تحریر: حاشر ایان
فردوس جمال کے ایک انٹرویو یا اُن کے اپنی گذشتہ زندگی کے بارے میں اظہارِ خیال نے اُن کی زندگی کو یک سر بدل کر رکھ دیا۔ کیوں بھئی، کیا انسان کو اظہارِ خیال کی بھی آزادی نہیں؟
کیا دل کی بات یا دل کی بھڑاس نکال دینے کے بعد اپنے وجود کے بوجھ کو اُتار پھینکنے کے بعد زندگی یا اُس جڑے ہوئے رشتے آپ کی رسوائی یا آپ کی تذلیل کے درپے ہو جائیں گے؟
مجھے انڈین مووی "Pink” کا عدالت میں جرح کے دوران میں وہ مکالمہ یاد آگیا جب مدعی سے امیتابھ بچن بہ طور مسٹر سہگل یعنی خواتین ملزمان کے وکیل جو وومن ہیرسمنٹ کے کیس کو لڑ رہے ہوتے ہیں، مدعی صاحب سے جرح کے دوران میں جج صاحب کے سامنے ایک تجزیہ پیش کرتے ہیں جو کہ پیش خدمت ہے۔ فرماتے ہیں: ’’نو یواَر آنر! ناں، صرف ایک شبد نہیں۔ اپنے آپ میں ایک پورا واقعہ ہے، اسے کسی خاص توجیہ یا وضاحت کی ضرورت نہیں ہوتی! ناں کا مطلب ناں ہی ہوتا ہے۔ مائی کلائنٹ سیڈ نو یو اَر آنر……! اینڈ دِیز گائیز مسٹ رئیلائز! نو کا مطلب نو ہی ہوتا ہے! اُسے بولنے والی لڑکی کوئی انجان ہو، فرینڈ ہو ، گرل فرینڈ ہو یا کوئی سیکس ورکر (طوائف) ہو یا آپ کی اپنی بیوی ہی کیوں نہ ہو ۔ نو مینز نو! اینڈ سَم وَن سے دِس، سو یُو وِل اسٹاپ …..!‘‘
چلیں آتے ہیں فردوس جمال کے اُس ٹاک شو کی گفت گو کے خلاصے کی طرف، جس نے ان کی زندگی میں ایک قیامت برپا کردی ہے۔
فردوس جمال اپنی زندگی پر غور کرتے ہوئے دُکھ کے ساتھ کہتے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال اور قربانیاں ایسے رشتوں میں لگائیں، جو کبھی اُن کے خلوص کا جواب نہ دے سکے۔ اُن کی خواہش تھی کہ وہ ایک عظیم فن کار بنیں، لیکن آج بھی وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اس مقام تک نہیں پہنچ سکے۔ حالاں کہ اُنھیں برصغیر میں عزت اور پہچان ضرور ملی۔
وہ اپنے کیریئر کے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کو یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سفر زیادہ تر مایوسیوں سے بھرا رہا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں محدود وسائل اور تعاون کے بغیر فن کاری کی دنیا میں خود کو ثابت کرنے کی جد و جہد کی۔ اُن کا دل کچلا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کو وسیع مواقع میں تبدیل نہ کرسکے اور اس میں وہ اپنے جذباتی اور ذاتی ٹوٹ پھوٹ کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ اُن کا بچپن بھی ایک چیلنج بھرا تھا۔ والدین کے سائے سے محروم رہنا اور اُن کی کمی نے اُنھیں ایک مضبوط مدد اور سہارے سے دور رکھا جس کی ایک فن کار کو ضرورت ہوتی ہے۔ اُن سب نے اُن کے دل پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک غیر موافق ماحول میں ایک فن کار کے طور پر خود کو قائم رکھنا ایک مسلسل جنگ جیسا تھا۔ اُن کی یہ کہانی اس جد و جہد، تھکن اور اُن کی ذہنی و جسمانی صحت پر پڑنے والے اثرات کو بیان کرتی ہے، جو کہ ایک حساس فن کار کا دل محسوس کر سکتا ہے۔
70 سال کی عمر میں، فردوس جمال اپنی زندگی کے آخری مراحل کا سامنا کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ شاید زندگی میں اب زیادہ وقت باقی نہیں۔ وہ اپنے اندر کے درد اور غم پر غور کرتے ہیں، جو اُن کی ہر کام یابی اور شہرت کو دھندلا دیتا ہے۔ اُن کے نزدیک، لوگ اُنھیں ایک کام یاب شخص کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن اُن کی اندرونی جد و جہد کی اصل حقیقت کو سمجھنا دوسروں کے لیے آسان نہیں۔
فردوس جمال تنہائی محسوس کرتے ہیں اور یہ کہ اُن کے قریب موجود لوگ اُن کی مشکلات اور ایک فن کار کے طور پر اُن کی تکلیف کو کبھی پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ اس عدمِ سمجھ بوجھ نے اُنھیں وقت کے ساتھ زیادہ خاموش اور اپنے اندر سمٹ جانے والا بنا دیا ہے، جو اُن کی پہلے کی خوش مزاج اور ملن سار فطرت سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ خاموشی اَب اُن کے دل میں گھٹن کا سبب بن گئی ہے، جس سے اُن کی جذباتی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
فردوس جمال اپنے فن کے ذریعے اُس دکھ کو بھی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جسے اُن کے چاہنے والے اُن کی پرفارمنس میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے چند یادگار لمحات جیسے اپنے پہلے بیٹے حمزہ کی پیدایش اور ٹیلی وِژن پر اپنی پہلی پیشی کو یاد کرتے ہیں، جو اُن کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اُن کا دل تھیٹر کی اُن یادوں میں بسا ہے، جہاں اُنھوں نے لوگوں کو ہنسانے اور خوشی دینے کی کوشش کی۔ یہ خوشی اُن کے دل میں خاص سکون پیدا کرتی ہے اور اُن کی ذات کی اس دوہری حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ وہ نہ صرف ایک اداکار ہیں، بل کہ اپنے اندرونی دکھوں سے لڑنے والا ایک حساس انسان بھی ہیں۔
فردوس جمال سوچتے ہیں کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور یہ اُن کے لیے کتنی مشکل بھری زندگی رہی ہے۔ ایک فن کار کے طور پر اپنا سفر یاد کرتے ہوئے وہ اس بات کا دکھ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کے ساتھیوں اور مداحوں نے اُن کی محنت اور فن کی وہ قدر نہیں کی، جس کی اُنھیں امید تھی۔ اُنھیں ایک خاص لمحہ یاد ہے، جب ایک دفعہ کسی نے سڑک پر اُنھیں پہچانا، مگر ایک دوسرے شخص نے لوگوں کو اُن کی تعریف سے روکا کہ کہیں اُن کی تعریف اُنھیں مغرور نہ بنا دے۔ یہ لمحہ اُن کے لیے انتہائی تکلیف دِہ تھا اور اُن کی زندگی کا ایک اہم موڑ بن گیا۔ یہ واقعہ اُنھیں اس حد تک مایوس کرگیا کہ اُنھوں نے پشاور چھوڑ کر لاہور میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیوں کہ اُنھیں ایسا لگا کہ جس شہر اور لوگوں کو اُنھوں نے اپنا سمجھا، اُن سے اُنھیں وہ عزت اور محبت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔
پشاور سے اُن کا تعلق، اُن کی شناخت اور خاندانی ورثے سے جڑا ہوا ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ جذباتی دکھ بھی وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُن کے خاندان نے اُن سے فاصلہ اختیار کیا اور رشتے داروں نے اُن کی والدہ سے کہا کہ وہ اُنھیں گھر آنے سے روکیں۔ اس خوف سے کہ اُن کی فن کارانہ زندگی کا اثر اُن کے بچوں پر برا نہ پڑے۔ یہ سب اُن کے دل میں ایک شدید تنہائی اور انکار کا احساس پیدا کرتے گئے، لیکن اس نے اُن کے ارادوں کو مزید مضبوط کیا کہ وہ اپنی ایک الگ پہچان بنائیں۔
اگرچہ وہ اپنی جائے پیدایش کو دل سے عزیز رکھتے ہیں، مگر پشاور میں ملی یہ مایوسیاں اُن کے دل میں ہمیشہ کے لیے بس گئی ہیں۔ وہ اکثر اُن یادوں سے دوچار ہوتے ہیں، جو خوشی اور درد کا عجیب سا امتزاج لیے ہوتی ہیں۔ اُن کی یہ کہانی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح اُن کی ذاتی زندگی اور اداکاری کا سفر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور اُن کی زندگی میں محبت اور دُکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
فردوس جمال اپنے کیریئر کے سفر اور اس میں پیش آنے والے چیلنجوں کو یاد کرتے ہیں، جہاں اُن کی پاکستان سے بے پناہ محبت اور اپنے فن سے گہرا تعلق نمایاں ہے۔ وہ دل گرفتہ ہو جاتے ہیں، جب لوگ اُن کے پیشے کو حقیر سمجھتے ہیں اور اسے تعلیم پر منفی اثر ڈالنے والا کہتے ہیں۔ یہ باتیں سن کر اُنھیں اپنے آبائی شہر سے بھی مایوسی ہوئی، مگر اِن سب رکاوٹوں کے باوجود، اُن کا وطن کے لیے پیار کبھی کم نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ضرورت پڑی، تو وہ پاکستان کے لیے اپنی جان دینے کو بھی تیار ہیں۔ لاہور اُن کے دل میں ہمیشہ سے خاص مقام رکھتا ہے۔ کیوں کہ یہ وہی شہر ہے جس نے اُنھیں ’’فردوس جمال‘‘ بنایا، اُن کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا اور اُنھیں تخلیقی قوت بخشی۔
فردوس جمال اپنی زندگی کے چند اہم لمحوں کو یاد کرتے ہیں، خاص طور پر جب اُنھیں لیجنڈری اداکار دلیپ کمار سے ملنے کا موقع ملا۔ پشاور میں دلیپ کمار کے سامنے پرفارم کرنے کی دعوت اُن کے لیے کسی خواب سے کم نہ تھی، اور یہ اُن کی زندگی کے اَن مول لمحات میں سے ایک تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی جانب سے دلیپ کمار کے اعزاز میں دیے گئے صدارتی عشائیے میں شرکت کو بھی وہ اپنے کیریئر کے خاص لمحات میں شمار کرتے ہیں۔ یہ ملاقات اُن کے دل میں اداکاری کے فن کے لیے مزید احترام پیدا کرتی ہے اور اُنھیں بڑے فن کاروں کی وراثت سے جوڑتی ہے، اُن کے فنی سفر کو مضبوطی دیتی ہے۔
فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں اور بڑی شخصیات کی جانب سے ملنے والی عزت و محبت اُن کے عزم کو مزید پختہ کرتی ہے کہ وہ پاکستان کے ثقافتی میدان میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔ اُن کا یہ سفر نہ صرف اُن کی شخصیت کو مضبوط بناتا ہے، بل کہ اس سے اُن کی زندگی میں چھپی گہری جذباتی کہانی بھی سامنے آتی ہے ۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔