کل ہو نہ ہو (تبصرہ)

Aqila Mansoor Jadoon

تبصرہ: منیر فراز
پہلے کی بات اور تھی، جب مَیں نے عقیلہ منصور جدون کے ابتدائی تراجم پڑھے تھے۔ اُس وقت عقیلہ منصور جدون کا تراجم کی صنف میں حرفِ آغاز تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ تخلیق کی طرح ترجمہ کا عمل بھی آزاد فضا میں تکمیل کو پہنچے، تو ہی تخلیق کار کی فطری تخلیقی صلاحیت سامنے آسکتی ہے، لیکن وہ ابتداعاً بہت محتاط انداز سے عالمی افسانوں کے تراجم کر رہی تھیں۔ کہیں جملہ کی ساخت، زبان، محاورہ یا متبادلات میں سقم نہ رہ جائے، عبارت کے نفس مضمون میں ترسیل و ابلاغ کے مسائل نہ پیدا ہو جائیں، یوں عدم اعتماد کی فضا اُن کے تراجم میں نظر آتی تھی…… لیکن اب جب عقیلہ منصور جدون کے عالمی ادب سے منتخب افسانوں کے تراجم کا تیسرا مجموعہ ’’کل ہو نہ ہو‘‘ کا مسودہ میرے زیرِ مطالعہ آیا، تو میرے لیے یہ ایک خوش گوار تجربہ ثابت ہوا۔ اب وہ ایک منجھی ہوئی ترجمہ نگار کے روپ میں سامنے آئی ہیں۔
مَیں نے چند برس کے دوران میں مختلف اوقات میں عقیلہ منصور جدون کے کم و بیش تمام افسانے پڑھے ہیں اور مَیں اُن کے فنِ ترجمہ کے بہ تدریج ارتقائی مراحل کا عینی شاہد ہوں۔ مَیں نے دیکھا کہ عقیلہ منصور جدون نے عالمی ادب سے پہلا افسانہ منتخب کیا، ترجمہ کیا اور ’’عالمی ادب کے اردو تراجم‘‘ (فیس بُک صفحہ) کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔ اُن کے ترجمے کو داد و پذیرائی ملی اور پھر اعتماد کے ساتھ وہ اس سفر پر چل نکلیں۔
مَیں اس سفر میں ایک قاری کی حیثیت سے اُن کے ساتھ رہا۔ مَیں نے دیکھا کہ اُن کا اندازِ تحریر انتہائی پختہ اور دل کش ہے۔ نثر میں شگفتگی کا عنصر نمایاں ہے، جو اصل تخلیق اور اُس کے معنوی حُسن کو متاثر کیے بغیر اُردو قاری کو اپنی زبان کے لطف کے ساتھ منتقل کرتا ہے۔
عقیلہ منصور جدون کے تراجم میں جو اہم بات مَیں نے نوٹ کی، وہ افسانوں کے انتخاب میں اُن کا اِس بات کا خیال رکھنا ہے کہ منتخب افسانے ہماری مشرقی تہذیب کے نہ صرف قریب ہوں، بل کہ اُن میں واقعات نگاری اور کہانی میں کوئی ہیجانی کیفیت یا ناشائستگی کا عنصر نمایاں نہ ہو۔ اُنھوں نے اِن تراجم میں زبان و بیاں، جملوں کی ہیئت اور اُردو محاورے کا بھی خاص خیال رکھا ہے، جس سے اِن افسانوں میں ادبی رنگ بہت نمایاں نظر آتا ہے۔
مَیں نے کیوں کہ اِن منتخب افسانوں میں سے بیش تر مختلف اوقات میں پڑھ لیے تھے، لیکن اَب مکمل مسودے کی شکل میں جب میں ان کو دیکھتا ہوں، تو مجھ پر یہ بھی منکشف ہوا کہ اِن تمام افسانوں کی مجموعی تحریری فضا ایک سی ہے، یعنی میں یہ کَہ سکتا ہوں کہ عقیلہ منصور جدون نے تراجم میں اپنا ایک الگ اُسلوب ترتیب دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر افسانہ ایک الگ زبان و بیاں پیش کر رہا ہو، اُن میں پیوند کاری نظر آتی ہو اور یہ افسانے مختلف مترجمین کی کاوش نظر آتے ہوں۔ تراجم کے باب میں یہ مقام مسلسل ریاضت اور دلی وابستگی سے حاصل ہوتا ہے، یعنی قلم کے ساتھ ترجمہ نگار کا دل بھی کہانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتا نظر آتا ہے۔
کتاب میں دنیا کے طول و عرض کے 10 ممتاز افسانہ نگاروں کے 20 افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ عالمی ادب پڑھنے والوں کے لیے یہ مجموعہ کسی ضیافت سے کم نہیں کہ اس میں پڑھنے والوں کو مختلف تہذیبوں اور خطوں کے تخلیقی مزاج سے آگاہی حاصل ہوگی۔
یہی نہیں، بل کہ کتاب کی ترتیب میں شامل نئے افسانوں کے آغاز سے قبل افسانہ نگار کا مختصر لیکن جامع تعارف پیش کیا گیا ہے۔ یوں ایک قاری کے لیے یہ سہولت پیدا کی گئی ہے کہ وہ کوئی تخلیق پڑھنے سے قبل اُس کے تخلیق کار کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کرلے جس سے افسانہ کے تفہیم اور افسانہ نگار کے ذہنی رجحان کا علم ہوتا ہے۔
 مجموعہ میں شامل ’’آرنسٹ ہیمنگ وے‘‘ اور ’’ڈی ایچ لارنس‘‘ جیسے مشکل ترین مصنفین کے افسانے بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں تخلیق کار اس قدر پیچیدہ اُسلوب اور گہری انسانی نفسیات کا احاطہ کرتے ہیں کہ ان مصنفین کی کہانیوں کے جوہر تک پہنچنا کسی دوسری زبان کے مترجم کے لیے اِن کے گہرے مطالعہ سے مشروط ہے۔
عقیلہ منصور جدون نے یہ کہانیاں، جن میں ’’آرنسٹ ہمینگ‘‘ وے کی ’’سپاہی کا گھر‘‘، ’’مردوں کی فطری تاریخ‘‘، ’’انتظار‘‘ اور ’’ڈی ایچ لارنس‘‘ کی ’’ماں بیٹی‘‘ شامل ہے، بڑی محنت سے ترجمہ کی ہیں۔ ان کے علاوہ کتاب کے دیگر افسانے بھی اسی محنت کا تسلسل ہیں۔
 چینی مصنف ’’یی یوآن لی‘‘ کا افسانہ ’’بیٹا‘‘ مترجم کے ہنر کا بہترین نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک الگ خطے کا افسانہ ہے، جس کے زمان و مکاں یورپی کہانیوں سے مختلف ہیں۔
’’ایڈیٹھ پرگیٹر‘‘ کے خوب صورت افسانے ’’میرا دوست میرا دشمن‘‘ اور ’’رائی دانہ‘‘ بھی ایک کام یاب ترجمہ ہے، جس میں ترجمہ نگار کا فن بھرپور انداز میں سامنے آیا ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اِن تراجم کو کسی مبصر کے نوٹ کے بغیر قاری اپنی آنکھ سے پڑھے، سمجھے اور اپنی رائے قائم کرے۔
 مجموعے کا نام ’’چما ماندہ نگوزی‘‘ کے افسانے ’’کل ہو نہ ہو‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ اُمید اور زندگی کے نشیب و فراز سے بندھا ہے، جو کتاب کے ٹائٹل کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ مَیں اسے کاروباری زبان میں عقیلہ منصور جدون کے فنِ تراجم کا ٹریڈ مارک کہوں گا کہ اس کہانی میں مصنف نے خطے کی جو ثقافتی فضا قائم کی ہے، وہ ترجمہ میں بھی آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے۔
 مجموعے کا انتساب فیس بک کے معتبر ادبی گروپ ’’عالمی ادب کے اُردو تراجم‘‘ کے ایڈمن جناب یاسر حبیب کے نام ہے۔ وہ بہ جا طور پر اس اعزاز کے مستحق ہیں کہ اسی پلیٹ فارم سے عقیلہ منصور جدون نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔
 پہلے کی بات اور تھی، اَب عقیلہ منصور جدون کی تخلیقی صلاحیتوں پر ’’نیا‘‘ ہونے کا کوئی دباو نہیں اور وہ اسی گروپ سے وابستہ رہتے ہوئے تین کتابوں کی خالق ہوگئی ہیں۔
یہ عالمی ادب کا سمندر ہے، جس میں کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ یہ قلم ہے اور یہ عقیلہ منصور جدون، کتب کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا کہ مجھے اُن کے لہجے میں بے زاری یا تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوا۔ چناں چہ اُردو قاری اِن کے تراجم سے فیض یاب ہوتا رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے