار احمد (کاروباری شخصیت)، انجینئر معراج احمد (گورنمنٹ مڈل اسکول چارباغ) اور انجینئر مرصاد احمد (گورنمنٹ پرائمری اسکول چارباغ) شامل ہیں۔ یہ پانچوں سپوت اپنے والد کے علمی، اخلاقی اور فکری ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
٭ خلاصۂ حیات، ایک چراغ جو بجھ کر بھی روشنی دے گیا:۔ مولانا مسعود احمد رحمہ اللہ کی زندگی علم و عمل، حلم و صبر، شجاعت و سادگی اور استقامت و قربانی کا مرقع تھی۔وہ صرف ایک مدرس نہیں تھے، وہ ایک مکتب تھے۔ وہ صرف ایک اُستاد نہیں تھے، بل کہ ایک کارواں تھے ۔ وہ چلے گئے، مگر اُن کے علم کی گونج آج بھی سوات کے کونے کونے میں سنائی دیتی ہے۔ اُن کے طلبہ آج بھی اُن کی باتوں، لہجے، دعاؤں اور دعوؤں کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا ہر لمحہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ علم کو پھیلاؤ، حق پر ڈٹ جاؤ اور باطل سے نہ ڈرو۔
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اُن کی قبر کو نور سے بھر دے اور اُن کے علمی و فکری مشن کو تاقیامت زندہ رکھے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے