ہم اہلِ سوات اور خاص کر مینگورہ شہر والے اسے ’’دَ بوڈیٔ ٹال‘‘ کہتے ہیں، جس کے لیے اُردو میں ’’قوسِ قُزح‘‘ (عربی الاصل)، ’’دھنک‘‘ (سنسکرت) اور انگریزی میں "Rainbow” مستعمل ہے۔
’’دَ بوڈیٔ ٹال‘‘ (بڑھیا کا جھولا) نام اسے کیوں دیا گیا….. اس حوالے سے ہمیں تو کیا، ہمارے حلقۂ یاراں میں ایک بھی ایسا مائی کا لال نہیں، جسے علم ہو۔
تین بائے چھے انچ کی سکرین (موبائل فون) سے چمٹی ’’تبدیلی زدہ‘‘ نوجوان نسل کیا جانے کہ آسمان پر سات رنگوں کے ملاپ سے بننے والا ’’بڑھیا کا جھولا‘‘ ہم جیسے دقیانوس ٹائپ بندوں کو ایک طرح سے طمانیت کا احساس دِلاتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہوں گے، جنھوں نے رواں سال رات کے پچھلے پہر ’’اختر شماری‘‘کی ہوگی؟ آسمان میں ’’دودھیا رستہ‘‘ (Milky Way) دیکھے ہمیں کتنے ماہ گزرے ہیں اور کنویں کے گرد کھڑی چھے بہنوں (تارے)، جن کا بھائی کنویں میں گرا ہے ، کو امسال کس شب دیکھا ہے؟ مجھے یقین ہے ایسے خوش نصیب بہ مشکل ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکیں گے۔’’فیس بک‘‘، ’’انسٹا‘‘، ’’ایکس‘‘ (سابقہ ٹوئٹر)، ’’پب جی‘‘ وغیرہ جیسی غیر حقیقی دنیاؤں سے فرصت ملے گی، تو ہی حقیقی دنیا کی خوب صورتی سے لطف اُٹھایا جاسکے گا۔ بہ قولِ حضرتِ شوکتؔ واسطی
شوکتؔ ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رِہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
’’بوڈیٔ‘‘ لفظ سے میری اٹیچمنٹ بڑی پرانی ہے۔ میرے والد (مرحوم) نے پسند کی شادی کی تھی۔ والد (مرحوم) نے کبھی میری والدہ کو نام سے نہیں پکارا۔ وہ جب بھی گھر آتے، آواز دیتے: ’’بوڈیٔ سہ شوے؟‘‘ جب مجھے اچھے برے کی تمیز ہوئی، تب مجھے اپنے والد کے منھ سے یہ لفظ (بوڈیٔ) عجیب لگنے لگا۔ سوچتا، میری ماں کے بال کالے ہیں، نظر ٹھیک ہے، منھ بھی پوپلا نہیں، تو پھر دادا (میں مرحوم والد کو اسی نام سے پکارتا تھا) کیوں انھیں ’’بوڈیٔ‘‘ کَہ کر بلاتے ہیں؟
بعد میں والد (مرحوم) کے چچا زاد اور لنگوٹیے گلیار المعروف نانا سے برسبیلِ تذکرہ سنا کہ میری والدہ، والد (مرحوم) سے عمر میں اِک آدھ سال بڑی تھیں، اس لیے والد (مرحوم)، والدہ کو چِھڑانے کی غرض سے ’’بوڈیٔ‘‘ نام لے کر پکارا کرتے۔
بچپن میں جب بھی سات رنگوں کے ملاپ سے قوسِ قُزح جنم لیتی، تو مَیں اُس پر اپنی ماں کو جھولتا ہوا تصور کرتا۔ کیوں کہ وہ ’’بوڈیٔ‘‘ پکاری جاتیں اور قوسِ قُزح ’’دَ بوڈیٔ ٹال‘‘۔
ہمایوں مسعود اپنے شعری مجموعہ ’’ستا د یاد وگمی خورے شوے‘‘ کے صفحہ نمبر 61 پر غزل کے ذیل میں دیے جانے والے پانچویں شعر میں ’’دَ بوڈیٔ ٹال‘‘ کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں:
پہ بارانہ کی دَ بوڈیٔ دَ ٹال حسین امتزاج
وخت دَ لیدو ؤ چی ژڑا کی پہ خندا ھم وہ
اسی شعر سے ملتا جلتا خیال ذیل میں دی گئی نظم میں بھی ملاحظہ ہو:
اک دن مَیں نے اُس سے پوچھا
دھوپ میں بارش ہوسکتی ہے؟
یہ سن کے وہ ہنسنے لگی
ہنستے ہنستے رونے لگی
اور دھوپ میں بارش ہونے لگی
(نوٹ:۔ لفظونہ ڈاٹ کام کے فیس بک صفحہ پر اس یادداشت پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر خورشید صاحب لکھتے ہیں کہ سوات میں قوسِ قُزح کے لیے ’’زیڑہ زرغونہ‘‘ لفظ عام ہے، جب کہ ’’دَ بوڈیٔ ٹال‘‘ اسے ہشتنگر اور ملحقہ علاقوں میں کہتے ہیں۔ شاہد زمان یوسف زئی اور کبل کے رہایشی صلاح الدین بھی ’’زیڑہ زرغونہ‘‘ ہی پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں، مگر ڈاکٹر سلطانِ روم صاحب کہتے ہیں کہ نیکپی خیل، سوات میں اسے ’’زیڑہ زرغونہ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’دَ بوڈیٔ ٹال‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دوسری طرف ابوہا کے رہایشی اور معروف کالم نگار، فضل رازق شہاب صاحب، رقم کرتے ہیں کہ ہم اسے ’’شنہ سرہ کاسہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس طرح ایچ ایم کالامی، کالم نگار اور صحافی، کہتے ہیں کہ ہماری گاوری زبان میں اس کے لیے موزوں ترین لفظ ’’ہیدان‘‘ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
