وہ دونوں میرے سامنے بیٹھے تھے۔ دو سال قبل جامعہ سے فارغ ہوچکے ہیں اور کسی کام کے سلسلے میں آج پھر یونیورسٹی آئے تھے۔ اُن سے گفت گو ہوئی، تو یہ بھی معلوم ہوا کہ دونوں ابھی تک روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
میری عادت رہی ہے کہ کسی بھی تعلیم یافتہ بندے سے یہ نہیں پوچھتا کہ ’’آج کل کیا کر رہے ہو؟‘‘حالاں کہ معاشرے میں یہ سوال بہت عام ہے اور اکثر و بیش تر تعلیم یافتہ لوگ اس سوال کو سننا پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ سب کو اس ملک میں روزگار کے معاملے کا بہ خوبی پتا ہے۔
ہر سال ملک میں بھر میں ہزاروں بچے بچیاں ڈگری یافتہ بن جاتی ہیں۔ اب اُن سب کو سرکاری اداروں میں نوکریاں تو مل نہیں سکتیں، بل کہ اب تو حالات یہ ہوچکے ہیں کہ کفایت شعاری اور ’’رائٹ سائزنگ‘‘ (اس کے لیے اُردو میں کوئی بہتر اصطلاح مجھے نہ مل پائی) کے نام پر موجودہ اہل کاروں کو بھی فارغ کیا جاتا ہے، تو نئی پود کو کس طرح نوکری مل سکتی ہے؟
دوسری طرف نجی شعبہ یا صنعتیں ہیں۔ جہاں لوگوں کو نوکری مل سکتی ہے۔ نجی شعبہ میں عام بندے کے لیے تنخواہ کم ہے اور اچھی تنخواہوں والے عہدے اس سے بھی کم۔
اس طرح صنعتوں کا حال دیکھیں، جو ویسے بھی بدحال ہیں۔ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستانی صنعتوں کو عالمی مقابلے میں کھڈے لائن لگا دیا ہے۔ جب خود صنعت کار مطمئن نہ ہوں، تو اُن کی صنعت میں عام شہری کو کیسے اطمینان بخش نوکری مل سکتی ہے؟ ایسے میں کسی تعلیم یافتہ سے یہ پوچھنا کہ کیا کر رہے ہو؟ بہت عجیب لگتاہے۔
ہاں! اگر کوئی خوش نصیب برسرِوزگاربھی ہے اور اپنی خوشی شیئر کر رہا ہے، تو ہم بھی خوش ہوجاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس دورِ مشکل تر میں کسی کے نانِ شبینہ کا اہتمام ہوچکا ہے، تو غنیمت ہے۔ لہٰذا اپنے سامنے دونوں نوجوانوں کو آخر میں تسلی دے کر رخصت کیا۔
چند دن بعد کچھ اور بچے آئے۔ اُن میں سے ایک دو برسرِروزگار اور اکثریت بے روزگار تھے۔ جو پیسے کما رہے تھے، وہ اُس سبق کی بہ دولت نہیں، جو اُنھوں نے کُل 16 سال اور 4 سال یونیورسٹی میں پڑھا، بل کہ خاندانی روزگار میں مصروف ہوگئے تھے۔
قارئین! ایسی ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں کہ تعلیم یافتہ لوگوں کو آسانی کے ساتھ نوکری نہیں ملتی، یا اکثر لوگوں کو اپنے شعبے سے ہٹ کر ملازمت مل جاتی ہے۔ مثلاً: خیبر پختونخوا کے اکثر سرکاری سکولوں میں آج کل ڈھیر سارے انجینئر شعبۂ درس و تدریس سے جڑ گئے ہیں۔ اب کہاں انجینئرنگ کی پیشہ وارانہ تعلیم اور کہاں اسکول میں بچوں کو پہاڑے رٹوانا…… لیکن جب ہزاروں انجینئر بے روزگار گھوم پھر رہے ہوں، تو غمِ معاش کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔
اس پورے تناظر میں سوچا جائے، تو مختلف وجوہات سامنے آتی ہیں۔ سرسری بات کی جائے، تو ریاست اور حکومت کو ذمے دار قرار دیاجاسکتا ہے، جو کہ لوگوں کی عادت بنی ہوئی ہے، لیکن حقیقی تجزیہ کیا جائے، تو یہ بات درست ہے کہ ریاست اور حکومت ذمے دار ہے، کیوں کہ اس ریاست میں حکومت نے وہ نظامِ تعلیم وضع ہی نہیں کیا، جو کار آمد تعلیم یافتہ افراد بناسکے۔ نہ وہ معاشی ماحول ہی دست یاب کیا ہے، جس میں صنعتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع میسر آسکے۔ تاکہ صنعتوں کی ترقی سے تعلیم یافتہ افراد کو روزگار کی تلاش میں آسانی ہوجائے۔
لیکن اس پورے معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے…… اور وہ افراد یا سماج سے تعلق رکھتا ہے۔ ہم نے ابھی تک اپنے بچوں کو یہ نہیں بتایا کہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے؟
اکثریت کا خیال ہے کہ تعلیم حصولِ روزگار کا ذریعہ ہے جو کہ درست ہرگز نہیں۔ اگرچہ تعلیم کے ذریعے پیسے کمانا ناجائزبھی نہیں، لیکن کتنے لوگوں کو یہ موقع مل سکتا ہے؟ لہٰذا روایتی تعلیم کے ساتھ بچوں کو ہنرمند بنانے کے لیے ’’ووکیشنل ایجوکیشن‘‘ کا سہارا لینا چاہیے، تاکہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اگر سرکاری یا نجی شعبے میں ملازمت نہیں ملتی، تو بھی ایک پڑھے لکھے نوجوان کو مایوسی کا سامنا نہ ہو، بل کہ وہ ہنرآزمائی کرکے اپنے لیے نانِ شبینہ کا اہتمام کرسکے۔
مغربی دنیا میں آج کل اسکولوں کی سطح پر بچوں کو مختلف ہنر سکھائے جارہے ہیں۔ جب کہ یہاں ابھی تک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل بچے اور بچیاں کتابی علم کو عمل میں ڈھالنے سے ناآشنا ہیں۔ ایسا ہر گز ملک و قوم کے فائدے میں نہیں۔ قوم کو بنانا ہے، تو صرف تعلیم یافتہ نہیں، بل کہ پاکستان کو ایک ہنرمند تعلیم یافتہ نسل کی ضرورت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔