مکہ تا طائف: ایک تاریخی و روحانی سفر

Blogger Hilal Danish

یہ سفر صرف ایک راستے کی مسافت نہیں تھا، بل کہ یہ تاریخ کے اوراق میں جھانکنے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تکالیف کو محسوس کرنے، اور اُس سرزمین کے مقدر میں لکھے گئے انعامات کو سمجھنے کا موقع تھا۔
طائف، جو مکہ کے جلال اور گرمی سے ہٹ کر ٹھنڈے موسم اور سرسبز پہاڑیوں کا شہر ہے، ایک ایسی زمین ہے، جو کبھی ظلم و ستم کی گواہ بنی اور پھر وہی زمین ایمان کے چراغوں سے روشن ہوگئی۔
٭ مکہ سے طائف، ایک نئی دنیا میں قدم:۔ مکہ مکرمہ کے گرم اور سنگلاخ پہاڑوں سے نکل کر جب طائف کی طرف روانہ ہوئے، تو راستے میں زمین کی رنگت، ہوا کی ٹھنڈک اور فضا کے مزاج میں نمایاں تبدیلی محسوس ہوئی۔یہی وہ راستہ تھا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چار راتوں میں طے کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم راہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
راستے میں منیٰ کا میدان اور سفید خیمے نظر آئے، جو حج کے دوران میں حجاج کے قیام کا مرکز بنتے ہیں۔ اُن خیموں کو دیکھ کر حج کی یاد تازہ ہوگئی اور اُس راستے کی تاریخی اہمیت کا احساس ہوا، جہاں سے گزر کر حاجی عرفات اور پھر طوافِ کعبہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
راستے کے بل کھاتے پہاڑوں اور سرسبز مناظر نے ایسا سماں باندھ رکھا تھا کہ محسوس ہوتا تھا جیسے ہم کسی اور ہی دنیا میں داخل ہو رہے ہیں۔ مکہ کی سختی کے مقابلے میں طائف کی نرمی، وہاں کی ہواؤں کی تازگی اور سرسبز باغات ایک اور ہی دنیا کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔
یہ وہی سرزمین ہے، جہاں آج انگوروں کے باغات، گلاب کی خوش بو، اور قدرتی حسن کی بہتات ہے، مگر یہی زمین ایک وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خون سے تر ہوئی تھی۔ یہی وہ گلیاں تھیں، جہاں اہلِ طائف نے اپنے سنگ دلانہ رویے کی تاریخ رقم کی تھی۔
٭ طائف،ظلم و ستم کی سرزمین:۔ یہ وہی شہر ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تبلیغ کے ارادے سے آئے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبیلہ ثقیف کو دعوت دی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تقریباً 9 دن عام عوام کو تبلیغ کی، مگر کسی نے قبول نہ کیا۔
یہاں کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پتھر برسائے، بازار کے بدتمیز لونڈوں کو پیچھے لگا دیا، گلیوں میں دوڑایا، یہاں تک کہ جسم مبارک لہولہان ہوگیا۔ جوتے خون سے بھر گئے، بدن زخموں سے چُور ہوگیا، مگر زبان پر کوئی شکوہ نہ آیا، دل میں کوئی نفرت نہ جاگی۔
جب ظالموں نے اپنا ظلم مکمل کرلیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم زخموں سے چُور ہوکر باغِ عداس میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، تب جبریل امین حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)! اگر آپ حکم دیں، تو ہم ان پہاڑوں کو ان پر گرا دیں!‘‘
یہ وہ لمحہ تھا جہاں دنیا کے ہر عام انسان کا دل انتقام کے جذبات سے بھڑک اُٹھتا، مگر یہ تو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دل تھا، یہ وہ ذات تھی جن کی رحمت ہر چیز پر بھاری تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں! مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ ان کی نسل میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو اللہ کی بندگی اختیار کریں گے!‘‘
یہ وہ لمحہ تھا جب ظالموں کے حق میں بھی دعا نکلی، جب بددعا کے بہ جائے صبر اور اُمید کو چنا گیا، جب رحمت نے غضب پر غلبہ پایا اور یہی وہ وقت تھا، جب تاریخ کا رُخ بدل دیا گیا۔
٭ طائف کی مقدس مساجد اور تاریخ کے گواہ مقامات:
1:۔ مسجدِ عداس:۔ یہ وہی باغ ہے، جہاں ایک غلام عداس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں انگور پیش کیے تھے۔ ’’عداس‘‘ نینویٰ کا رہنے والا تھا اور جب اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر سنا، تو ایمان لے آیا۔
2:۔ مسجد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم):۔ یہ مسجد اُس جگہ پر بنائی گئی، جہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طائف کے سفر کے دوران میں قیام فرمایا تھا۔ یہ مسجد آج بھی زائرین کی توجہ کا مرکز ہے۔
3:۔ مسجد علی (طائف):۔ یہ طائف کی قدیم ترین مساجد میں شمار ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں اسلام کے ابتدائی ایام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قیام کیا تھا۔ اسی مسجد پر طائف میں سب سے پہلا مینار تعمیر کیا گیا تھا، جو آج بھی ایک تاریخی یادگار کے طور پر موجود ہے۔
٭ طائف کی قسمت کا پلٹ جانا:۔ یہ وہی طائف تھا، جہاں ایک وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پتھر مارے گئے، لیکن پھر اسی زمین سے ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے اسلام کی شمع کو دنیا میں پھیلایا۔
1:۔ محمد بن قاسم الثقفی:۔ وہ عظیم جرنیل جنھوں نے برصغیر میں اسلام کا پرچم بلند کیا اور سندھ کو فتح کیا۔
2:۔ عروہ بن مسعود الثقفی:۔ طائف کے سردار، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے اور پھر اپنے قبیلے کو دعوت دیتے ہوئے شہید کر دیے گئے۔
3:۔ عثمان بن ابی العاص الثقفی:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انھیں طائف کا گورنر مقرر کیا اور انہوں نے طائف کو اسلام کے مضبوط قلعے میں بدل دیا۔
4:۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے، جو قرآن و حدیث کے جلیل القدر عالم تھے۔ اُن کی قبر مبارک طائف میں مسجد ابن عباس کے قریب واقع ہے۔
5:۔ مغیرہ بن شعبہ الثقفی:۔ یہ اسلام کے نام ور سفارت کار اور صحابی تھے، جو اپنی حکمت و تدبر کے لیے مشہور تھے۔
٭ طائف سے عمرہ کی نیت، ایک نئی روحانی منزل:۔ جب طائف کی زیارت مکمل ہوئی، تو دل نے چاہا کہ اس مبارک زمین سے ایک نئے سفر کا آغاز ہو،عمرہ کی نیت کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس جانے کا۔ یہ وہی راستہ تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج و عمرہ کے لیے احرام باندھا تھا، جہاں سے صحابہ کرام نے مکہ میں داخل ہونے کے لیے نیت کی تھی۔
یہاں، اس سرزمین پر کھڑے ہو کر احرام باندھنا، نیت کرنا اور ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ کی صدا بلند کرنا، ایک عجیب روحانی کیف عطا کر رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے ہم صرف ایک سفر نہیں، بل کہ تاریخ کے کسی مقدس لمحے کو دوبارہ زندہ کر رہے ہوں۔
یہ وہ احساس تھا جس میں ایک غلام، ایک عاجز بندہ، ایک گناہ گار انسان، اللہ کے دربار میں حاضر ہونے جا رہا تھا، اپنے رب کی بندگی کا اعلان کرنے، اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور ایک نئے سفر کا آغاز کرنے۔’’لبیک اللہم لبیک، لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمۃ لک والملک، لا شریک لک!‘‘
یہ سفر اختتام کو پہنچا، مگر اس کے نقوش دل پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگئے۔ طائف کی گلیاں، اس کی ہوا، اس کی زمین، وہ لمحے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صبر کا مظاہرہ کیا اور وہ انعامات جو بعد میں اس شہر کے مقدر میں لکھ دیے گئے، یہ سب کچھ یادوں میں ہمیشہ تازہ رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے