محترم فضل رازق شہابؔ صاحب نے اپنی ایک تحریر میں مینگورہ کے مختلف چوکوں کا ذکر مع وجۂ تسمیہ کیا تھا۔ مذکورہ تحریر میں گلشن چوک کا ذکر بھی تھا۔ ٹھیک اسی روز سے میری جستجو تھی کہ ماضی میں یہاں پر قائم ’’گلشن ٹریولز‘‘ کے حوالے سے کچھ نہ کچھ معلومات حاصل کرکے قارئین کے ساتھ شریک کرلوں۔ اسی دوران میں فضل مولا زاہدؔ صاحب (جنھیں استاد محترم راہیؔ صاحب سوات کے ’’مشتاق احمد یوسفی‘‘ مانتے ہیں) کے توسط سے انور حیات صاحب سے راہ و رسم بڑھی۔ گذشتہ دنوں اسلامپور سے واپسی پر’’گلشن ٹریولز‘‘ کے حوالے سے انور حیات صاحب سے تبادلۂ خیال ہوا جو نذرِ قارئین ہے۔
’’1952ء میں جب میرے والد بخت مند مدین سے کالام معدنیات کی تلاش میں گئے، تو انھیں یہ علاقہ بے حد پسند آیا۔ انھیں خیال آیا کہ اگر اس علاقہ میں سیاحت کو ترقی دی جائے، تو دنیا جہان کے لوگ یہاں امنڈ آئیں گے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مدین سے آگے سڑک نہیں تھی۔ پھر سنہ ساٹھ اور اکسٹھ کے ادوار میں بحرین اور کالام تک سڑک بچھ گئی۔ راستے میں پی ٹی ڈی سی موٹل، ہٹس اور چھوٹی بڑی قیام گاہیں تعمیر ہوگئیں اور یوں سیاحوں کو ایک زبردست سیاحتی مقام دیکھنے کا موقع ہاتھ آگیا۔ ان ادوار میں داداجی ’’گلشن‘‘ کے مشورے کے مطابق ’’گلشن ٹریولز‘‘ کے نام سے ایک ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا، جس میں میرے والد بزرگوار نے سرِ دست رینٹ اے کار سروس کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاحت کو ترقی دینے کے لیے ایک اور قدم یہ اٹھایا گیا کہ جو سیاح (اندرون ملک و بیرون ملک) آتے تھے،ان کے لیے ٹوورز ارینج کئے جاتے تھے ۔اس کے علاوہ پی آئی اے کا جنرل سیل ایجنٹ (جی ایس اے) ’’ائیر ٹکٹ انگ‘‘ کے لئے بھی ہمیں مل گیا، ہماری اس کامیابی میں والئی سوات نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ ان دنوں فورڈ ٹوورسٹ ویگن گاڑی یہاں سے کالام تک جاتی تھی، یہ سفر ’’راؤنڈ ٹرپ‘‘ ہوا کرتا تھا (یعنی مینگورہ سے کالام اور کالام سے واپس مینگورہ)۔ کرایہ دس روپے فی سواری ہوا کرتا تھا۔ مذکورہ کرایہ میں اس وقت کی مناسبت سے ہلکا پھلکا ناشتہ بھی ملا کرتا تھا۔ ’’نثار ہوٹل مدین‘‘ میں گاڑی رکتی تھی اور تمام سواریوں کی تواضع کوک (Coka Cola) یا چائے سے کی جاتی تھی۔ صبح نو بجے گاڑی کالام روانہ ہوتی تھی، دو گھنٹے میں کالام پہنچ جایا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ موٹر کار کی سروس بھی دست یاب تھی، جو مینگورہ سے کالام تک ہوا کرتی تھی۔ کالام سے آگے اگر کوئی مہوڈنڈ جانا چاہتا، تو وہاں تک بھی جایا کرتی تھی اور کالام میں الگ سی موٹر کار سروس بھی اس مقصد کے حصول کے لیے دست یاب تھی۔ آپ ریاستی دور میں سیاحت کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مہوڈنڈ میں آج سے پچاس پچپن سال پہلے ٹیلی فون کی سہولت میسر تھی۔ مذکورہ ٹرپ میں سائٹ سینگ (Site seeing)کا موقع بھی دست یاب تھا۔ گاڑی گلی باغ کے پرفضا مقام پر رک جایا کرتی تھی۔ مدین کے مقام پر خور و نوش کا پروگرام ہوا کرتا تھا، اس کے علاوہ اگر راستے میں کوئی آبشار، دریاؤں کا سنگم یا اس قبیل کوئی اور خاص مقام آتا، تو گاڑی روک دی جاتی۔ اس طرح سہ پہر ذکر شدہ تمام تر سرگرمیوں کے باوجود شام کو بروقت گاڑی واپس بھی پہنچ جایا کرتی تھی۔
برسبیل تذکرہ، ایک دن سویٹزر لینڈ سے ایک خاتون کی کال آئی کہ میں کالام دیکھنا چاہتی ہوں۔ سوئے اتفاق سے اس روز کوئی اور سواری نہ مل سکی۔ گاڑی صرف اس ایک غیر ملکی خاتون کو لے کر کالام نکل پڑی اور واپس بھی ہوئی۔ واپس جاتے سمے اس کے ریمارکس بہت اچھے تھے اور وہ بار بار شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتی کہ ایک اکیلی سواری کے لئے پورے عملے کو تکلیف اٹھانا پڑی۔ وہ گلشن ٹریولز کے اس عمل کو پروفشنل ازم سے تشبیہ دے رہی تھی۔‘‘
میں نے بیچ میں سے سوال داغ دیا کہ سنہ ساٹھ کے ادوار میں چوں کہ آج جیسے برق رفتار ذرائع مواصلات نہیں تھے، تو اس دور میں گلشن ٹریولز یا سوات کی تشہیر کیسے ہوا کرتی تھی؟ جواباً کہنے لگے کہ ’’سوات کی تشہیر اور اس کی خوبصورتی کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے ریاست سوات دور کے مختلف شعبہ ہائے سیاحت ہی کافی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ادوار میں سیاحوں کا یہاں تانتا بندھا رہتا تھا۔ جو بھی یہاں ایک بار آتا تھا، وہ واپس جاکر یہاں کے قصے کہانیاں سناتا تھا۔ سیاح ریاست سوات کا چلتا پھرتا اشتہار ہوا کرتے تھے۔ دراصل ان ادوار میں سیاح افغانستان آیا کرتے تھے، وہاں سے تورخم کے راستے وہ پشاور کا رُخ کرتے اور آخر میں سوات میں پڑاؤ ڈالتے۔سوات دیکھنے کے بعد ہی سیاح چین یا ہندوستان کے لئے رخت سفر باندھتے۔‘‘
واپس گلشن ٹریولز کی طرف آتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’گلشن ٹریولز کا مین آفس گلشن چوک میں ہوا کرتا تھا۔ ان ادوار میں جاپانی گاڑیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ تمام گاڑیاں امریکہ یا انگلستان کی تیار شدہ ہوتی تھیں۔انھی گاڑیوں میں سے ایک بس میں ہم دس سال تک اسکول بھی جاتے رہے ہیں۔ ’’پبلک اسکول سنگوٹہ‘‘ جو ایک مشنری اسکول ہے۔ اس دور (سنہ انیس سو پینسٹھ عیسوی) میں اس ادارے میں بیس بچے زیر تعلیم تھے۔ اول اول لوگوں میں یہ بات عام تھی کہ یہ ایک مشنری اسکول ہے اور یہ بچوں کو عیسائیت کی ترغیب دینے کی غرض سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے سال یہاں محض بیس بچے ہی داخل ہوسکے۔ سنہ انیس سو چھیاسٹھ میری پیدائش ہے۔ پھر جب مجھے وہاں داخلہ ملا، تو اس وقت اسکول کے لئے گلشن ٹریولز ہی کی ایک سروس فعال تھی۔ اس بس کا نام ’’انٹرنیشنل‘‘ تھا جس کے دروازے باقاعدہ طور پر ایک بٹن کے ذریعے ’’لاک‘‘ ہوا کرتے تھے اور یہ بٹن ڈرائیور کی نشست کے ساتھ ہی ہوا کرتا تھا۔ کنڑول ڈرائیور کا ہوا کرتا تھا، وہ جب دروازوں کو اس مخصوص بٹن کے ذریعے لاک کرتا، تو پھر کوئی اسے مینولی نہیں کھول سکتا تھا۔ میں نے سنا ہے کہ گلشن ٹریولز سے پہلے مینگورہ ہی کے کسی رہائشی کی سروس تھی ، مگر وہ بمشکل چار پانچ ماہ ہی چل سکی تھی۔ پھر جب ہماری سروس اسکول کے لئے ختم کر دی گئی، تو لوگوں کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ وہ کال کیا کرتے اور کہتے کہ ہم نے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہے، کونسی سروس اس مقصد کے حصول کے لیے بہتر رہے گی؟ نہ صرف ڈاکٹر کبیر، ڈاکٹر نجیب اور ڈاکٹر روشن ہلال جیسی شخصیات کے بچے ’’گلشن ٹریولز‘‘ کی مہیا کردہ سروس کے ذریعے پبلک اسکول سنگوٹہ جایا کرتے تھے بلکہ ان کے علاوہ سوات کے جتنے مشہور لوگ ہیں، انھیں بھی مذکورہ سروس پر اعتماد تھا۔اس وقت میرے دوستوں میں سے ایک عاصم آفندی جو کہ آج کل ڈان گروپ آف میڈیا میں مارکیٹنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، سوات کے مشہور صراف غلام غوث کے جگر گوشے امجد علی غوث، مینگورہ کے رہائشی داؤد خان جو کہ اسکول ٹیچر ہیں، ان کے علاوہ رحیم شاہ لا لا اور باچا لالا کے بچے بھی مذکورہ سروس سے مستفید ہوتے تھے۔‘‘
کہتے ہیں کہ کالام کے علاوہ گلشن ٹریولز کی مرغزار کے لئے بھی ایک سروس تھی جس کا کرایہ دو روپے (راونڈ ٹرپ) ہوا کرتا تھا۔ یہ سفرچوں کہ دس بارہ کلومیٹر تھا، اس لئے اس میں ادارے کی طرف سے خور و نوش کا کوئی پروگرام نہیں ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک سروس میاندم کے لئے بھی مختص تھی اور ملم جبہ تک سروس کبھی کبھار ہوا کرتی تھی۔پھر ادغام کے بعد سڑکوں کی مرمت و بحالی کی طرف توجہ نہیں دی جاتی تھی، جس کی وجہ سے سڑکوں نے کھنڈرات کی شکل اختیار کرلی۔ نتیجتاً گلشن ٹریولز نے اپنی تمام سروسیں سنہ 1975-76ء میں مجبوراً چھوڑ دیں۔
کہتے ہیں کہ جب بھی والئی سوات گلشن چوک سے گزرتے، تو دیگر لوگوں کی طرح میرے دادا گلشن بھی راستے میں دست بستہ کھڑے ہوتے، والی صاحب گاڑی روک کر میرے دادا کا حوصلہ بڑھاتے اور کہتے کہ آپ لوگ اچھا کام کر رہے ہیں، اسے جاری رکھیے۔ والی صاحب یہ بھی کہتے کہ اگر آپ لوگوں کو ریاست کی طرف سے کسی قسم کا تعاون درکار ہو، تو بتایا کریں۔ انور حیات کے بقول ان ادوار میں صرف والئی سوات گاڑیاں درآمد کرتے تھے۔ جب کسی گاڑی سے ان کا جی بھر جاتا، تو وہ گلشن ٹریولز کی انتظامیہ کو کال کرتے اور کہتے کہ اگر گاڑی درکار ہو، تو ہم نیلام کرنے جا رہے ہیں، آپ نیلامی سے پہلے اپنے لیے پسند کیجیے۔
کہتے ہیں کہ ان ادوار میں فلک سیر ہوٹل کالام میں قائم تھا۔ یہ ہمیں والئی سوات نے پانچ ہزار روپیہ سالانہ کے عوض لیز (Lease) پر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ آپ پچاس روپیہ سے زیادہ کسی کمرے کا کرایہ وصول نہیں کریں گے۔ چوں کہ اس کے سامنے فلک سیر کی چوٹی قائم ہے، اس لیے ہوٹل کو اسی نام سے موسوم کیا گیا۔ اس وقت کالام میں صحیح معنوں میں بس یہی ایک ہوٹل تھا۔ اگر کسی وی آئی پی کے ساتھ کوئی خادم، ڈرائیور وغیرہ آتا، تو پھر کالام بازار میں قائم خالد ہوٹل میں وہ قیام پذیر ہوتا۔ مذکورہ ہوٹل کو چلانے کی خاطر ہم نے خانساماں، بیرہ اور دیگر خدام کو پنجاب سے بلوایا تھا، کیوں کہ ریاستی دور میں یہاں خانساماں یا دیگر عملہ اتنا پروفیشنل نہیں تھا۔
نشست کے آخر میں، مَیں نے ان سے کہا کہ پچپن سال پہلے جب یہاں اتنی سہولیات میسر نہیں تھیں، سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، اس وقت ریاست سوات مرجع خلائق تھی اور آج ایک ضلعے کی حیثیت سے سیاح یہاں آنے سے کتراتے ہیں۔ تبدیلی والی سرکار کو ایسا کیا کرنا چاہیے کہ سیاح ایک بار پھر امنڈ آئیں؟ جواباً کہنے لگے کہ وادیٔ سوات میں آج بھی اتنا دم ہے کہ یہ نہ صرف سوات بلکہ پورے ملک کی معیشت کا پہیہ گھمانے کی طاقت رکھتی ہے، مگر اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت کو یہاں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ اس علاقہ کو مری کی طرح لوڈشیڈنگ سے مستثنا قرار دینا ہوگا۔ یہاں کی سڑکوں کو از سر نو بحال کرنا ہوگا۔ یہاں کے دریا اور ندیوں کو آلودہ کرنے والے عوامل کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ کالام سے لے کر مینگورہ تک جتنے بھی لوگوں نے گٹر کا پانی سیدھا دریا میں ڈالنے کا جرم کیا ہے، ان کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ اس طرح سیاحت کے حوالے سے سیدوشریف ائیرپورٹ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے، اسے عام عوام کے لیے جلد از جلد کھولنا ہوگا۔ یہ چند اقدامات کرنے سے وادیٔ سوات ایک بار پھر مرجع خلائق ہوسکتی ہے۔
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔