ترجمہ: اسد اللہ میر الحسنیٰ
’’مَیں چاہتی ہوں کہ میرے بعد کوئی ایسا آئے جو میرے ساتھ انصاف کرے۔‘‘
یہ وہ عبارت ہے جس سے خلیل جبران کی محبوبہ مشہور ادیبہ ’’می زیادہ‘‘ (1886-1941) نے اپنی تخلیق ’’لیالی العصفوریہ‘‘ کا آغاز کیا۔ یہ وہ تحریر ہے، جو اُنھوں نے بیروت میں 1936ء سے 1941ء کے درمیانی عرصے میں ایک ذہنی امراض کے شفاخانے ’’العصفوریہ‘‘ میں قیام کے دوران میں قلم بند کی۔ یہ مخطوطہ طویل مدت تک مفقود رہا، جس نے الجزائری ادیب واسینی الاعرج کو اس کی جستجو کے لیے آمادہ کیا۔ ایک طویل اور کٹھن تحقیق کے بعد، جس میں محققہ روز خلیل کی معاونت بھی شامل تھی، واسینی الاعرج نے اس مخطوطہ کے مختلف اجزا دریافت کیے۔ ایک حصہ بیروت میں ملا اور دوسرا اہم حصہ مصر میں ایک عمر رسیدہ خاتون کی تحویل میں محفوظ تھا۔ اُنھوں نے اس مخطوطہ کو اپنی تصنیف ’’می: لیالی ایزیس کوپیا (2018ء)‘‘ میں شامل کیا اور اس کی تلاش کے مراحل کو کتاب کے ابتدائی حصے میں تفصیلاً بیان کیا۔
اس مخطوطے میں ’’می زیادہ‘‘ (May Ziadeh) نے ’’العصفوریہ‘‘ میں اپنے الم ناک تجربات اور اپنے قریبی اقربا کی جانب سے روا رکھے گئے شدید ظلم و ستم کا ذکر کیا ہے، جنھوں نے اپنی خود غرضی کے تحت انھیں اس پاگل خانے میں داخل کرا دیا، تاکہ اُن کی جائیداد پر قابض ہوسکیں۔ اس ظلم میں سب سے نمایاں کردار اُن کے کزن جوزیف کا تھا، جس سے وہ محبت کرتی تھیں اور جس پر اُنھوں نے بے حد اعتماد کیا تھا۔ اپنے بھائی، والد اور والدہ کی وفات کے بعد، جب وہ تنہائی اور غم کے عالم میں تھیں، تو اُنھوں نے جوزیف سے مدد کی درخواست کی۔
جوزیف نے فوراً مدد کے لیے آنے کا وعدہ کیا اور بیروت پہنچ کر ’’می زیادہ‘‘ کو تسلی بخش اور دل نشیں الفاظ کے ذریعے قائل کیا کہ وہ اُن کے ساتھ بیروت چلی جائیں، تاکہ کچھ سکون حاصل کرسکیں۔ بعد ازاں، اُس نے اُنھیں اپنی جائیداد کی نگہ داشت کے لیے وکالت نامہ دینے پر آمادہ کیا…… لیکن جلد ہی، جوزیف نے اُن پر جنون کا الزام عائد کرکے اُنھیں ’’العصفوریہ‘‘ شفاخانے میں داخل کرا دیا۔
’’می زیادہ‘‘ نے اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’اُنھوں نے مجھے شام چار بجے سے پہلے میرے گھر سے نکالا۔ مجھے اسٹیشن پہنچایا، جہاں سے مجھے ٹرین میں بٹھا کر خود غائب ہوگئے۔ مَیں بیٹھی رہی، یہاں تک کہ ڈاکٹر اور دو دیگر افراد آئے، تب ٹرین چلی۔ یہ شام چھے بجے کا وقت تھا۔ بیروت میں پہلے ہفتے کے دوران میں، مَیں نے اپنے کزن ڈاکٹر جوزیف زیادہ کو ان کے وعدے کی یاد دہانی کرائی اور کہا کہ مَیں اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہوں۔ کیوں کہ مَیں بالکل ٹھیک ہوں اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اس نے چند تسلی کے الفاظ کہے اور مجھے زبردستی دو مہینے اور پندرہ دن اپنے پاس رکھا۔ بالآخر، اپنی سازش مکمل کرنے کے بعد، اس نے مجھے ’’تغذیہ‘‘ کے بہانے ’’العصفوریہ‘‘ بھیج دیا۔ میرے یہ قریبی رشتہ دار، زندگی کے نام پر، مجھے پاگل خانے میں موت کے دہانے پر چھوڑ گئے۔‘‘ (صفحہ: 51)
’’می زیادہ‘‘ اپنے مخطوطے میں ان حیرت انگیز تفصیلات کو بیان کرتی ہیں، جن میں اُن کے چند مشہور ادبا سے تعلقات شامل ہیں، جیسے طہ حسین، العقاد، مصطفی صادق الرافعی، لطفی السید وغیرہ۔ یہ سب اُن کے سانحے کے وقت اُن کا ساتھ چھوڑ گئے اور صحافت نے بھی اُن سے منھ موڑ لیا۔ مزید برآں، مصنفہ نے اپنی ابتدائی پرورش کا ذکر کیا، جو ناصرہ میں ہوئی اور اس جگہ سے اُن کی جذباتی وابستگی کو بیان کیا۔ اُنھوں نے قاہرہ میں اپنے ادبی مجلس اور ادیب خلیل جبران کے ساتھ اپنے عشق کا ذکر بھی کیا، جن کی وفات نے اُن کی روح پر گہرا زخم چھوڑا: ’’صحافت نے مجھے فروخت کر دیا۔ سوزی اور میرے عزیز ترین احباب نے اپنی نگاہیں خلا کی وسعتوں کی طرف موڑ لیں۔ مَیں اُن پر اعتماد کرتی تھی، مگر اُنھوں نے مجھے تنہا چھوڑ دیا۔ مَیں اُن کی دوستی پر شک کرنے لگی ہوں۔ اگر طہ حسین میری خاطر چند جملے ہی رقم کر دیتا، تو کیا ہوتا؟ اگر العقاد اس محبت کا وفادار رہتا، جو پروان چڑھ کر جلد ہی دم توڑ گئی اور جسے جبران سے مہلک حسد نے فنا کر دیا۔ یہ ہمارے درمیان ایک پژمردہ مکالمہ تھا، جو ہر گوشے میں گونجتا تھا۔ پھر لطفی السید کیوں خاموش رہا، جس کے خلوص اور خوب صورت دل سے میں بہ خوبی واقف تھی؟ اور وہ مصطفی صادق الرافعی، جو دعوا کرتا تھا کہ وہ مجھ پر دل و جاں سے فریفتہ ہے، خاموش کیوں رہا؟ اور باقی سب…… کیا یہ ممکن ہے کہ وہ سب ایک ہی صف میں ہوں؟ (ص: 161، 162)
’’می زیادہ‘‘ کی زندگی کی یہ تفصیلات، جو مخطوطہ میں درج ہیں، فرانسیسی فن کارہ کامی کلودیل کی زندگی کی تفصیلات سے مماثلت رکھتی ہیں، جو کتاب ’’مراسلات کامی کلودیل‘‘ میں محفوظ ہیں۔ کامی نے مشہور مجسمہ ساز اگست رودان سے محبت کی اور یہ تعلق اسے تباہ کرگیا، یہاں تک کہ 1913ء میں اسے ایک ذہنی صحت کے ادارے میں بند کر دیا گیا۔ ’’می زیادہ‘‘ نے اپنے مخطوطے میں اس مشابہت کا ذکر کیا اور اس پُراَسرار تقدیر پر حیرت کا اظہار کیا، جس نے قاہرہ میں اُن کے ادبی مجلس کی ایک محفل میں فرانسیسی قونصل کو یہ کتاب پیش کرتے ہوئے ، گویا اُنھیں کلودیل کی طرح کے انجام کا پیش خیمہ دیا: ’’زندگی میں کچھ عجیب لمحات اور اشارے ہوتے ہیں جن کے معنی ہم بہت دیر کے بعد سمجھتے ہیں۔ شاید تب جب وقت گزر چکا ہو۔ اُس کے دل میں یقین تھا کہ ہم میں کچھ نہ کچھ مشترک تھا۔ اُس کی ماں اور حتیٰ کہ اُس کے بھائی اور رودان نے اسے اس گندے مقام میں ڈال دیا اور اسے اس ظالمانہ انجام کا سامنا کرنے کے لیے چھوڑ دیا، جس کے لیے وہ تیار نہ تھی۔ (ص: 163، 164)
یہ الم ناک کہانیاں اور تلخ واقعات قاری کو ایک ایسے کرب اور دکھ کا ذائقہ چکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں، جو انسان کی روح کو مضمحل اور دل کو پژمردہ کر دیتا ہے۔ ان میں ظلم کی شدت کا وہ احساس پوشیدہ ہے، جو دلوں کو زخمی اور روحوں کو بے جان کر دیتا ہے…… لیکن ان کہانیوں کا مقصد محض دکھ کی تصویر کشی نہیں، بل کہ یہ قاری کو ایک گہرا درس فراہم کرتی ہیں، اور ان چالاکیوں اور مکر و فریب کے حربوں سے آشنا کرتی ہیں، جنھیں بعض لوگ اپنے مادی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنی زبان دانی اور ذہنی چالاکیوں کے ذریعے آپ کے اردگرد کی دنیا کو بدصورت اور پراگندہ بنا کر پیش کرتے ہیں، اور پھر خود کو نجات دہندہ اور مسیحا کے روپ میں دکھاتے ہیں…… لیکن جب اُن پر اعتماد کیا جائے، تو یہ اپنی بے رحمی اور سنگ دلی سے آپ کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ یہ وہی بھیڑیا ہے، جو ہر عہد میں، ہر جگہ اور ہر داستان میں لیلیٰ کا تعاقب کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اُن کی آرزو تھی کہ اُن مظلوموں کو انصاف ملے ، اُن کی چیخیں کسی سننے والے تک پہنچیں۔ شاید یہ انصاف تب ممکن ہو جب عورت اس شعور اور ادراک کے اُس درجے تک پہنچے، جہاں وہ جھوٹ اور فریب کے پردے کو چیر کر دیکھ سکے، چاہے وہ کتنا ہی دل کش اور پرکشش کیوں نہ ہو: ’’آج مجھے یہ حق حاصل ہے کہ بادل کی مانند تحلیل ہو جاؤں، اپنے اس عشق میں جو میرا حقیقی خالق ہے، اور اپنی اس وہم کی تہہ میں، جسے مَیں نے خود تراشا اور جس نے مجھے بھی تشکیل دیا۔ اَب مجھے خوابوں میں گم ہونے دو، خواہ وہ فنا کی اتھاہ گہرائیوں میں ہی کیوں نہ ہوں، مجھے اس کا حق ہے، چاہے صرف ایک لمحے کے لیے ہی سہی، اس سے قبل کہ مَیں سکون و طمانیت کے ساتھ نجات کی ابدی وسعتوں کی جانب روانہ ہو جاؤں۔‘‘ (ص: 367، 368)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
