اکیلے جنرل فیض حمید کیوں؟

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

گذشتہ دنوں پاکستان کے اندر بہت زیادہ سیاسی و انتظامی ہلچل ہوئی اور اب تک میڈیا اس خبر کو لے کر دن رات پروگرام کیے جا رہا ہے۔ خبر یہ ہے کہ پاکستان فوج کے ایک جنرل جو کہ آئی ایس آئی کے سربراہ بھی رہے، کو گرفتار کر لیا گیا اور اُن کے کورٹ مارشل کا اعلان کیا گیا۔
کچھ لوگ تو اس کو ایک معجزہ قرار دے رہے ہیں کہ پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں فوج انتہائی مضبوط محکمہ ہے، اور کئی دفعہ فوج اس ملک میں بہ راہِ راست حکومت پر قبضہ کرچکی ہے اور کبھی فوج سے وابستہ کسی اہم شخصیت کو نہ اس طرح گرفتار کیا گیا، نہ کورٹ مارشل ہوا۔ گو کہ یہ بات غلط ہے۔ اس سے پہلے بھی فوج کے اندرونی نظام کے تحت احتساب ہوتا رہا اور فوج کے کچھ اعلا افسران کو انتہائی سخت سزائیں بھی ہوئیں، لیکن جنرل فیض حمید کے حوالے سے اس خبر کو اس وجہ سے زیادہ اہمیت مل رہی ہے کہ صحافتی حلقے اس کی کڑیاں 9 مئی کے واقعے سے ملا رہے ہیں۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سانحہ 9 مئی کوئی وقتی یا جذباتی نوجوانوں کا عمل نہ تھا، بل کہ اس کی باقاعدہ پلاننگ کی گئی اور اس میں نہ صرف ایک بہت بڑی سیاسی جماعت بہ راہِ راست ملوث تھی، بل کہ فوج کے کچھ حاضر اور کچھ سبک دوش افسران بھی شامل تھے۔ اس حد تک بھی خبریں ہیں کہ اس میں کچھ غیر ملکی طاقتیں بھی بہ طورِ سہولت کار ملوث تھیں۔ اس طرح خبر یہ بھی ہے کہ اس تمام واقعے کا ماسٹر مائنڈ جنرل فیض حمید تھا اور اُس کا مقصد نہ صرف موجودہ حکومت کو ختم کرنا تھا، بل کہ فوج کے اندر سے بغاوت برپا کرنی تھی۔
ہم نہیں جانتے کہ ان خبروں میں کس حد تک صداقت ہے؟ لیکن اگر ایسا ہی ہوا ہے، تو بے شک یہ بہت خطرناک پروگرام تھا کہ جس کے نتیجے میں ملک کی سلامتی کو بہت زیادہ نقصان ہو سکتا تھا۔ اندرونی طور پر انارکی اس حد تک بڑھ سکتی تھی کہ خدا نہ خواستہ تمام ملکی ادارے رک جاتے۔ حکومتی ایوانوں میں جمود آجاتا اور جس طرح کا منقسم ہمارا معاشرہ ہے کہ جہاں ایسے ایسے گروپس ہیں کہ جو لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر گولیاں مارتے ہیں، وہاں انارکی بے شک اس لیول تک جاسکتی تھی کہ ملک سول وار کا شکار ہوجاتا…… اور جب ملک کے اندر سول وار شروع ہوجاتی، تو اِس وقت آپ کے مشرق میں بھارت موجود ہے کہ جس کی قیادت نرندر مودی جیسے رجعت پسند اور بنیاد پرست ہندو کے پاس ہے۔ جو پاکستان کے وجود ہی کے منکر ہیں۔ اس طرح مغرب میں افغانستان ہے کہ جہاں ایک بہت بڑے حلقے میں وجہ کچھ بھی ہو پاکستان سے نفرت اور کسی حد تک بھارت کے لیے نرم گوشہ ہے۔ سو بے شک سانحہ 9 مئی کا منصوبہ اگر ایسا ہی تھا، تو پھر اس کی مکمل تفتیش اور اس میں ملوث لوگوں کا بے رحم احتساب ہونا چاہیے، خواہ کوئی بھی ہو…… البتہ اس واقعے کی آڑ میں کسی قسم کی سیاسی انجینئرنگ نہ کی جائے اور نہ کسی سیاسی حقیقت کو ختم کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔
ویسے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جنرل فیض حمید کو فی الحال کرپشن کے کسی کیس میں پکڑا گیا ہے، لیکن غالب امکان یہی ہے کہ ان پر سانحہ 9 مئی کے حوالے سے بھی مقدمہ درج کیا جائے گا۔ قطع نظر اس کے ہمارے چند سوال ہیں اور وہ یہ کہ اگر واقعی فوج کی موجودہ قیادت سب سے پہلے اپنے ادارے کی تطہیر کرنا چاہتی ہے اور عوام کے سامنے یہ ثابت کرنی چاہتی ہے، تو پھر یہ احتساب جنرل ایوب خان سے شروع کیا جائے کہ جنھوں نے ملک میں پہلی بار مارشل لا کا نفاذ کیا اور آئین کو ختم کیا۔ یقینا اس حرکت کا منطقی نتیجہ پاکستان ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔
اُس کے بعد دوسرا کورٹ مارشل جنرل آغا یحییٰ خان کا کیا جائے۔ یحییٰ خان کے خلاف تو باقاعدہ سپریم کورٹ نے عاصمہ جیلانی کیس میں فیصلہ بھی دیا ہوا ہے۔ اُس فیصلے میں سپریم کورٹ نے بہت واضح طور پر جنرل یحییٰ کو غاصب اور آئین شکن قرار دیا ہے۔
اُس کے بعد تیسرا کورٹ مارشل جنرل محمد ضیاء الحق کا کیا جائے۔ جنرل ضیا نے بھی ملک میں آئین کو منسوخ کیا اور مارشل لا مسلط کیا۔ سپریم کورٹ نے گو کہ نصرت بھٹو کیس میں اُن کے مارشل لا کو تو قانونی قرار دیا، لیکن ساتھ جلد انتخابات کی بھی ہدایت کی کہ جو نہ تسلیم کی گئی۔
اس کے بعد ابھی ماضیِ قریب میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کہ جو صدرِ پاکستان کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، میں واضح کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو صاف ٹرائل نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے مزید واضح کیا کہ چوں کہ اُس وقت کے آمر کو یہ یقین تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو عوام میں مقبول ترین ہیں اور ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جب بھی غیر جانب دار انتخابات ہوئے بہت اکثریت سے جیت کر آسکتی ہے، اور اگر بھٹو صاحب دوبارہ حکم ران بن جاتے ہیں، تو وہ آمریت کے ذمے داران کے خلاف مقدمہ چلائیں گے۔ اس وجہ سے اُن کو جسمانی طور پر ختم کرنا بہت ضروری ہے۔ اب یہ بات تو درست ہے کہ سپریم کورٹ نے واضح طور پر ضیاء الحق اور اُن کے اُس دور کے ساتھیوں کے خلاف مقدمے کی سفارش نہیں کی، لیکن بہ ہرحال اس فیصلے نے بہت حد تک ضیاء الحق کی زیادتی کو آشکار کردیا۔ سو اس پر ضیاء الحق کا واضح کورٹ مارشل بنتا ہے۔
اس کے بعد ایک اور مقدمہ ہوا تھا، جو ’’اصغر خان کیس‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مقدمہ یہ تھا کہ سنہ 1990ء کا الیکشن مکمل طور پر چوری کیا گیا اور اُس وقت کی آئی ایس آئی کہ جس کی قیادت تب جنرل حمید گل کے پاس تھی، نے نہ صرف محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آئی بنوائی، بل کہ سرکاری فنڈ سے کروڑوں روپے اُس دور کے سیاست دانوں میں بھی بانٹے۔ اُس مقدمے میں نہ صرف سپریم کورٹ نے جرم کو تسلیم کیا، بل کہ دوسروں کے علاوہ کچھ فوجی افسران کہ جن میں تب کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کے خلاف کارروائی کی بھی ہدایت کی، سو اُس مقدمے میں 100 فی صد کورٹ مارشل کی کارروائی جنرل اسلم بیگ، حمید گل اور اسد درانی کے خلاف بنتی ہے۔
اس کے بعد جنرل مشرف نے آئین کو ختم کرکے حکومت پر قبضہ کیا۔ بے شک سنہ 1999ء کے حکومت پر قبضے کے عمل کو اُنھوں نے سپریم کورٹ اور قومی اسمبلی سے غیر اخلاقی طور پر قانونی بنوالیا، لیکن اُن کے دوسرے ایمرجنسی والے آرڈر پر وہ یہ کام نہ کرواسکے اور پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس سیٹھ وقار کا فیصلہ اُن کے خلاف بہت واضح ہے۔ سو اس جرم میں ایک کورٹ مارشل بے شک ان کے خلاف بھی بنتا ہے۔ اس کے علاوہ مَیں درجنوں مثالیں دے سکتا ہوں کہ جہاں کورٹ مارشل کا مطالبہ بہت جائز اور معقول ہے۔ سو موجودہ فوجی قیادت کو کہ جس کے بارے میں عمومی تاثر بہت مثبت ہے، گو کہ الیکشن 2024ء پر بہت سوالات ہیں اور تحریکِ انصاف بہت کھل کر اس میں اسٹیبلشمنٹ کی دخل اندازی کا ذکر کرتی ہے، لیکن بہ ہرحال فوج کی موجودہ قیادت بہت حد تک سیاست سے دور ہے اور جنرل فیض حمید پر کورٹ مارشل کی کارروائی سے ان کے بارے میں عوام میں مزید مثبت سوچ بنی ہے۔ اس لیے ہم ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے چیف آف آرمی سٹاف سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ جرات کا مظاہرہ کریں اور اپنے ان سابقہ چیفوں کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائیوں کا آغاز کریں۔ گو کہ عملاً اب اُن کا کچھ بگڑ نہیں سکتا۔ کیوں کہ وہ تمام اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور ماسوائے جنرل مشرف کی بیگم کے، اُن کی بیگمات بھی اﷲ کے حضور پہنچ چکی ہیں۔ اب وہ یا تو ان کا خاندان فوجی ملازمت کی وجہ سے بہ راہِ راست کوئی فائدہ یا نقصان نہیں اٹھا سکتا، لیکن بہ ہرحال ریکارڈ کی درستی ہوجائے گی۔ تاریخ میں بہتری ہوجائے گی اور زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس کا کریڈٹ فوج اور فوجی قیادت خود لے۔ وگرنہ اس عمل نے اب یا بہ دیر ہونا تو ہے۔ آخر ذوالفقار علی بھٹو کیس بھی تو دہائیوں بعد آیا اور 100 فی صد نہ سہی لیکن بہت حد تک تاریخ کی درستی توہوئی۔ عدلیہ نے خود پر لگا داغ مٹانے کی ایک کوشش ضرور کی۔ اوپر سے اب ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی حکومت کہ جس کی قیادت بہ ہرحال بھٹو کی جماعت کا ایک شدید نظریاتی مخالف کر رہا ہے، نے جناب بھٹو کو نشانِ پاکستان، جو ملک کا اعلا ترین سول تمغا ہے، دینے کا اعلان کیا ہے۔ تو پھر یہ کیسے نہ ہو کہ کسی وقت یہ معاملات دوبارہ زیرِ بحث آجائیں اور سابقہ آئین شکن آمروں کے خلاف کارروائی نہ ہو۔
پھر دنیا میں بھی دیکھیں کہ موسلینی ہو یا ہٹلر، اُن کی قوم نے اُن کا احتساب کیا۔ ترکی میں مقدمات بنے اور بنگلہ دیش تو کل کی بات ہے کہ بہت سے فوجی افسران کو عملاً بہت ضعیف المعری میں سزائے موت دی گئی۔ اب فیصلہ تو ہماری اعلا فوجی قیادت خاص کر سپہ سالار نے کرنا ہے، لیکن بہ حیثیت پاکستانی ہماری خواہش ہے کہ ماضی کے جن آمروں نے آئین شکنی کی، ملک کو تباہ برباد کرنے میں حصہ ڈالا، محض ذاتی مفاد اور اقتدار کی ہوس میں قوم کا شدید نقصان کیا، اُن کا احتساب بھی اُن کا اپنا ادارہ یعنی فوج کرے۔
ویسے ایک اور بات کی جانب بھی ہم فوجی قیادت کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ تاریخ کی حقیقتیں کبھی چھپتی نہیں۔ ہم اس کی مثال کوئی واقعۂ کربلا سے نہیں دینا چاہتے، نہ ترکی کے عدنان میڈریس کی اور نہ کسی اور کی کہ جہاں وقت نے، عوام نے اور بالخصوص قادرِ مطلق نے حق و باطل کا فیصلہ کر دیا۔
جناب سپہ سالار! آپ یقینا سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوں گے۔ چند دن ہوئے 17 اگست کا دن گزرا۔ جب سانحۂ بہاولپور ہوا تھا، توسوشل میڈیا پر ایک تصویر بہت وائرل تھی اور اس تصویر میں کیا تھا؟ ایک طرف گڑھی خدا بخش پاکستان کا دور دراز کا ایک پس ماندہ گاؤں، وہاں بنی ایک قبر، جہاں بے شمار انسان ہر وقت آکر صاحبِ قبر کو سلام کرتے ہیں۔ اس کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ دوسری ساتھ لگی تصویر جو دارالحکومت میں موجود ایک بہت بڑی مسجد کے عین قریب ایک قبر کی تھی کہ جس میں لیٹا شخص کہ جس نے گڑھی خدا بخش والے کو قاتل، ظالم، شرابی، زانی حتی کے غیر مسلم مشہور کیا تھا، اور خود کو امیر المومنین، مردِ مومن مردِ حق بنا کر پیش کیا تھا، آج اُس کی قبر ویران پڑی تھی۔ بس دو کتے قبر پر آرام فرما رہے تھے۔ سو یہ ہے قدرت کا انصاف اور تاریخ کا احتساب۔
امید ہے کہ سپہ سالارِ اعلا ہماری ان گزارشات پر غور ضرور کریں گے اور اگر ہمارا اہم ملکی ادارے اور ہمارے سپہ سالارِ اعلا ہماری ان گزارشات پر غور نہیں کرتے، تو بہ ہرحال تاریخ کا بے رحم احتساب رکتا ہے اور نہ حقیقتیں ہماری خواہشات پر بدلتی ہی ہیں۔
سو سر پلیز! مکمل انصاف مطلوب ہے۔ مرضی کا ’’سلیکٹیڈ‘‘ انصاف نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے