آئرن لیڈیز

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

آج کی نشست میں ایک تبصرہ اُن دو خواتین پر کرنے کو جی چاہتا ہے، جو غیر ملکی ہیں۔ دونوں ہی اپنی دلیری، نظریاتی قوت اور اخلاقی برتری کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا کی ڈارلنگ بنی ہوئی ہیں۔ خاص کر سوشل میڈیا آج کل اُن کے بغیر نا مکمل ہے۔ اُن دو خواتین میں سے ایک کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور دوسری کا تعلق اسی کے پڑوس میں موجود نیوزی لینڈ سے ہے۔ مذکورہ دونوں خواتین کو اُن کے اپنے ملک میں موجود اسٹیبلشمنٹ اور اربابِ اختیار جہاں سخت نا پسند کرتے ہیں، وہاں وہ اپنے ملک میں بے پناہ مقبولیت اور عزت حاصل کرچکی ہیں۔
چوں کہ درجِ بالا دونوں ممالک کے عوام بہ ہرحال تعلیم یافتہ بھی ہیں اور دانش مند بھی، اس وجہ سے اُن کی مقبولیت روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ دونوں خواتین اپنے اپنے ممالک کے منتخب پارلیمان کا حصہ ہیں۔ ایک آسٹریلیا کی منتخب سنیٹر اور دوسری نیوزی لینڈ کی منتخب رکنِ اسمبلی ہیں۔ آئیں، اُن دونوں خواتین کا مختصر سا تعارف اور اُن کے نظریات اور اُن کی ڈیمانڈ سے آپ کو آگاہ کریں۔
٭ ہانا راہیتی (Hana Rawhiti):۔ یہ بی بی نہایت ہی کم عمر ہیں، یعنی صرف 22 سال کی۔ شاید دنیا بھر میں کم عمر ترین منتخب رکنِ پارلیمنٹ ہیں۔ وہ پہلی بار دُنیا کی نظروں میں تب آئیں، جب ایک دن اچانک ایک بِل کی مخالفت میں اُنھوں نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر نہ صرف بِل کو چاک کر دیا، بل کہ ساتھ ہی اپنے مورائی قبیلے کا روایتی ثقافتی گیت گا کر اس قبائلی انداز میں رقص شروع کر دیا۔ اس کے بعد اُن کے ساتھ اُن کی جماعت کے دوسرے ارکان بھی مل گئے اور پھر چند دوسری جماعتوں کے ارکان بھی تفریحِ طبع کی خاطر شامل ہو گئے اور نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ ایک دم سے ’’ڈانسنگ فلور‘‘ یا کسی ثقافتی تقریب کی شکل اختیار کرگئی۔
اس کا پس منظر یہ تھا کہ نیوزی لینڈ کی قدیم ترین آبادی مورائی قبیلہ پر مشتمل ہے اور یہ لوگ ہزاروں سال سے وہاں مقیم ہیں۔ ان کا کام قدیم زراعت کے ساتھ شکار تھا۔ یہ لوگ جنگ کے دوران میں ایک پُرجوش جنگی ترانہ پڑھتے تھے، جو ’’ہانا‘‘ نے پارلیمنٹ میں گنگنایا۔ یہ نغمہ ’’جو حاکا‘‘ کہلاتا ہے۔ شاید ہمارے ہاں بھی غصہ میں کی گئی تحریک یا چیلنج کو پنجاب اور سندھ میں ’’حاکا‘‘ ہی کہا جاتا ہے کہ جس کا مطلب دشمن کو گھیر کر مارنا ہوتا ہے۔ بل کہ آج بھی پرندوں کے شکار یعنی اُن کو شکار کے پھندے کی طرف لانا ’’حاکا‘‘ کہلاتا ہے۔ مذکورہ جنگی ترانے کا سلیس اُردو میں ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے: ’’مَیں مر رہا ہوں۔ مَیں مر رہا ہوں۔ مَیں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ مَیں زندہ رہوں گا۔ مَیں وہ حوصلہ مند ہوں جس نے سورج کو دوبارہ چمکایا۔‘‘
یہ ترانہ جنگ میں حوصلہ بلند کرنے کے لیے گایا جاتا تھا۔ بہ ہرحال اس حرکت کا پس منظر یہ ہے کہ برطانیوی سامراج نے نیوزی لینڈ کی دریافت کے شروع میں وہاں کے مقامی قبائل سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ مورائی قبائل کی اکثریت اس پر عمل درآمد نہ ہونے پر شاکی رہی ہے۔ اَب حکومتی جماعت آئین میں ایک ایسا مسودہ لا رہی ہے کہ جس کے تحت مورائی قبیلے سے قریب پونے 200 سال قبل کا معاہدہ ختم کر رہی ہے، یا اس میں بنیادی تبدیلی لانا چاہ رہی ہے کہ جس کے تحت کچھ خاص شقوں کو ختم کرنا مقصود ہے۔ اس مسودے پر مورائی قبیلہ سراپا احتجاج ہے۔ کیوں کہ اُس کے مطابق اس قانون کو اگر نافذ کیا جائے، تو مورائی قبائل کہ جو پہلے سے ہی کم سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں، اُن کی ثقافتی اور سماجی روایات پر اثر پڑے گا، جب کہ حکومتی جماعت کا موقف ہے کہ وہ مورائی قبیلہ کی ثقافت کو ختم نہیں کرنا چاہتی، بل کہ تمام نیوزی لینڈ کو یک ساں حیثیت دے کر ایک قوم کا امیج بنانا چاہتی ہے۔
بہ ہرحال نوجوان ’’ہانا راہیتی‘‘ نے اسمبلی میں اس قوت سے آواز بلند کی کہ لمحوں میں اُن کی آواز خاص کر اُن کا ثقافتی گیت دنیا بھر میں گونج اُٹھا اور پھر جب اُن کی جماعت نے اُن پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا، تو نیوزی لینڈ بھر آک لینڈ سے ڈیوڈن و کرائس چرچ سے قافلے ولینگٹن کی طرف چل پڑے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اس میں اکثریت یورپ، خاص کر برطانیوی نژاد گوری چمڑی والے لوگوں کی تھی۔ سب ’’ہانا‘‘ کی طرح روایتی ثقافتی گیت اور اسی طرح کا رقص کر رہے تھے۔ اس میں بلا تفریق نیوزی لینڈ کی سول سوسائٹی، کھیل سے وابستہ شخصیات، مذہبی حلقے، اداکار، گلو کار سبھی شامل ہوگئے۔ بس دنوں میں ویلنگٹن کی سڑکوں پر لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا اور پھر یہ احتجاج اس حد تک مقبول اور مضبوط ہوگیا کہ حکومتی جماعت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور مجوزہ قانون واپس لینا پڑا۔
ہم بھی دوسری دنیا کی طرح آج اس نوجوان خاتون کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ ہانا راہیتی! زندہ باد، آپ دنیا کے لیے بے شک عظیم مثال بن گئی ہیں!
٭ میڈم لیڈیا تھورپ (Lidia Thrope):۔ یہ بھی ایک بہت ہی خوب صورت قدیم آسٹریلین خاتون ہیں، جو آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں منتخب سنیٹر ہیں۔ مَیں اس سے پہلے کہ اُن کے بارے میں لکھوں، یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس خاتون کو میں نے ایک بہت مختصر میسج کیا، بہت ہلکے انداز میں۔ خاتون نے مجھے جواباً بہت لمبی چوڑی ای میل بھیجی، جس میں اُنھوں نے اپنے مقصد اور ترجیحات کی مکمل تفصیل لکھی اور درخواست کی کہ مجھ جیسا ایک عام پاکستانی جو آسٹریلیا سے بہت دور ہے، جو زندگی میں کبھی آسٹریلیا گیا، نہ بہ ظاہر جانے کا کوئی چانس ہی ہے، جس کی انگلش انتہائی کم زور ہے، اُس کو بھی اس بی بی نے درخواست کی کہ مَیں اُس کی آواز بنوں۔ مطلب یہ چیز اُس خاتون کے اپنے مقصد کے لیے اخلاص کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کتنی سنجیدہ ہے۔ بہ ہرحال اب مقصد کی جانب چلتے ہیں۔
دراصل خاتون کی طرف پہلی دفعہ دنیا تب متوجہ ہوئی کہ جب برطانیہ کے بادشاہ چارلس اپنی ملکۂ عالیہ کے ساتھ ایک سرکاری دورے پر آسٹریلیا گئے اور دارلحکومت کیمبرا میں ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرنے پہنچے۔ اس سے پہلے کہ بادشاہ سلامت اپنی تقریر شروع کرتے، یہ خاتون کھڑی ہوگئیں اور اس بات کا بالکل لحاظ نہ کیا کہ وہ دنیا کی سپر پاؤر کے بادشاہ، جو اپنی ملکہ اور اعلا سطحی وفد کے ساتھ موجود ہے، اور اُن (لیڈیا تھورپ) کے لیے بہت مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اُنھوں نے انتہائی سخت الفاظ میں بادشاہ سلامت کو سنانا شروع کر دیا اور بہت بے باک الفاظ میں کہا کہ ’’تم کس حیثیت اور کس قانون کے تحت میرے بادشاہ ہو؟ مَیں تم کو آسٹریلیا کا بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں۔ تم لوگ غاصب ہو کہ جنھوں نے میری سرزمین پر غیر قانونی قبضہ کیا اور میری تاریخ، زبان، ثقافت اور سماج کو تباہ کر دیا۔ تم کالونیاں بنانے والے ظالم ہو۔‘‘
سنیٹر لیڈیا تھورپ کی اس آواز نے پورے ہال میں سناٹا طاری کر دیا اور پھر سیکورٹی اداروں کے ملازمین آگے بڑھے اور اس دلیر خاتون کو باہر دھکیل دیا۔ اُدھر لیڈیا تھورپ باہر نکلی اور اندر بادشاہ چارلس خطاب کے لیے ڈائس پر آئے۔ دنیا کے اکثر بین الاقوامی ٹیلی وِژن دونوں کی بہ راہِ راست کوریج کر رہے تھے۔ اندر بادشاہ چارلس کا روایتی خطاب کہ جس میں زور اس بات پر کہ ’’مَیں آسٹریلیا کا بادشاہ ہوں۔ ہم نے آسٹریلیا کو جدید دنیا میں متعارف کروایا اور ترقی دی۔‘‘
لیکن حاضرین کی اُکتاہٹ واضح طور پر نظر آرہی تھی، جب کہ باہرلیڈیا تھورپ پوری گن گرج کے ساتھ بتا رہی تھیں کہ ’’اندر تقریر کرنے والا شخص کالونیل ازم کا مجسمہ ہے۔ یہ لوگ غاصب ہیں۔ اُنھوں نے ہماری سرزمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔ کشتیاں بھر بھر کر اپنے لوگ لائے۔ ہمارے علاقوں میں اپنے نام کے شہر بسائے۔ آسٹریلیا کو اب ان سے گلو خلاصی کرنا ہوگی۔ اب ہم ان کو مزید برداشت نہیں کریں۔
لیڈیا تھورپ کی اس جرات کے بعد اُن کی کچھ پرانی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوگئیں کہ جس میں خاص طور پر وہ ویڈیو بہت متاثر کن ہے کہ جس میں لیڈیا تھورپ سینٹ کا حلف لے رہی ہیں۔ کیوں کہ آسٹریلین پارلیمنٹ میں حلف کے لیے برطانیوی بادشاہ یا ملکہ سے وفاداری کا حلف لینا ضروری ہوتا ہے۔
جب لیڈیا تھورپ نے پہلی بار حلف لیا، تو تب برطانیہ پر شاہ چارلس کی ماں ملکہ الزبتھ کی حکم رانی تھی۔ سو لیڈیا تھورپ کی باڈی لنگویج اور الفاظ کی ادائی کا طریقہ واضح نظر آرہا تھا کہ خاتون کس توہین آمیز لہجہ میں حلف لے رہی ہیں اور دنیا کو واضح پیغام دے رہی ہیں کہ وہ یہ حلف محض ایک قانونی مجبوری کے تحت لے رہی ہیں۔ وگرنہ ملکۂ برطانیہ سے وفاداری اور تابع داری اُن کی جوتی بھی نہیں کرتی۔
بہ ہرحال لیڈیا تھورپ کی اس جرات کے بعد ڈارؤن سے برسبین تک اور برسبین سے پرتھ تک تمام آسٹریلیا کے عوام بہ شمول برطانوی نژاد گوری چمڑی والے آسٹریلین شہری بھی لیڈیا تھورپ کی اس آواز کے حمایتی نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ یہ بات تو حقیقت ہے کہ جہاں 15ویں سے لے کر 18ویں صدی تک برطانیہ نے دنیا کے دور دراز علاقوں میں اپنی سمندری طاقت کے زور پر قبضہ کیا، وہاں اپنی کالونیاں بنائیں اور مقامی لوگوں کو غلام بنایا…… لیکن وقت کے ساتھ ساتھ برطانیہ کو مقامی لوگوں نے نکال باہر کیا۔ کنیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں چوں کہ اکثریت خود برطانوی لوگوں کی رہی، سو وہاں پر بہ ہرحال رسمی بادشاہت قائم رہی۔ وگرنہ امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں آزادی کے ساتھ ہی برطانوی گورے واپس ہوگئے یا وہاں کی مقامی آبادی میں ضم ہوکر نئے نظام میں ڈھل گئے۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ نے بھی کچھ عرصہ قبل برطانوی بادشاہ سے خلاصی کر والی۔ اب صرف کینڈا اور آسٹریلیا باقی رہ گئے ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں بھی اَب یہ موضوع بحث میں آچکا ہے، بل کہ کینڈا میں منٹرویال کی ایک کوئٹی کے منتخب ارکان نے بادشاہِ برطانیہ سے وفاداری کا حلف لینے سے انکار کر دیا ہے، جب کہ آسٹریلیا میں پہلی بار ایک منتخب سنیٹر نے اس دبنگ طریقہ سے اس بات کو اُجاگر کیا کہ اب کم یا زیادہ وقت لگے، لیکن بہ ہرحال آسٹریلیا سے اب برطانیوی شاہ کی چھٹی یقینی ہے۔
لیڈیا تھورپ اَب اس حد تک جاریانہ انداز میں ہیں کہ برقع کے خلاف ایک خاتون سنیٹر نے جب بات کی اور اس پر افغان نژاد ایک خاتون نے احتجاج کیا، تو لیڈیا تھورپ نے نہ صرف افغان نژاد خاتون کی حمایت کی، بل کہ برقع کے خلاف بولنے والی خاتون سنیٹر کو نسل پرست قرار دے کر اُس کو شاہِ برطانیہ کا چاپلوس تک قرار دے دیا۔
اس کے ساتھ لیڈیا تھورپ نے پاکستان نژاد سنیٹر بیگم فاروقی کی بھی واضح حمایت کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ خاتون فلسطین کے معاملے پر مکمل طور پر فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑی ہو چکی ہیں، بل کہ یہ اپنے احتجاج ’’فلسطین کاز‘‘ کی خاطر پرنٹیڈ شرٹ پہن کر آتی ہیں اور بہت کھل کر اسرائیل کے خلاف بات کرتی ہیں۔مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں صہیونی لابی اس بہادر اور دلیر خاتون کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ کیوں کہ ابھی سے ہی مغربی میڈیا لیڈیا تھورپ کے خلاف پروپیگنڈا کرنا شروع ہوگیا ہے اور اُن کو شریر اور زبان دراز قرار دے رہا ہے۔
بہ ہرحال ہم لیڈیا تھورپ کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میڈم لیڈیا تھورپ، زندہ باد!‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے