نیچرل ہسٹری میوزیم (لندن)

Blogger Zahir Shah Nigar

’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘(Natural History Museum) لندن کے مہنگے ترین علاقہ جنوبی کیسنگٹن میں واقع ہے۔ اس کی موجودہ عمارت 1881ء میں بنائی گئی تھی۔ اس سے پہلے اس کو برٹش میوزیم (نیچرل ہسٹری) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
اس میں 80 ملین جانوروں اور پودوں کے نمونے (Specimens) رکھے گئے ہیں۔ اس میں "Hans Sloane” کے 70 ہزار وہ نمونے بھی شامل ہیں، جو اُس نے اپنی زندگی میں اکھٹے کیے تھے اور پھر اپنی زندگی میں حکومتِ برطانیہ کو 20 ہزار پاونڈز کے عوض فروخت کیے تھے۔ یہ قیمت نمونوں کی مارکیٹ کی قیمت سے بہت کم تھی۔ یہ نمونے 1753ء میں اُس کی وفات کے بعد برٹش میوزیم (موجودہ نیچرل ہسٹری میوزیم) کے حوالے کیے گئے۔
یہ میوزیم سائنس کے ایک تحقیقی ادارے کے طور پر بھی کام کرتا ہے، جہاں 3 سو کے قریب سائنس دان ہر وقت تحقیق کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اس میوزیم کی دیکھ بھال برطانیہ کی وزارتِ ثقافت، ذرائع ابلاغ اور کھیل کرتی ہے۔ اس میں 850 کے قریب ملازم کام کرتے ہیں۔
’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ میں بہت دل چسپ اور انوکھی چیزیں رکھی گئی ہیں، جس میں طویل عمر والے درخت ’’گیئنٹ سیکویا‘‘(Giant Sequoia)، ڈائنوسار اور نیلی وہیل شامل ہیں۔
اس بڑے درخت کو کیلوفورنیا سے لایا گیا ہے۔ اس درخت کے تنے سے ایک سلائس نما گول حصہ میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ تنے کے اس سلائس کے ساتھ وہ واقعات، ایجادات اور نظریات کو ایک خاص ترتیب سے ایک بورڈ پر لکھا گیا ہے، جو اس درخت کی زندگی میں واقع ہوئے ہیں۔ اس کے تنے کا قطر 20 سے 26 فٹ اور لمبائی 311 فٹ ہے۔ اس کو55 7ء میں کیلوفورنیا میں لگایا گیا تھا۔ اس کو ’’جنرل نوبل ٹری‘‘ (General Noble Tree) کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور قدیم ترین جان دار چیز ہے۔ اس نے بہت سے ادوار دیکھے ہیں، جس میں اسلامک کیلنڈر کا 622ء میں اجرا اور 725ء میں ’’یی زنگ‘‘ کے پہلے پاؤر کلاک کی ایجاد شامل ہیں۔ اُس وقت دنیا کی آبادی بالترتیب 206 اور 210 ملین تھی۔
اس درخت نے 868ء کا وہ دور بھی دیکھا تھا، جس میں چائینہ میں پہلی کتاب چھاپی گئی تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 224 ملین تھی۔
یہ درخت اُس وقت بھی پورے آب وتاب سے زندہ تھا، جب 964ء میں ایک ماہرِ فلکیات عبدالرحمان ال سوفی نے ستاروں کے برج پر ایک کتاب لکھی تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 240 ملین تھی۔
ایک عربی عالم الحیزان نے 1021ء میں ایک کتاب "The Book Of Optics” تحریر کی تھی۔ یہ درخت اُس کا بھی گواہ ہے۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 340 ملین تھی۔
1106ء میں لوگوں نے بڑا دُم دار ستارہ دیکھا۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 370 ملین تھی۔ یہ درخت اُس وقت بھی زندہ تھا اور زمین سے اپنی جڑوں کے ذریعے خوراک حاصل کرتا تھا۔
اس درخت نے یہ بھی دیکھا جب ایک اطالوی ریاضی دان ’’فیبوناسی‘‘ (Fibonacci) نے 1202ء میں ریاضی کی مشہور کتاب "Liber Abaci” تحریر کی تھی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 450 ملین تھی۔
یہ درخت صحیح سلامت کھڑا تھا جب 1300ء میں طاعونِ اعظم (Black Death) نامی وبا نے یورپ اور مشرقی وسطیٰ میں تباہی مچائی۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 432 ملین تھی۔
یہ درخت 1485ء میں ’’لینارڈو دا وینسی‘‘ (Leonardo da Vinci) کی مختلف ایجادات مثلاً: ہوا میں اُڑنے کی مشین کا تصوراور مختلف قسم کی قیمتی پینٹنگز دیکھ چکا ہے۔ اُن کی ایک پینٹنگ 2017ء میں 450.3 ملین ڈالر پر امریکہ میں فروخت ہوچکی ہے۔ اس وقت دنیا کی آبادی 374 ملین ریکارڈ کی گئی تھی۔
اس درخت نے 1543ء میں ’’نیکولس کوپرنیکس‘‘ (Nicolaus Copernicus) کے اس نظریے کی بازگشت بھی سنی ہے، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 540 ملین تھی۔
یہ درخت 1687ء میں سر سبز و شاداب تھا اور انسانی زندگی کے لیے آکسیجن فراہم کرتا تھا۔ جب نیوٹن نے اپنے قانونِ حرکت اور کششِ ثقل کو ’’پرینسیپا‘‘ (Principa) نامی کتاب میں شائع کیا۔ اُس وقت دنیا کی آبادی 579 ملین تک پہنچ چکی تھی۔
یہ درخت اُس وقت بھی موجود تھا، جب 1760ء میں صنعتی انقلاب رونما ہوا اور یہ بھی دیکھا کہ دنیا کی آبادی 70 سال میں 579 ملین سے بڑھ کر 679 ملین ہوگئی تھی۔
1859ء میں چارلس ڈارون کے مشہورِ زمانہ نظریۂ ارتقا بھی اس درخت کی زندگی کے دوران میں پیش کیا گیا تھا اور اُس وقت آبادی 679 ملین تک پہنچ چکی تھی۔
آخرِکار ڈھیر سارے تاریخی واقعات، سائنسی ایجادات اور تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیوں کا چشم دید گواہ ’’گیئنٹ سیکویا‘‘ (Giant Sequoia) 1882ء میں 1334 سال کی عمر میں گرا دیا گیا۔ اس کو کاٹ کر 1893ء میں کولمبس کے 400ویں برسی کے موقع پرشکاگو کی تاریخی نمایش میں شامل کیا گیا تھا۔
’’نیچرل ہسٹری میوزیم‘‘ میں ڈائنوسار کا ایک مرکز بنایا گیا ہے، جو اس حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جا تا ہے۔ اس میں پوری دنیا سے ڈائنوسار کے جسم کے تمام اعضا جس شکل میں بھی ملے ہیں، یہاں لائے گئے ہیں۔ اس سیکشن میں ڈائنوسار کی لائف سائیکل طبعی طور پر دکھائی گئی ہے۔ ڈائنوسار کے انڈے اصلی حالت میں لائے گئے ہیں۔ پھر انڈوں سے ڈائنوسار کا پیدا ہونا بہت فطرتی انداز میں دکھایا گیا ہے اور اس طرح ڈائنوسار کے انڈے سے نکلنے سے لے کر بڑے ہونے تک تمام حالتیں اس کے اصلی ڈھانچوں کے ذریعے خوب صورت انداز اور ایک خاص ترتیب سے دکھائی گئی ہیں۔
یہاں یہ بات بتانا نہایت اہم ہے کہ جہاں کسی ڈھانچے میں اصلی ہڈی یا دوسری چیز نہیں ملی، تو اس کو مصنوعی طریقے سے اتنی مہارت سے بنایا گیا ہے کہ کسی کو پتا نہیں چلتا کہ یہ اصلی بھی ہے یا نہیں۔ آپ کو اس طرح محسوس ہوگا کہ آپ ڈائنو سار کو چھوٹے بچے سے بڑے ہونے تک دیکھ رہے ہیں۔ اس سیکشن میں اندر ہوتے ہی آپ محسوس کریں گے کہ جیسے آپ ڈائنوسار کی دنیا میں گھو م رہے ہیں۔
اس سیکشن سے نکلتے وقت ایک چھوٹی سی گیلری کی دیواروں پر چند تصاویر آپ کو متوجہ کریں گی۔ یہ تصاویر اُن سائنس دانوں کی ہیں، جنھوں نے ڈائنو سار پر تحقیق کی تھی۔
اس کے علاوہ مرکزی ہال میں ’’نیلی وہیل‘‘ (Blue Whale) کا ڈھانچا آویزاں کیا گیا ہے، جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈھانچے کی لمبائی 82 فٹ اور وزن 4.5 ٹن ہے۔ اس ڈھانچے کی کہانی نہ صرف دل چسپ ہے، بل کہ یہ برطانیہ کے لوگوں کا قدرت کی مختلف چیزوں کو محفوظ بنانے کے لیے اُن کی کوششوں کا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے۔
آئرلینڈ کے ویکسفورڈ کی بندرگاہ پر ایک نیلی وہیل کو شکاریوں نے زخمی کیا تھا۔ اُس کو 42 سال تک ایک خاص سٹور میں رکھا گیا۔ پھر اُسے 1938ء میں میوزیم کے مرکزی ہال میں نصب کیا گیا اور اس کا نام ’’ہوپ‘‘ (Hope) یعنی اُمید رکھا گیا۔ اس سے پہلے اس جگہ پر ڈائنوسار کا ڈھانچا جس کو ’’ڈیپی‘‘ (Dippy) کے نام سے پکارا جاتا تھا، رکھا گیا تھا۔
’’ڈیپی‘‘ اور ’’ہوپ‘‘ کے تبادلے پر ’’بی بی سی‘‘ نے ایک ڈاکومینٹری بھی”Dippy and the Whale” کے نام سے بنائی ہے۔
اس کے علاوہ چارلس ڈارون کے نام سے ایک علاحدہ سیکشن بنایا گیا ہے، جس میں ہر قسم کے جانور اور پودوں کے نمونے رکھے گئے ہیں۔
اس میوزیم کی عمارت، اس میں رکھے گئے مختلف جانوروں اور پودوں کے نمونے، سائنس دانوں کی تحقیقی کاوشوں اور حکومت کی مالی اور انتظامی دل چسپی نے مجھے سوچ میں مبتلا کردیا کہ ہم اور ہماری حکومت کیوں اس طرح نہیں کرسکتی؟ ہمارے ملک میں بھی بہت ہی پرانی اور تاریخی چیزیں موجود ہیں۔ پھر اچانک اس بات پر دل کو تسلی دی کہ ہمارے بھی بہت سے محترم ہیں، جو یہ عظیم کارنامے سر انجام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اپنے علاقے کے دو اشخاص کا ذکرضرور کرنا چاہوں گا۔ ان میں ایک کا تعلق ضلع ملاکنڈ کے سخاکوٹ گاؤں سے ہے۔ شلمانی قبیلہ سے اس کا تعلق ہے اور نام فضل زمان شلمان ہے۔ وہ 30، 40 سال سے وہ چیزیں جن کا تعلق ہماری ثقافت اور تاریخ سے ہے، اکھٹی کر رہا ہے۔ اُس نے 2، 3 ہزار کے قریب نایاب چیزیں محفوظ کر رکھی ہیں۔ اُس نے تحریکِ آزادی کے ایک مجاہد فضل محمود مخفی کی جد و جہد پر کتاب بھی تحریر کی ہے۔
دوسرے کا تعلق لوئر دیر کے گاؤں کاگان سے ہے۔ نام جہان بخت جہان غوری اورقبیلہ اس کا دوشخیل ہے۔ شاعر ہونے کے علاوہ بہت نفیس اور مہمان نواز انسان ہے۔ اُس نے ایک ہزار کے قریب ہماری ثقافتی اور تاریخی اشیا اپنے حجرے میں محفوظ کر رکھی ہیں۔
ذکر شدہ دونوں اشخاص کے ہاں لوگ جاتے ہیں۔ اپنے آبا و اجداد کے استعمال کی پرانے زمانے کی چیزیں دیکھ کر اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ خدا ان دونوں کو لمبی عمر دے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے