پی ٹی آئی سوات، موروثیت عروج پر

Blogger Tauseef Ahmad Khan

کل سوشل میڈیا پر چند افراد، جو خود کو صحافی سمجھتے ہیں، کی جانب سے ایک پوسٹ دیکھی، جس میں دعوا کیا گیا تھا کہ تحریکِ انصاف یوتھ نے موجودہ مئیر، شاہد علی کو ضلع سوات کا صدر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوئی، کیوں کہ مَیں خود پی ٹی آئی کے کئی وٹس ایپ گروپس میں شامل ہوں، جہاں ہزاروں کارکنان موجود ہیں، لیکن ان گروپس میں کسی بھی کارکن کو اس معاملے پر گفت گو کرتے یا اپنی رائے دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ نہ ضلعی سطح پر پارٹی کی جانب سے کوئی اجلاس ہی بلایا گیا، جہاں کارکنان جمہوری طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کل چند نام نہاد صحافی، جن کے لیے صحافت محض چاپلوسی اور ذاتی مفاد کے علاوہ کچھ نہیں، ایسے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ ان کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ ایسی غیر مصدقہ اور بے بنیاد خبروں سے پارٹی کے پھوٹ پڑتی ہے اور ڈسپلن بھی متاثر ہوتا ہے۔
جہاں تک شاہد علی کو ضلع سوات کا صدر بنانے کی بات ہے، تو میں اس سے قطعی متفق نہیں ہوں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے ایک انتہائی اہم سرکاری عہدہ، یعنی میئر سٹی لوکل گورنمنٹ بابوزئی، پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسے میں اُنھیں پارٹی صدارت دینا ان کی موجودہ ذمے داریوں میں خلل ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی امیدوار کو صدارتی عہدہ تفویض کرنے سے پہلے اُس کی سابقہ کارکردگی کو جانچنا بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا اُس نے اپنے فرائضِ منصبی میرٹ پر انجام دیے یا نہیں؟ کسی کو عہدہ دینے سے قبل اِس بات کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا اُس نے اختیارات کا غلط استعمال کرکے اپنے خاندان یا قریبی افراد کو ناجائز فائدہ تو نہیں پہنچایا ہے۔
تیسری اور سب سے بنیادی چیز پارٹی منشور ہے، جو ہر فیصلے کی بنیاد ہونی چاہیے۔ بنیادی طور پر تحریکِ انصاف کا منشور دو اہم نِکات پر قائم ہے: کرپشن کا خاتمہ اور موروثیت کا خاتمہ۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کسی بھی تقرر کے نتیجے میں منشور کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی…… اور آیا ایسا فیصلہ پارٹی میں مزید موروثیت کو فروغ تو نہیں دے گا؟
بدقسمتی سے، حالیہ برسوں میں تحریکِ انصاف بار بار موروثیت کا شکار ہوچکی ہے، اور اسی وجہ سے اسی جماعت کو موروثیت پر سمجھوتا کرنے کی وجہ سے مسلسل مات پڑ رہی ہے۔
آج اگر خیبر پختونخوا، خاص طور پر ضلع سوات، کی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تو واضح ہوگا کہ یہاں موروثیت اپنے عروج پر ہے۔ ہر ایم این اے اور ایم پی اے اپنے خاندان کے افراد کو ہی آگے لانے میں مصروف ہے، اور اہم عہدے بلاواسطہ یا بالواسطہ اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور قریبی رشتہ داروں کو سونپے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف میرٹ کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے، جس سے عوام میں بے چینی اور شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ کسی ایک مخصوص سیاسی ٹولے کا اداروں پر اثر و رسوخ بڑھ چکا ہے، جس سے میرٹ کی مسلسل خلاف ورزی ہورہی ہے۔
لہٰذا، پہلے تو مَیں تمام پارٹی کارکنان سے اپیل کرتا ہوں کہ کسی بھی فرد کے لیے عہدے کا انتخاب صرف اور صرف نظریاتی بنیادوں اور کارکردگی کی بنا پر کریں، نہ کہ ذاتی پسند یا محض خیالی تصور کی بنیاد پر۔
اس طرح کسی ایک خاندان کو مختلف عہدے دینا اور اسے جماعت اور سیاست کا محور بنا لینا پارٹی کے بنیادی اصولوں کی نفی کے مترادف ہے ۔
ہم پارٹی صدر جنید اکبر خان سے توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح عمران خان کی ہدایت پر سی ایم علی امین کو صوبائی صدارت سے ہٹا کر آپ کو ذمے داری دی گئی، اُسی طرح آپ بھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے، جو پارٹی منشور اور نظم و ضبط کے خلاف ہو۔
خاص طور پر کسی ایسے فرد کو ضلعی صدر بنانے سے گریز کیا جائے، جو پہلے ہی سرکاری عہدے پر فائز ہو۔ کیوں کہ ایسا فیصلہ اس کی سرکاری ذمے داریوں کے درمیان تضاد پیدا کرے گا، جس سے عوام کے حقوق پامال ہوں گے۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے