مکہ کے مقدس مقامات

Blogger Hilal Danish

مکہ مکرمہ کی مقدس زمین پر بے شمار تاریخی نشانیاں موجود ہیں، مگر کچھ یادگاریں ایسی ہیں جو نہ صرف اپنی شان دار تعمیر، بل کہ اپنی خدمتِ خلق کی وجہ سے بھی زندہ رہتی ہیں۔
’’عین زبیدہ‘‘ انھی میں سے ایک ہے، جو زبیدہ بنت جعفر کی فراخ دلی، ذہانت اور بلند سوچ کا ثبوت ہے۔ یہ صرف ایک پانی کی نہر نہیں تھی، بل کہ حاجیوں اور اہلِ مکہ کے لیے زندگی کی ایک بڑی سہولت تھی۔
اسی تاریخی پس منظر میں، ہمیں جنت المعلی، منا، مزدلفہ، میدانِ عرفات، جبلِ رحمت اور مسجدِ نمرہ کی زیارت کا موقع بھی ملا، جہاں صدیوں پر محیط اسلامی تاریخ بکھری ہوئی ہے۔
ہمارے میزبان شیر زمان خان، جو انجم ہوٹل مکہ کے سیلز منیجر ہیں اور جن کا تعلق چارباغ، سوات سے ہے، نے ان مقدس مقامات کے دورے کا اہتمام کیا۔
اس سفر نے ہمیں مکہ کی روحانی عظمت اور زبیدہ بنت جعفر کی لازوال خدمت کے قریب کر دیا۔
٭ جنت المعلی: اہلِ ایمان کا تاریخی مدفن:۔ ہمارے روحانی سفر کی پہلی منزل جنت المعلی تھی، جو مکہ مکرمہ کا تاریخی قبرستان ہے۔ یہاں کئی جلیل القدر ہستیاں محوِ خواب ہیں، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جدِ امجد، والد عبداللہؓ، اور کئی صحابہ کرامؓ شامل ہیں۔
یہاں کی خاموشی میں ایک عجیب سا سکون تھا، جیسے تاریخ کی گواہ یہ زمین ہمیں اُن عظیم شخصیات کی قربانیوں اور سیرت کی یاد دلا رہی ہو۔ ہم نے حضرت خدیجہؓ کے مقامِ تدفین پر دعا کی اور اس روحانی ماحول میں کچھ دیر ٹھہرے۔ یہاں دو رکعت نفل ادا کیے اور دل کی گہرائیوں سے مغفرت کی دعا مانگی۔
٭ منا: لاکھوں خیموں کا شہر:۔ منا کی سرزمین حج کے ایام میں لاکھوں خیموں سے بھر جاتی ہے۔ یہاں سفید رنگ کے جدید خیمے ہر طرف بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جو ایک باقاعدہ نظام کے تحت ترتیب دیے گئے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی خیمہ بستی ہے، جہاں حاجیوں کے لیے بہترین سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہیں پر حاجی قربانی کرتے ہیں اور رمی جمار (شیطان کو کنکریاں مارنے) کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
ہم نے جمرات کے پل کو دیکھا، جہاں لاکھوں لوگ عبادات کرتے ہیں۔ یہاں بھی موقع غنیمت جان کر ہم نے دو رکعت نفل ادا کیے اور اللہ سے عاجزی کے ساتھ دعا کی۔
٭ مزدلفہ: کھلا آسمان اور ذکر و اذکار:۔ اس کے بعد، ہم مزدلفہ پہنچے، جہاں حاجی یومِ عرفہ کے بعد رات گزارتے ہیں۔ یہاں کوئی خیمے نہیں ہوتے، بس کھلا آسمان، زمین پر بچھے سفید چادر نما احرام اور اللہ کے ذکر میں مشغول لاکھوں عازمین۔
یہاں بھی ہم نے دو رکعت نفل پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور اس مقدس لمحے کی روحانیت کو محسوس کیا۔
٭ میدانِ عرفات اور مسجدِ نمرہ: روحانی سرور کی انتہا:۔ یہ سفر کا سب سے پُرتاثیر لمحہ تھا۔ میدانِ عرفات، جہاں حج کا رکنِ اعظم وقوفِ عرفہ ادا کیا جاتا ہے۔ یہاں آکر دل میں عجز و نیاز کا ایک نیا احساس جاگ اُٹھا۔
ہماری اگلی منزل مسجدِ نمرہ تھی، جو عرفات کے مقدس مقام پر واقع ہے۔ یہاں آ کر ہم نے دو رکعت نفل ادا کیے اور اللہ سے مغفرت و ہدایت کی دعا مانگی۔ مسجدِ نمرہ میں عبادت کا ایک الگ ہی لطف تھا، جہاں حج کے دوران میں لاکھوں افراد خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
٭ جبلِ رحمت پر پُرتکلف افطاری:۔ ہم جبلِ رحمت کی طرف بڑھے، جو سرمئی رنگ کی چٹانوں پر مشتمل ایک بلند پہاڑی ہے اور زائرین کے لیے ہمیشہ مرکزِ توجہ رہتی ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع ارشاد فرمایا تھا۔
یہاں شیر زمان خان نے افطاری کا خاص اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک پُرتکلف افطاری تھی، جس میں کھجور، زم زم، مختلف پھل، مشروبات، لبن، دہی اور کئی اقسام کے لذیذ کھانے شامل تھے۔ جیسے ہی سورج مغرب میں غروب ہوا، ہم نے اس بابرکت جگہ پر روزہ اِفطار کیا۔ یہ لمحہ ناقابلِ بیان تھا۔ ایک ایسا مقام، جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدم پڑے، وہیں بیٹھ کر روزہ اِفطار کرنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔
٭ عین زبیدہ: بارہ سو سالہ خدمت:۔ عین زبیدہ کا پانی طائف کے قریب جبل قارہ کے دامن سے نکلتا تھا اور کئی پہاڑوں، وادیوں اور خشک زمینوں سے ہوتا ہوا مکہ پہنچتا تھا۔ اس نہر کو بنانے کے لیے بڑے بڑے پتھر توڑے گئے، راستے ہم وار کیے گئے اور کئی سرنگیں بنائی گئیں۔
جب انجینئرز اور مزدوروں نے زبیدہ بنتِ جعفر کو بتایا کہ اس منصوبے پر بے حد زیادہ خرچ آ رہا ہے، تو انھوں نے تاریخی الفاظ کہے: ’’چاہے جتنا بھی سونا خرچ ہو، حاجیوں کو پانی ضرور پہنچنا چاہیے !‘‘
یہ جملہ اُن کے خلوص، سخاوت اور اللہ کے مہمانوں سے محبت کی ایک بڑی دلیل ہے۔
یہ نہر مکمل ہونے کے بعد 1200 سال تک حاجیوں اور اہلِ مکہ کو پانی فراہم کرتی رہی۔ آج جدید نظامِ آب رسانی کے باوجود اس کی کچھ باقیات اب بھی موجود ہیں، جو زبیدہ بنتِ جعفر کے کارنامے کی یاد دلاتی ہیں۔
٭ شیر زمان خان کی خلوص بھری میزبانی: ایک یادگار رفاقت:۔ اس پورے سفر میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ نمایاں رہی، تو وہ شیر زمان خان کی بے مثال میزبانی، خلوص اور محبت تھی۔
اُن کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی اپنے سب سے عزیز مہمان کی میزبانی کر رہا ہو۔ میدانِ عرفات کی پُرتکلف افطاری ہو یا منا اور مزدلفہ کی زیارت، ہر جگہ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہم نہ صرف سہولت کے ساتھ سفر کریں، بل کہ روحانی تجربے کو بھی پوری طرح محسوس کرسکیں۔
ہماری گفت گو کے دوران میں وہ اکثر اپنے آبائی علاقے چارباغ، سوات کی خوب صورتی اور وہاں کے مہمان نواز لوگوں کا ذکر کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے خود بھی سوات کی روایتی مہمان نوازی کی لاج رکھی۔
رات کے وقت جب ہم واپس مکہ کی طرف روانہ ہوئے، تو ذہن میں بس یہی خیال تھا کہ ان مقامات کی زیارت کا حقیقی لطف حج کے دوران میں آتا ہے، مگر یہ مختصر زیارت بھی ایک نئی روحانی تازگی دے گئی۔
شاید اگلی بار ہمارا سفر حج کا ہو، یہی دعا دل میں لے کر ہم نے مکہ کی روشنیوں میں قدم رکھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے