زندگی میں کچھ اسفار کی حیثیت عام نہیں ہوتی۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں، جو انسان کی روح کو جھنجھوڑ دیتے ہیں، اُس کے باطن کو پاکیزگی بخشتے ہیں اور اُس کی سوچ کے زاویے بدل دیتے ہیں۔
میرے لیے مکہ سے مدینہ کا سفر بھی ایسا ہی ایک روحانی تجربہ تھا، جو محض ایک جغرافیائی نقل و حرکت نہیں، بل کہ عشق و عقیدت کی منازل طے کرنے کا نام ہے۔
٭ مدینہ جمالی ہے:۔ مدینہ کا تذکرہ آتے ہی دل کی دنیا بدلنے لگتی ہے۔ یہ وہ بستی ہے جس کی گلیوں میں رحمتوں کی برکھا برستی ہے، جہاں کی ہوائیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش بو سے معطر ہیں۔ یہ وہی پاکیزہ سرزمین ہے، جہاں محسنِ انسانیت، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اُخوت و محبت کے چراغ جلائے، جہاں انصار نے مہاجرین کو سینے سے لگایا اور جہاں سے اسلام کا نور پوری دنیا میں پھیل گیا۔
٭ مسجدِ نبوی سکون و جلال کا مرکز:۔ مدینہ کی طرف بڑھتے ہوئے دل جس مقام کے دیدار کے لیے بے تاب ہوتا ہے، وہ مسجدِ نبوی ہے۔ یہ وہ مسجد ہے، جہاں عبادت محض ایک عمل نہیں، بل کہ ایک وجدانی کیفیت بن جاتی ہے۔ یہاں نوافل ادا کرتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے زمین آسمان کے ساتھ ہم کلام ہو، جیسے ہر سجدہ نور میں ڈھل کر عرش تک جا پہنچتا ہو۔ یہاں کا ہر کونہ، ہر ستون اور ہر منبر محبت کا استعارہ ہے۔ یہیں وہ منبر ہے جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دین کی روشنی پھیلائی، جہاں آپ نے حق کی آواز بلند کی اور جہاں ملائکہ رحمتوں کے نزول کے لیے ہمہ وقت حاضر رہتے ہیں۔
٭ روضۂ رسول، دربارِ عشق و عقیدت:۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھتے ہوئے قدم خود بہ خود آہستہ ہوجاتے ہیں، دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگتی ہے، آنکھیں عقیدت و محبت کے آنسوؤں سے لب ریز ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں ہر آہ التجا بن جاتی ہے، ہر دعا قبولیت کی نوید پاتی ہے اور ہر دل اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ ’’السلام علیک یا رسول اللہ!‘‘ یہ الفاظ لبوں سے نکلتے ہیں، مگر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے پوری کائنات ان کے جواب میں درود و سلام کی صدا بلند کر رہی ہو۔ یہاں کھڑے ہوکر دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوجانا ایک فطری کیفیت بن جاتی ہے۔ گویا یہ صرف زیارت نہیں، بل کہ دل کے دروازے پر ایک دستک ہے، جو عشق و محبت کی راہیں کھول دیتی ہے۔
٭ ریاض الجنہ:۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ایک مقام ایسا ہے، جہاں زمین کا ہر ذرہ جنت کی خوش بو سے لب ریز ہے، ریاض الجنہ! یہاں پہنچ کر دل ایک عجیب سی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ اس مقام پر نوافل ادا کرنا، دعا کے لیے ہاتھ بلند کرنا، درود کی مالا پروتے جانا، ایک ایسا تجربہ ہے، جسے الفاظ میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ یہاں وقت جیسے رُک سا جاتا ہے، دنیا کی ہل چل مدھم ہو جاتی ہے اور ایک ناقابلِ بیان سکون دل میں اترنے لگتا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام کو تعلیم دیا کرتے تھے، جہاں ان کے ساتھ محبت بھری نشستیں ہوا کرتی تھیں، جہاں نور کی بارش برستی تھی اور آج بھی ہر زائر اس کی روشنی میں نہا جاتا ہے۔
٭ مدینہ سے رخصت:۔ مدینہ سے واپسی کا لمحہ سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ قدم بوجھل ہوجاتے ہیں، نظریں بار بار مسجدِ نبوی کے سبز گنبد کی طرف اٹھتی ہیں، دل میں خواہش ہوتی ہے کہ شاید کوئی بہانہ مل جائے اور یہیں ٹھہر جاؤں…… مگر زندگی کی حقیقتیں انسان کو واپس لے جانے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
مگر ایک بات طے ہے: جو شخص مدینہ کی گلیوں میں ایک بار چل لے، جو روضۂ رسول پر ایک بار حاضری دے لے، جو ریاض الجنہ میں ایک بار سجدہ کرلے، اس کی روح ہمیشہ کے لیے مدینہ کی خوش بو سے مہک جاتی ہے۔ یہ محبت کا ایسا سفر ہے، جس کی راہیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، جس کی منزل ہمیشہ دل میں بسی رہتی ہے۔
٭ مکہ اور مدینہ جلال و جمال کا حسین امتزاج:۔ مکہ اور مدینہ، دونوں اپنی اپنی جگہ بے مثل ہیں۔ ایک اللہ کی کبریائی کا مظہر، دوسرا رسول اللہ کی محبت کا مرکز۔ ایک اطاعت کا درس دیتا ہے، دوسرا رحمت کی چھاؤں میں لے آتا ہے۔ ایک میں بندگی کا امتحان ہے، دوسرے میں سرشاری کا انعام۔ یہ وہ دو شہر ہیں، جہاں جانے کے بعد انسان وہ نہیں رہتا، جو پہلے تھا۔ مکہ کا جلال دل کو خدا کی عظمت کا احساس دلاتا ہے، اور مدینہ کا جمال اس پر رحمتوں کی چادر ڈال دیتا ہے۔ یہ سفر ہر اُس شخص کے دل میں بسا رہتا ہے، جو ایک بار اُن بابرکت شہروں کی گلیوں میں چلتا ہے۔ مکہ کی عظمت اور مدینہ کی محبت زندگی کا وہ تجربہ ہے، جسے الفاظ میں قید نہیں کیا جا سکتا، بس محسوس کیا جا سکتا ہے، دل میں بسایا جا سکتا ہے اور زندگی بھر کے لیے اس کی روشنی میں جیا جاسکتا ہے۔
مدینہ منورہ اور اس کے نواحی مقامات کی زیارت کسی بھی مومن کے لیے ایک ناقابلِ فراموش تجربہ ہے۔ ان تاریخی جگہوں پر قدم رکھتے ہی روحانی سکون اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت کا احساس ہوتا ہے۔ اس سفر نامے میں، مَیں آپ کو ان مقدس مقامات کی سیر کراؤں گا، جن کا ذکر اسلامی تاریخ میں جلی حروف میں کیا گیا ہے۔
٭ مسجدِ غمامہ: ۔ مسجدِ غمامہ مدینہ منورہ کے انتہائی معروف مقامات میں شمار ہوتی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ استسقا ادا کی تھی اور اللہ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی تھی۔ اُس وقت آسمان پر بادل چھاگئے اور موسلا دھار بارش برسی۔ اس واقعے کی نسبت سے اس مسجد کو ’’غمامہ‘‘ یعنی بادلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ مسجد نہایت خوب صورت فنِ تعمیر کی مثال ہے اور زائرین کے لیے روحانی سکون کا مرکز ہے۔
٭ مسجدِ ابوبکر: ۔ یہ مسجد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت سے مشہور ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کئی مرتبہ نماز پڑھائی۔ تاریخی روایات کے مطابق، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس مسجد کا سادہ مگر روحانی ماحول آج بھی زائرین کے دلوں میں ایمانی حرارت پیدا کر دیتا ہے۔
٭ مسجدِ علی: ۔ یہ مسجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی یاد دلاتی ہے۔ یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کئی عبادات انجام دیں اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔ یہ مسجد سادگی اور روحانیت کا نمونہ ہے اور زائرین کے لیے عبادت و سکون کی جگہ ہے۔
٭ مسجد بلال:۔ مسجدِ بلال حبشی رضی اللہ عنہ اسلام کے پہلے موذن کی یادگار ہے۔ بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ کی پُراثر اور پرسوز اذانوں نے اہلِ مدینہ کے دلوں میں ایمان کی روشنی بھری۔ اس مسجد میں جا کر زائرین کو بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ کی قربانیوں اور اسلام سے اُن کی محبت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
٭ مسجدِ قبا:۔ یہ اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کے دوران میں تعمیر کروایا۔ اس مسجد میں دو رکعت نماز ادا کرنا ایک عمرے کے برابر فضیلت رکھتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے مسجدِ قبا کا قصد فرمایا کرتے تھے۔ مسجدِ قبا اسلامی فنِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ بھی ہے اور زائرین کے لیے ایک عظیم روحانی مقام بھی۔
٭ ایوب انصاری کا گھر:۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر وہ مبارک مقام ہے، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد قیام پذیر رہے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جب لوگوں نے اپنے گھروں میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کی خواہش ظاہر کی، تو آپ نے فرمایا کہ ’’میری اونٹنی جہاں بیٹھے گی، وہی میرا مقام ہوگا۔‘‘ اور وہ جگہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر تھی۔ یہ جگہ اسلامی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔
٭ مسجدِ جمعہ:۔ یہ وہ پہلی مسجد ہے، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلی جمعہ کی نماز ادا کی تھی۔ یہ مسجد مسلمانوں کے لیے اولین اسلامی عبادات کی یاد دِلاتی ہے۔ اس جگہ کی زیارت ہر مسلمان کے لیے ایمان کی تازگی کا باعث ہے۔
٭ بیر غرس (کنواں):۔ بیر غرس وہ کنواں ہے جس کے پانی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد پسند فرماتے تھے۔ روایت کے مطابق، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو اور غسل بھی اسی کنویں کے پانی سے کیا جاتا تھا۔ یہ کنواں آج بھی مدینہ کے تاریخی مقامات میں شامل ہے۔
٭ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا باغ اور کنواں:۔ یہ باغ اور کنواں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت کی یاد دِلاتا ہے۔ اُنھوں نے مدینہ کے مسلمانوں کے لیے ایک یہودی سے کنواں خریدا تھا، تاکہ لوگ بلا معاوضہ پانی حاصل کر سکیں۔ آج بھی یہ کنواں قائم ہے اور مسلمانوں کے لیے ایک عظیم درس ہے کہ کیسے دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔
٭ میدانِ بدر اور شہدائے بدر:۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں اسلام کی پہلی اور فیصلہ کن جنگ لڑی گئی تھی۔ 313 صحابہ نے اللہ کے بھروسے پر ایک ہزار کے لشکر کا سامنا کیا اور اللہ نے اُنھیں فتح عطا فرمائی۔ یہ مقام اسلامی تاریخ کے اہم ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے۔
٭ مسجدِ عریش:۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں غزوۂ بدر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ نصب فرمایا تھا اور اللہ تعالیٰ سے نصرت کی دعا کی تھی۔ یہاں آ کر ایمان مزید تازہ ہو جاتا ہے اور اللہ کی مدد پر یقین پختہ ہو جاتا ہے۔
٭ مقام سید الشہدا اور مسجد سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ:۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام غزوۂ اُحد میں شہید ہوئے۔ یہاں جا کر دل میں اُن کی قربانیوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
٭ جبلِ اُحد، جبلِ رماۃ اور مسجدِ قبلتین:۔ جبلِ اُحد اسلامی تاریخ کا ایک اہم پہاڑ ہے، جہاں غزوۂ اُحد کے مجاہدین نے بہادری کی مثال قائم کی۔ جبلِ رماۃ وہ مقام ہے، جہاں تیر انداز تعینات کیے گئے تھے۔ مسجدِ قبلتین وہ تاریخی مقام ہے جہاں نماز کے دوران میں قبلہ تبدیل ہوا تھا۔
٭ سبعہ مساجد، غزوۂ خندق اور قبیلہ بنو نجار:۔ مذکورہ تمام مقامات مدینہ کی تاریخی حیثیت کو اُجاگر کرتے ہیں۔ خاص طور پر غزوۂ خندق کی یادگاریں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہیں۔
٭ حضرت سلمان فارسی کا باغ:۔ یہ وہ باغ ہے جو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اور جہاں اُنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی لمحات گزارے۔
٭ بیرِ روحہ، بیرِ شفا، اور جبلِ ملائکہ:۔ یہ مقدس مقامات مختلف اسلامی واقعات کی یاد دلاتے ہیں اور آج بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہیں۔
قارئین! یہ سفر روحانی اعتبار سے نہایت بابرکت تھا۔ ہر مقام کی زیارت نے ایمان کو مزید تازہ کر دیا اور دل کی دنیا بدل دی۔ اللہ ہمیں بار بار ان مقدس مقامات کی زیارت نصیب فرمائے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
