٭ بیک گراؤنڈ:۔ سید احمد بریلوی کی شہادت کے بعد سوات اور ملحقہ علاقوں میں ایک نئی سیاسی تاریخ کا آغاز ہوا۔ 1831ء میں سید احمد بریلوی کی بالاکوٹ میں شہادت کے بعد، سوات اور گردونواح میں ایک نئی لیکن مختلف اسلامی مذہبی اتحاد تشکیل پایا، جس میں طریقت اور شریعت کے درمیان ایک منفرد رشتہ دیکھا گیا۔ اخوند عبدالغفور المعروف اخوندِ سوات (سیدو بابا)، جو قادریہ/ غفوریہ سلسلے کے صوفی بزرگ تھے، نے 1835ء میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، جب افغان امیر دوست محمد خان نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی زیرِ حکومت پشاور کی وادی پر حملہ کیا۔
٭ اخوند کا جنگ میں شمولیت اختیار کرنا:۔ برطانوی جریدے ’’دی لیزر آورز‘‘ (The Leisure Hours) نے 1879ء میں اخوندِ سوات کے اس فیصلہ کُن مرحلے کو یوں بیان کیا: ’’سکھ اور افغان اُس وقت جنگ میں تھے، اور دوست محمد خان نے مناسب سمجھا کہ اپنی فوج میں ایک مذہبی رہ نما کو شامل کریں، جس کی موجودگی اسلامی جوش و جذبہ پیدا کرے۔ 1835ء میں اخوند نے تسبیح چھوڑ کر تلوار تھامی اور خیبر پاس میں افغان فوج میں شامل ہوگئے۔‘‘
تاہم، اس جنگ میں افغانیوں کو شکست ہوئی اور اخوندِ سوات واپس آگئے، جہاں وہ اپنی وفات تک مقیم رہے۔
٭ ہندوستانی مجاہدین کے ساتھ اتحاد:۔ اخوند کا سید احمد بریلوی کے پیروکاروں کے ساتھ تعلق اُس وقت ظاہر ہوا جب 1829ء میں سید احمد کے حکم پر خادی خان کو قتل کیا گیا۔ یہ تعلق بعد میں تبدیل ہوا اور اخوند نے ہندوستانی مجاہدین کو وہابی یا گم راہ قرار دیا، مگر سید احمد کے خزانچی سید اکبر شاہ کے ساتھ اُن کے نظریاتی روابط برقرار رہے، جو بعد میں سوات کے بادشاہ بنے۔
٭ سوات کی پہلی اسلامی ریاست کا قیام، برطانوی خطرہ اور مقامی ردِ عمل:۔ 1849ء میں برطانویوں نے پنجاب پر قبضہ کیا اور پشاور کو فتح کر لیا اور سوات اور چترال کے علاقوں تک اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی۔ سوات میں قبائل کی خانہ جنگی کے باوجود، برطانوی مداخلت نے انھیں متحد ہونے پر مجبور کر دیا۔
٭ سید اکبر شاہ کا انتخاب اور اخوند کا کردار:۔ سوات کے قبائل نے سید اکبر شاہ کو بادشاہ منتخب کیا اور غالیگے کو دارالحکومت بنایا۔ اخوند، جو ایک قادری صوفی تھے، نے اس اتحاد میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کے اِس اقدام کو اُس وقت کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، کیوں کہ قبائل ایک ایسے رہ نما چاہتے تھے، جو برطانوی مداخلت کو روک سکے۔
٭ بادشاہ کی وفات اور ریاست کا زوال:۔ 12 مئی 1857ء کو سید اکبر شاہ کی وفات کے بعد سوات خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔ برطانوی کمشنر نے اُن کی موت پر تبصرہ کیا کہ اگر وہ زندہ ہوتے، تو فرنٹیئر کا سیاسی منظرنامہ مختلف ہوتا۔ اخوند نے اس دوران میں برطانوی حکومت کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنائی، جس کے نتیجے میں سوات 1895ء تک برطانوی قبضے سے محفوظ رہا۔
اختتام:۔ یہ مضمون اخوندِ سوات اور ہندوستانی مجاہدین کے اتحاد کو ایک منفرد تاریخی تناظر میں پیش کرتا ہے، جو اُس وقت کے پیچیدہ سیاسی اور مذہبی حالات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔