بونیر میں مہمان نوازی کی روایت

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
بنیادی انفراسٹرکچر اور جدید ذرائع آمد و رفت کی ترقی کے ساتھ پختون معاشرت کی ایک اہم روایت، مہمان نوازی، تقریباً قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔ اس سے پہلے، کوئی مسافر یا اجنبی جو ’’خچر پگڈنڈیوں‘‘ پر سفر کرتا تھا، رات پڑنے پر رہایش یا بھوک کے لیے اگر پریشان ہوتا تھا، تو وہ کسی بھی حُجرے میں جا سکتا تھا، جہاں بغیر پوچھے اُسے کھانا ملتا تھا، وہ رات گزار سکتا تھا اور جب چاہے روانہ ہوسکتا تھا۔
لیکن اب یہ روایات تقریباً ناپید ہوچکی ہیں۔ روایتی حُجرے اب موجود نہیں اور اب ہر جگہ ہوٹل اور فوڈ سپاٹس دست یاب ہیں۔ صرف قریبی دوست اور رشتہ دار ایک دوسرے سے ملنے آتے ہیں۔ بونیر بھی، دیگر پختون علاقوں کی طرح، ایک زمانے میں اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور تھا۔ ہر گاؤں میں کچھ خان ہوتے تھے، جن کے حُجرے اجنبیوں کے لیے کھلے رہتے۔ یہ حیران کن بات تھی کہ یہ حُجرے بغیر کسی اشتہار بازی کے دور دور تک مشہور تھے۔ کوئی شخص اگر ایلئی کے راستے سے گزرتا، تو وہ یقینا شمشی خان، شاہ رضا خان یا بابَر خان کے حُجرے میں رُک جاتا۔ کیوں کہ اس نے دوسرے مسافروں سے ان کے نام اور مہمان نوازی کے بارے میں سنا ہوتا۔
اسی طرح ڈگر میں، تاج خان کا گھرانا مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے مشہور تھا۔ گوکند میں سرفراز خان، بھٹئی میں ’’نقشے ملک‘‘ اور اسی طرح دیگر کئی افراد مہمان نوازی میں مشہور تھے، لیکن وہ خاندان جو جدید دور میں بھی مہمان نوازی کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے، وہ زرین خان کا خاندان ہے، جو کلپانئی سے تعلق رکھتے ہیں۔
بونیر میں میری رہایش کے دوران میں، مَیں نے ان کا حُجرہ کبھی مہمانوں سے خالی نہیں دیکھا۔ زرین خان، ان کا بیٹا امیر نواب خان، بھائی حضرت عمر اور ان کے بھتیجے بشیر خان اور حبیب الرحمان (سابق صوبائی وزیر) مہمانوں کی خدمت کرتے نظر آتے تھے۔ یہ کہا جاتا تھا کہ وہ ہر کھانے کے وقت 5 0 کلو گندم کا آٹا استعمال کرتے تھے، جو گھر کی خواتین کے ذریعہ گھر کے چولہوں پر پکایا جاتا تھا۔
مہمان نوازی میں ایک اور بڑا نام عبد الحاکم خان کا تھا، جو کوگا سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا ایک بڑا حُجرہ تھا، جہاں سے دور دراز علاقوں جیسے خدو خیل، امازئی یا مدا خیل سے آنے والے لوگ دوپہر کے کھانے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ وہ اکثر ہاتھوں کو سر کے پیچھے تکیہ بناکر، چارپائی پر نیم دراز ہوکر مہمانوں کی طرف دیکھتے اور صاف پتا چلتا کہ وہ دل کی گہرائیوں سے اطمینان محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد، ان کے بیٹے مسافر خان نے اس روایت کو برقرار رکھا۔ وہ ریاستِ سوات کی سڑکوں کی دیکھ بھال کے محکمے میں صوبے دار تھے۔ انضمام کے بعد، انھیں نئے نظام میں روڈ انسپکٹر بنا دیا گیا۔
مہمان نوازی میں ایک اور مشہور خان، یارس خان تھے، جو گلونو باوڑئی، چغرزئی سے تعلق رکھتے تھے۔
سید کریم خان باجکٹہ، نادر خان ریگا، رشید خان اور جمشید خان ڈھیرئی اور ملکا کے سید سکندر شاہ بھی اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے جانے جاتے تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے