خط لکھنے لکھانے کا رواج صدیوں پرانا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں خط و کتابت ای میل، ایس ایم ایس، وٹس ایپ ایسی جدت اختیار کرچکی ہے، جس کی بہ دولت اپنا صوتی اور ویڈیو پیغام سیکنڈوں میں ارسال کردیا جاتا ہے۔
ہماری نئی نسل تو خط و کتابت کے صدیوں پرانے طریقے کو تقریباً بھول ہی چکی تھی، مگر پاکستانی سیاست کے رنگ ہی نرالے ہیں، جس کی بہ دولت ایک مرتبہ پھر سے خط و کتابت کے چرچے عام ہوچکے ہیں۔ کبھی اعلا عدلیہ کے ججوں کے خطوط، تو کبھی سابق وزیرِ اعظم کی جانب سے ’’عمران سیریز خطوط‘‘ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
عدلیہ میں خط و کتابت کا سلسلہ ماضیِ قریب میں سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے شروع ہوا، جب اُنھوں نے اپنے چیف جسٹس صاحبان کو عدالتی معاملات میں ہونے والی غیر آئینی و غیر قانونی سرگرمیوں بارے خط و کتابت کے ذریعے آئین و قانون پڑھانے کی ناکام کوششیں کیں، مگر ان کے مہربانوں کی جانب سے خطوں کے جواب کی بہ جائے موصوف کو کسی نہ کسی پنگے بازی میں مبتلا کیے رکھا گیا۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے خط و کتابت کا حشر سب کے سامنے آچکا ہے۔ سپریم کورٹ جاتے جاتے جسٹس عامر فاروق نے اپنے ساتھی ججوں کے خطوں میں لکھے گئے اعتراضات کو آئین و قانون کے تحت مسترد کردیا اور اس طرح سپریم کورٹ کے ججوں کا خط جس میں سپریم کورٹ میں مزید ججوں کی بھرتی روکنے کی درخواست اور بعدازاں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کا بائیکاٹ انتہائی بے تکا اور بے بنیاد تھا، جب کہ ٹھیک چند دن بعد سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی تعیناتی روکنے کے لیے جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ کرنے والے معزز ججوں نے نہ صرف تقریبِ حلف برداری میں شرکت کی، بل کہ نئے نویلے ججوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے جپھیاں بھی ڈالیں۔ یہ تو بالکل ایسی صورتِ حال بنی، جیسے کوئی شخص کسی کے رشتے میں حد درجہ رکاوٹیں ڈالے، مگر پھر بھی شادی طے ہوجائے، تو رکاوٹیں ڈالنے والا شخص سب سے پہلے بارات میں بھنگڑے ڈالتا دکھائی دے۔
راقم نے گذشتہ تحریر ’’آرٹیکل 200 کیا ہے اور اس پر ہنگامہ کیوں ہے؟‘‘ میں آئین و قانون کے حوالہ جات دے کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں اور سپریم کورٹ کے چار ججوں کے خطوط آئین و قانون سے ہٹ کر بے تکے و بے معنی ہیں اور عرض کیا تھا کہ معزز جج صاحبان کو خط و کتابت اور بیان بازی کرنے سے پہلے آئینِ پاکستان کاازسرِ نو مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح سابق وزیرِ اعظم عمران احمد خان نیازی کی جانب سے آرمی چیف اور چیف جسٹس صاحبان کو لکھے گئے خطوط کسی صورت دانش مندانہ فیصلہ نہیں۔ کیوں کہ ایسے خطوط ردی کی ٹوکری میں جاتے ہیں۔ آرمی چیف نے عمران خان کے خطوط پر اپنے ردِ عمل پر کہا کہ مجھے کسی کا کوئی خط نہیں ملا۔ خط ملا بھی، تو نہیں پڑھوں گا اور خط وزیراعظم کو بھجوا دوں گا۔ خط کی باتیں سب چالیں ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی بدقسمتی ہے کہ یہ جماعت سیاسی لوگوں کی بہ جائے ’’یو ٹیوبروں‘‘ اور ’’تماش بین‘‘ ایسے افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے۔ جو جتنا زیادہ بدتمیزی کا مظاہرہ کرے، وہ اتنا ہی بڑا عہدہ حاصل کرنے کا حق دار قرار پائے گا۔ تازہ ترین مثال صوبہ خیبر پختونخوا کی وزارتِ اعلا کا منصب ہے۔ بہ شمول تحریکِ انصاف، سیاسی ورکرز پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور شہری کسی صورت علی امین گنڈا پور ایسے شخص کو اس عہدے کے قابل نہیں سمجھتا، مگر صورتِ حال سب کے سامنے ہے کہ کیسے ایک غیر سنجیدہ شخص کو کروڑوں افراد کے صوبے کا حاکم بنا دیا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے عثمان بزدار (ایک نالائق شخص) کو 12 کروڑ افراد کے صوبہ ’’پنجاب‘‘ کا حاکم بنا یا گیا تھا۔
گذشتہ کالم میں جس طرح ججوں کو آئین کے ازسرِنو مطالعے کا مشورہ دیا تھا، اُسی طرح سابق وزیرِ اعظم کو مشورہ ہے کہ اپنے ارد گرد خوشامدی اور بدتمیز ٹولے کو ہٹائیں اور سنجیدہ سیاست دانوں کو قریب کریں۔ کیوں کہ سیاست دان ہی مشکل میں راستہ نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس طرح دوسری سیاسی جماعتوں کو چور اور ڈاکو کہنے کا راگ الاپنا بند کریں۔ خود کو اور اپنی سیاسی جماعت کو مصیبتوں کی دلدل سے نکالنے کے لیے سنجیدہ کوششیں شروع کریں، جس کے لیے سب سے پہلے آپ کو کم از کم دو تین ماہ کے لیے اپنی زبان بندی کرنا ہوگی۔ کیوں کہ جناب کے آئے دن بیانات معاملات کو سلجھانے کی بہ جائے مزید بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے، تو اپنے خطوط کو خود پڑھیں اور سوچیں کہ دورانِ اقتدار آپ نے سیاسی مخالفین کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا اور ’’ایک صفحہ پر موجود افراد‘‘ کے کندھوں کو استعمال کرکے سیاسی مخالفین کی زندگی کو کس قدر اجیرن بنائے رکھا۔
آج آرمی چیف کو جیل سہولیات کے فقدان کی شکاتیں لگانے سے پہلے امریکہ میں کی گئی تقریر کو یاد کریں، جب آپ نواز شریف کے کھانے، ادویہ اور ائیر کنڈیشنر کا مذاق اُڑا رہے تھے۔
ورنہ یاد رہے خط و کتاب صرف ڈراموں اور فلموں ہی میں اچھی لگتی ہے، جب عاشق اپنی محبوبہ کو خط لکھ لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے اور محبوبہ اپنے عاشق کے خوش بودار خطوں کو سینے سے لگائے ٹھنڈی آہیں بھرتی ہے اور عاشق و معشوق گنگناتے پھرتے ہیں کہ
لکھے جو خط تجھے، وہ تیری یاد میں
ہزاروں رنگ کے نظارے بن گئے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
