26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی، تو حکومت کو سکون سے سانس لینا نصیب ہوا۔ اصل حکم ران اور نام زد حکم ران چوں کہ سب ایک صفحے پر تھے، اس لیے عدلیہ کو ہم مشرب بنانا مقصود تھا۔ تاکہ ’’ناپسندیدہ‘‘ ججوں سے جان چھوٹ جائے۔ اُن کا خیال تھا کہ تین ججوں میں سے جونیئر ترین کو منصفِ اعلا بنا کر دو سینئر ترین خود بہ خود ریٹائر ہوجائیں گے، جیسا کہ فوج میں روایت چلی آرہی ہے کہ جونیئر سربراہ بن جاتا ہے، تو سینئر خود بہ خود قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لیتے ہیں۔ عدلیہ میں مگر ایسا نہ ہوا اور دونوں سینئر ججوں نے کام جاری رکھا ہے، بل کہ نو تعینات چیف جسٹس کو عملاً خوش آمدید بھی کہا ہے۔
پچھلے ہفتے فُل کورٹ اجلاس بھی ہوا، جس میں ’’مغضوب جج‘‘ بھی بیرونِ ملک سے آن لائن موجود تھے، جنھوں نے سنیارٹی کے اُصولوں پر چیف جسٹس بننا تھا، مگر نہ جانے حکومت چند فیصلوں سے کیوں کر اتنی گھبرا گئی تھی کہ ایسی آئینی ترمیم منظور کروا بیٹھی، جس کا بہ ظاہر مطلب صرف ایک خاص جج کو چیف جسٹس بننے سے روکنا تھا۔ خوشی، مجبوری، چمک یا دھمکی جو بھی کہیں، حکومت نے نمبر پورے کرلیے اور یوں آئینی ترمیم پاس ہوگئی، تاہم کچھ آئینی ماہرین کا اب بھی خیال ہے کہ اس ترمیم پر کماحقہ عمل درآمد کے لیے ایک اور آئینی ترمیم کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو اگلی مجوزہ آئینی ترمیم بھی چمک کے ساتھ پاس ہوگی، دھمکی کارگر ثابت ہوگی یا پھر کوئی اور طریقہ استعمال کیا جائے گا؟ کیوں کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں حکومت کا ساتھ دینے والوں میں چمک اور دھمکی کے متاثرین کے ساتھ انہونیاں شروع ہوچکی ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے دو سینیٹروں سے دھمکی کے ساتھ ووٹ ڈلوایا گیا۔ اُن میں سے ایک نے تو باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے اپنے ’’مہمانوں‘‘ کے بارے میں بتایا بھی۔ دونوں میں سے ایک نے تو پارٹی کے کہنے پر سینیٹ سے استعفا بھی دیا ہے، جب کہ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ دونوں کو پارٹی سے نکالنے کا عمل بھی شرع ہوچکا ہے۔
اسی طرح باجوڑ سے ایک نو عمر ممبر اسمبلی جس کے بارے میں گمان ہے کہ اُس نے ’’چمک‘‘ (پیسا) سے متاثر ہوکر حکومت کو ووٹ دیا ہے۔ اُس کو بھی علاقے میں شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ عام ووٹر سمجھتے ہیں کہ ہمارے ایم این اے نے ’’لوٹا‘‘ بن کے اچھا نہیں کیا۔
اسی طرح تحریکِ انصاف نے بھی اپنے مشکوک ممبران کو شوکاز نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ جن پر شک تھا کہ دھمکی یا چمک سے مجبور ہوکر وہ ممبران، حکومت کو ووٹ دینے کے لیے تیار تھے۔ اب ان واقعات کی روشنی میں کیا مزید کسی ترمیم کے لیے دھمکی یا چمک کا عمل کارگر ثابت ہوسکتا ہے یا کوئی اور طریقہ آزمایا جائے گا؟
فکر اس لیے نہیں کہ اس معاملے میں ہماری سرکار خود کفیل ہے۔ جمہوریت ویسے تو انسانی سر یعنی ووٹ گننے کا ہی نام ہے، بس وہ کسی بھی طریقے سے پورے کرنے چاہئیں۔ پھر ہماری سیاست اور جمہوریت میں تو یہ بھی مشہور ہے کہ گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے، تو ٹیڑھا کرکے نکالنا پڑتا ہے۔
اس سب کے باجود چوں کہ مَیں ایک جمہوریت پسند شہری ہوں اور شعوری طور پر سمجھتا ہوں کہ قانون سازی پارلیمان ہی کا کام ہے، اگرچہ عموماً اس کے لیے دھمکی اور چمک جیسے حربے استعمال کرکے قانون سازوں نے اپنی ساکھ اور آئینی طاقت کو داغ دار ضرور کیا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ جیب میں ٹکا نہیں اور چلے ہو ولایتی شراب پینے۔ غالبؔ جیسے نابغہ کو بھی اسی لت (شراب) پر طعنے سننے کو ملتے تھے کہ پاس ککھ نہیں اور شراب سے چھٹکارا بھی ان کے لیے ممکن نہیں۔ اس لیے قرض کی مے پیتے تھے۔
تو ہمارے قانوں ساز اداروں کے پاس اپنا اختیار کچھ نہیں۔ بس جوں ہی کہیں اور سے حکم صادر ہوتا ہے، تو سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بہ قولِ اقبالؔ
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
خیر، ترقی پذیر جمہوریتوں میں غیر جمہوری کاموں کو بھی سندِ جموریت عطا کی جاتی ہے۔ فی الحال گزارش یہی ہے کہ آئینی ترمیم جیسے تیسے منظور ہوگئی۔ اب لازم ہے کہ حکومت اور سرکار کم ازکم یک سو ہوکر معاش اور انصاف کے میدان میں بھی کچھ کارکردگی دکھائیں، تاکہ معاشی دلدر بھی دور ہوں اور عوام کو سستا اور فوری انصاف بھی مہیا ہوسکے۔
رہے نام اللہ کا!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔