تاریخ عالم میں کئی ایسے انسان بھی گزرے ہیں جو روٹی کے ایک ٹکڑے کے محتاج رہے لیکن جب قدرت مہربان ہوئی اور قسمت نے یاوری کی، تو تخت شاہی پر متمکن ہوئے۔ زمانہ شاہد ہے کہ بعض اوقات نہایت غریب اور خستہ حال آدمی بھی دولت کی انبار میں کھیلنے لگتا ہے لیکن درحقیقت انسان حب مال اور حب دنیا میں بہت سخت ہے بلکہ بہت جلد اپنے اوقات بھلاتا ہے۔ اُسے تب معلوم ہوتا ہے جب کسی بھی وقت اس سے مال و دولت، تخت و تاج یا عہدہ اور اقتدار چھین لئے جاتے ہیں۔ کیوں کہ دنیا کا یہ مال و متاع عارضی اور ناپائیدار ہے اور انسان کو ایک دن یہ مال و متاع اور زندگی کے یہ کروفر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اس حوالہ سے ہم آج ہم ادارہ لفظونہ کے قارئین سے ایک سچی، دلچسپ اور نصیحت آموز کہانی شیئر کرتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے اپنے ایک وزیر باتدبیر سے تین سوالوں کے جوابات مانگے اور تین دن کی مہلت دے دی۔ بصورت ناکامی وزارت سے برطرفی کے علاوہ اُسے کوئی بھی سزا دی جاسکتی تھی۔
بادشاہ کا پہلا سوال وزیر سے یہ تھا کہ ’’دنیا کی سب سے بڑا سچ اور حقیقت کون سی ہے؟‘‘
دوسرا سوال یہ تھا کہ ’’دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ کونسا ہے؟‘‘
اور تیسرا سوال بادشاہ کا وزیر سے یہ تھا کہ ’’دنیا میں انسان کو سب سے میٹھی اور مرغوب چیز کون سی ہے؟‘‘
سوالات سن کر وزیر نہایت متفکر ہوا اور دربارِ شاہی سے روانہ ہوا۔ گھوڑے پر سوار وہ چلتا رہا کہ ایک کسان کے ہاں پہنچا۔ کسان نے اجنبی (وزیر) کی بطورِ مہمان خوب آؤ بھگت کی۔ کھانا کھانے کے بعد کسان نے وزیر سے آنے کا مقصد پوچھا۔ وزیر نے اپنا مدعا بیان کیا اور کسان کی خدمت میں تینوں سوالات پیش کئے۔ کسان نے کچھ دیر سوچنے کے بعد وزیر کو بالترتیب اس کے تینوں سوالوں کے جوابات دینا شروع کئے، تو وزیر نہایت انہماک سے انہیں سننے لگا۔ کسان نے کہا کہ تمہارے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ ’’دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ کوئی بھی شخص اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے بلکہ قرآنِ کریم میں خالق کائنات کا فرمان بھی ہے کہ ’’ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چھکنا ہے۔‘‘
دوسرے سوال کا جواب کسان نے یہ دیا کہ ’’دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ زندگی اور اس کے کروفر ہیں۔ مطلب یہ کہ یہ چیزیں دائمی نہیں، عارضی ہیں بلکہ ایک دن یہ انسان سے ضرور چھینی جائیں گی۔‘‘
تیسرے سوال کے جواب کی باری آئی، تو کسان نے وزیر سے کہا کہ ’’تمہارا یہ سوال ذرا مشکل ہے جس کے جواب کے لیے تمہیں ایک آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔ وزیر کچھ دیر سوچ میں پڑگیا اور پھر کسان سے کہا کہ ارشاد! کسان نے زمین پر پڑے ہوئے برتن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس برتن میں میرے کتے کے لیے دودھ پڑا ہے، تمہیں اس برتن میں سے دودھ چاٹنا پڑے گا۔ وزیر اُٹھا اور دودھ چاٹنے کے لیے جھکا اور دودھ چاٹنے ہی والا تھا کہ کسان نے اُسے کاندھے سے پکڑ کر اُٹھایا اور کہا کہ بس ہوگیا کہ تم سمجھدار انسان ہو، تمہیں اس سے ضرور تیسرے سوال کا جواب معلوم ہوگیا ہوگا۔ وزیر حیران ہوا اور کسان سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ کسان نے جواب میں کہا کہ ’’دنیا میں سب سے مرغوب اور میٹھی چیز ’’غرض‘‘ ہے جس کو پانے کے لیے بڑے بڑے بادشاہوں، وزیروں اور رئیسوں کو کتے کے چٹ میں سے دودھ چاٹنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔‘‘
وزیر تینوں سوالوں کے جوابات پاکر بہت خوش ہوا اور دربارِ شاہی پہنچ کر تینوں سوالوں کے جوابات بادشاہ کے گوش گزار کئے۔ نہایت صحیح اور شاندار جوابات سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور وزیر کو انعام و اکرام سے نوازا۔
واقعی انسان کو اس دنیا میں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔ جو لوگ حقائق کو سمجھتے ہیں وہ اس آزمائش پر پورا اُترتے ہیں۔
لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اکثر لوگ اس آزمائش میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
اس بارے حضرت علامہ محمد اقبال کا یہ شعر ملاحظہ ہو کہ
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیازمند کیوں نہ عاجزی پہ ناز کرے

………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔