بھلا ہو علی امین گنڈا پور کا جنھوں نے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے کنواں کھود کر جمہوری قوتوں کو یک جا کر دیا۔ سیاست دانوں کو بھی اپنی عزتِ نفس کا خیال آیا اور لیڈرشپ کے ہاتھوں چابی بھرے کھلونوں یا کٹھ پتلیوں کی طرح پارلیمنٹ میں رقص کرنے کی بہ جائے انھیں اپنے تشخص اور اپنے ’’ہونے‘‘ کا احساس ہوا۔
8 ستمبر کے جلسے میں علی امین گنڈا پور کی تقریر سراہے جانے کے قابل نہیں۔ اُنھوں نے اپنی تقریر میں ریاست کو بھی للکارا اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی آنکھیں دکھائیں۔
اس طرح اُنھوں نے اپنی تقریر میں صحافیوں کو بھی خوب لتاڑا اور خواتین کے بارے میں بھی نازیبا زبان استعمال کی۔ اُن کی تقریر پر بانی پی ٹی آئی کو چھوڑ کر باقی ساری قیادت شرم ساری محسوس بھی کر رہی تھی اور اس کا اظہار بھی کر رہی تھی۔ پی ٹی آئی کا ’’سوفٹ امیج‘‘ چیئرمین بیرسٹر گوہر نے پارلیمنٹ کی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافیوں سے باقاعدہ معافی بھی مانگی۔ اُن کے ساتھ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب بھی معافی کے خواست گار ہوئے۔ پی ٹی آئی علی امین گنڈا پور کی تقریر کے بعد بیک فٹ پر تھی۔ پی ٹی آئی کے اندر سے یہ آوازیں اُٹھ رہی تھیں کہ علی امین جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنے جارحانہ انداز سے ورکرز کا اعتماد جیت کر بانی پی ٹی آئی کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ پی ٹی آئی کے خلاف پروپیگنڈا کرکے عوام کی ہم دردیاں حاصل کرتیں، مگر اس نے سخت ردِ عمل دے کر پی ٹی آئی کو مظلوم بنا دیا۔
علی امین گنڈا پور سے طاقت وروں نے للکارنے کا حساب فوراً ہی لے لیا۔ اُن کے ساتھ دیگر قیادت کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوگیا۔ اس کے بعد صبر اور سکون کے ساتھ اگلا قدم اُٹھانا چاہیے تھا، مگر تحمل کا مظاہرہ نہ کیا گیا اور پی ٹی آئی کے ایم این ایز کی گرفتاریاں شروع کر دی گئیں۔
یہاں تک بھی بات قابلِ قبول تھی، لیکن معاملہ اس وقت زیادہ گمبھیر صورت اختیار کرگیا جب پارلیمنٹ کے اندر سے پی ٹی آئی کے دس ایم این ایز کو گرفتار کیا گیا۔
کسی بھی ایم این اے کا یہ استحقاق ہوتا ہے کہ اس کی گرفتاری سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی سے اجازت لی جائے۔ یہاں تو معاملہ بہت آگے بڑھ گیا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی ’’سلطنت‘‘ پر پولیس نے شب خون مارا تھا۔ قائم مقام جنرل سیکریٹری پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے چھوٹتے ہی اُن گرفتاریوں پر سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق پر سہولت کاری کا الزام لگا دیا۔ اگلے روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایم این ایز کی گرفتاریوں پر پی ٹی آئی ارکانِ اسمبلی نے ہنگامہ برپا کر دیا اور خوب دل کی بھڑاس نکالی۔
جواب میں حکومتی بنچوں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دے کر ایوان کا ماحول خراب کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جناب خواجہ آصف کی اس بات نے سوچ کے کئی دروازے کھول دیے کہ یہ سب کچھ علی امین گنڈا پور کی تقریر کے ردِ عمل میں ہوا ہے۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر سے ہونے والی گرفتاریوں سے وزیرِ داخلہ، وزیرِ اعظم اور سپیکر اسمبلی بھی لاعلم تھے۔ پولیس کے ساتھ گرفتاری میں حصہ لینے والے نقاب پوشوں پر بھی سوالیہ نشانات اُٹھنے لگے اور تب پارلیمنٹیرین کو احساس ہوا کہ یہ سب بہت غلط ہوا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہو کر کسی ’’اور‘‘ کو مضبوط کر رہے ہیں۔ روبوٹ کی طرح لیڈرشپ کے اشاروں پر چلتے ہوئے وہ اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کا تشخص برقرار رہا ہے نہ عزتِ نفس۔
سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے ایک منجھے ہوئے پارلیمنٹیرین اور کسٹوڈین آف دی ہاؤس کا کردار بہ خوبی نبھاتے ہوئے پارلیمنٹ کی حدود سے گرفتار ہونے والے ایم این ایز کی فوری رہائی کا حکم دے دیا، تاہم اس موقع پر انھوں نے پی ٹی آئی دور میں سپیکر اسمبلی جناب اسد قیصر کے کردار کا حوالہ دینا ضروری سمجھا، جنھوں نے پابندِ سلاسل میاں شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، خواجہ آصف اور دیگر کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جناب ایاز صادق نے واقعے کے ذمے دار سرکاری افسران اور ملازمین کو بھی فوری معطل کر دیا۔ اُنھوں نے ہی پارلیمنٹیرین کو یہ تجویز دی کہ لیڈرشپ چاہے آپس میں مل کر بیٹھے یا نہ بیٹھے، لیکن آپ پارلیمنٹیرینز تو اس چھت کے نتیجے اس پارلیمنٹ کے تقدس کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔
اُنھوں نے پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کو چارٹر آف پارلیمنٹ کی تجویز پیش کی، جسے تمام پارٹیوں نے کھلے دل سے تسلیم کرلیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس تجویز کو سراہتے ہوئے اس کی بھرپور حمایت کر دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پارلیمنٹ کا ماحول یک سر تبدیل ہوگیا۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی تک لے جانے والے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آنے والے سیاست دان باہم شیر و شکر ہوگئے۔ ایک 18 رُکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے، جو چارٹر آف پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط طے کرے گی۔
گذشتہ کچھ عرصے سے سیاسی درجۂ حرارت انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ سیاسی حبس نے گھٹن کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔ ایسے میں چارٹر آف پارلیمنٹ پر تمام سیاسی جماعتوں کا ایک صفحے پر آ جانا سیاسی حبس میں تازہ ہوا کا جھونک قرار دیا جا رہا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالا سیاسی لیڈرشپ اور پارلیمنٹیرینز کے ارادوں کو استحکام بخشے اور چارٹر آف ڈیمو کریسی کی طرح چارٹر آف پارلیمنٹ بھی سیاسی استحکام کے لیے مددگار ثابت ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔