بنگلہ دیش سے سیکھے جانے والے اسباق

Blogger Syed Fayaz Hussain Gailani

گذشتہ دنوں بین الاقوامی سطح پر ایک اور ذبردست پیش رفت ہوئی اور وہ یہ کہ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد مستعفی ہوکر بھارت چلی گئی۔ اس کی وجہ نوجوانوں اور طلبہ کی وہ تحریک بنی کہ جو اُنھوں نے کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع کی تھی۔ کیوں کہ جب سے شیخ حسینہ اقتدار میں آئی تھیں، تب سے ’’بنگلہ بندو‘‘ کا نعرہ بنگلہ دیش کے طول عرض میں تواتر سے گونجنا شروع ہو گیا تھا۔ چوں کہ سنہ 1971ء کے سانحۂ مشرقی پاکستان کی بنیاد ہی اسی فلسفہ پر تھی، اور شیخ حسینہ کے والد اور بانیِ بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان نے ’’بنگلہ بندو‘‘ یعنی ’’بنگالی بھائی بھائی‘‘ ہی کو اپنا سلوگن بنایا تھا، سو اس وجہ سے شیخ حسینہ نے آتے ہی نہ صرف سنہ 71ء میں جو عناصر پاکستان کی تقسیم کے خلاف تھے، اُن کے خلاف شدید انتظامی، بل کہ بہ قول کچھ اشخاص، انتقامی عملیات کرنا شروع کر دیے۔ خاص کر اُس دور کے کچھ فوجی افسران اور سیاست دان، خصوصاٌ جماعت اسلامی کے ذمے داران کے خلاف سخت کارروائیاں کیں۔ دنیا کے کسی مہذب ملک میں 70 سال کے ضعیف شخص کو، چاہے اس کا جرم کچھ بھی ہو، سزائے موت نہیں دی جاتی، لیکن بنگلہ دیش میں 92 سالہ اشخاص تک کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔
جہاں حسینہ حکومت نے سنہ 71ء میں شیخ مجیب خصوصاً پاکستان کی تقسیم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کیا، وہاں اُس دور میں جو شیخ مجیب الرحمان کے حمایتی تھے، خاص کر مکتی باہنی کے پُرجوش کارکن، اُن کو ہر طریقے سے فائدہ دینا شروع کر دیا۔ اَب شاید اُن لوگوں کی تیسری نسل آچکی ہے، لیکن حسینہ حکومت تمام سرکاری نوکریوں میں اُن کو ترجیح دیتی تھی۔
اَب سوال کیا جاتا ہے کہ اس تحریک کی ابتدا کیسے ہوئی؟ تو معاملہ یہ ہوا کہ جب مکتی باہنی کے کارکنان کے پوتوں پوتیوں کے لیے زیادہ کوٹہ رکھا گیا اور اس کی آڑ میں عوامی لیگ کے راہ نماؤں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے کارکنوں کو فائدہ دینا شروع کردیا، جس پر نوجوانوں نے احتجاج کرتے ہوئے اس کو مسترد کر دیا اور ملک میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی، تو حسینہ حکومت نے بہ جائے اُن کو مطمئن کرنے کے، بہ جائے سیاسی مذکرات کرنے کے، اُن مظاہروں کو انتظامی طاقت سے کچلنے کی کوشش کی اور مظاہرین کو طنزاً ’’رجاکار‘‘ یعنی رضاکار کَہ کر مسترد کر دیا۔ یاد رہے کہ ’’رضا کار‘‘ کا لفظ سنہ 71ء میں عوامی لیگ اُن اشخاص بارے استعمال کرتی تھی جو بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف تھے۔ زیادہ تر ’’البدر‘‘ اور ’’الشمس‘‘ کہ جو جماعت اسلامی کی تخلیق کردہ تنظیمیں تھیں کے کارکنان کو کہتے تھے۔مذکورہ لوگ پاکستان فوج کے رضا کار کہلائے جاتے تھے اور ’’بنگلہ بندو‘‘ دشمن۔ دوسرے لفظوں میں ’’رضاکار‘‘ کا لفظ وہ بہ طور غدار استعمال کرتے تھے۔ بس شیخ حسینہ کے منھ سے جب یہ الفاظ نکلے، تو اس سے پورے بنگلہ دیش کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں آگ لگ گئی۔ تقریباً ہر سیاسی سوچ کے طلبہ ’’ہمی کہ تمہی کہ رجاکار رجاکار‘‘ مطلب ’’ہم بھی اور تم بھی کون رضاکار رضاکار‘‘ کا نعرہ لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس تحریک کو دبانے میں حسینہ حکومت جتنا انتظامی کریک ڈاؤن کرتی جاتی، یہ تحریک اتنا ہی شدید ہوتی جاتی۔
سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ اس کی قیادت یونیورسٹی کے بچوں کے ہاتھ تھی۔ کیوں کہ حسینہ حکومت نے اپنے خلاف تمام سیاسی قیادت کو کچلا ہوا تھا۔ سب سے بڑی حزبِ اختلاف کی قائد اور سابق وزیرِ اعظم خالدہ ضیا تو سالوں سے جیل میں تھیں۔ بہ ہرحال اس تحریک میں اس حد تک شدت آئی کہ طلبہ تنظیموں نے ’’مارچ ٹو ڈھاکہ‘‘ کی کال دے دی اور یہ اعلان کر دیا کہ وہ ڈھاکہ جاکر وزیرِ اعظم ہاؤس پر دھاوا بول دیں گے اور پھر نتائج کی ذمے دار شیخ حسینہ خود ہوگی۔ شیخ حسینہ نے اس مارچ کو روکنے کے لیے نہ صرف پولیس کو تمام اختیارات دے دیے، بل کہ فوج کو بھی طلب کرلیا گیا اور وزیرِ اعظم دفترسے یہ سرکاری طور پر حکم جاری ہوا کہ مارچ کے شرکا سے سختی سے نمٹا جائے۔
اسی دوران میں ایک اور ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوا کہ جس نے حسینہ حکومت کے خلاف نفرت میں بے تحاشا اضافہ کیا اور یہ واقعہ تھا ابو سعید کا۔ جب پولیس نے ڈھاکہ احتجاج میں آگے بڑھنے والے کو گولی مارنے کی دھمکی دی، تو ابو سعید بازوں پھیلا کر چٹان کی طرح کھڑا ہوگیا اور چیخ کر کہا: ’’ہمت ہے، تو چلاؤ گولی!‘‘ اور پولیس نے اُس کو گولی مار دی، جو اس کے کندھے پر لگی۔ ابو سعید گرا اور دوبارہ کھڑا ہوگیا اور پوری جرات سے پولیس کو دوبارہ چیلنج کیا اور پولیس نے دوبارہ اس پر گولی چلا دی، جو اس کا سینہ چیر گئی۔ یوں وہ نوجوان وہی ڈھیر ہوگیا۔ اس واقعے نے ڈھاکہ مارچ کی کال میں ایک نئی روح پھونک دی اور تمام بنگلہ دیش ’’رنگ پور‘‘ سے ’’سلہٹ‘‘ تک کے نوجوان ڈھاکہ کی طرف چلنا شروع ہوگئے۔ سب کی طرف سے ایک ہی مشترکہ نعرہ تھا کہ ’’لوئی لوئی ہمی کہ تمی کہ رجاکار رجاکار‘‘ یعنی ’’اب لڑائی ہوگی بس لڑائی۔ اب ہم اور تم سب رضاکار ہیں۔‘‘
انتظامیہ بے شک اس مارچ کو روکنے میں ناکام تھی۔ قریب 300 لوگ اس تحریک میں مرچکے تھے۔ مارچ کے شرکا اب کچھ سننا چاہتے تھے اور نہ ماننا، اُن کا بس ایک ہی مطالبہ تھا کہ اب ہم نہیں یا شیخ حسینہ نہیں۔ تمام انٹیلی جنس رپورٹوں کے بعد فوج کی قیادت نے شیخ حسینہ پر واضح کر دیا کہ اب اس عوامی سمندر کو روکنا ممکن نہیں۔ آپ کوشش کریں اور اس کا کوئی سیاسی حل نکالیں، شرکا سے بات چیت کرلیں۔
لیکن تب تک شاید بہت دیر ہوچکی تھی اور پھر تحریک میں شرکا کی تعداد اور جوش اُن میں اعتماد لاچکا تھا۔ بالآخر فوج کے سربراہ جناب وقار الحسن نے جو کہ شیخ حسینہ کے قریبی رشتہ دار بھی کہے جاتے ہیں، یعنی موصولہ اطلاعات کے مطابق اُن کی ایک رشتے کی کزن کے شوہر ہیں، نے وزیرِ اعظم کو باقاعدہ فون کرکے یہ اطلاع دی کہ اب معاملات کو انتظامی طریقے یا طاقت سے سنبھالنا یا کنٹرول کرنا ممکن نہیں اور اُن کو مستعفی ہونا ہی پڑے گا۔
مگر شیخ حسینہ نے انکار کر دیا اور مظاہرین کو سختی سے کچلنے کا حکم دیا۔ ظاہر ہے کہ اَب فوج نے باقاعدہ وزیرِ اعظم ہاوس کو یہ اطلاع دے دی تھی کہ وہ مزید کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔
ویسے کچھ باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ اس کے بعد آرمی چیف کی بیگم نے چیف صاحب سے درخواست کی کہ اُن کی کزن کو اپنی بہن کے ساتھ جان بچا کر نکلنے کا موقع دیا جائے۔ اس پر آرمی چیف نے دوبارہ وزیرِ اعظم صاحبہ کو فون کیا اور اُن کو 45 منٹ دیے کہ اب یہی وقت اُن کو مل سکتا ہے۔ اس کے بعد چیف صاحب نے فون اپنی بیگم صاحبہ کو دے دیا، جنھوں نے وزیرِ اعظم کو سمجھایا۔ اس کے بعد شاید بیگم صاحبہ ہی نے وزیرِ اعظم کے بیٹے سے رابطہ کیا اور اُن کو بھی حالات کی سنگینی سے مطلع کیا۔
المختصر، کچھ ہی لمحات کے بعد شیخ حسینہ نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور بھارت جانے کا عندیہ دیا۔ اس پر فوری طور پر بھارتی حکومت سے رابطہ کیا گیا اور اُن سے باضابطہ اجازت لی گئی۔ یوں شیخ حسینہ کا طویل اقتدار ختم ہوا۔ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا اور اگلے دو تین دنوں میں مظاہرین کے تجویز کنندہ اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کی قیادت میں ایک عبوری حکومت بن گئی۔ اسی دوران میں انتظامیہ نے اہم ترین حزبِ اختلاف کی قائد اور سابقہ وزیرِ اعظم خالدہ ضیا کو بھی بری کر دیا۔ یوں ایک ایشو پر شروع ہونے والا مظاہرہ ختم ہوا اور نتیجے کے مطابق حکومت بدل گئی۔ مستقل کی جگہ عبوری حکومت بن گئی۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ حکومت عبوری تو ہے، لیکن کب تک چلے گی…… یہ ایک راز ہے۔ مگر ہم اگر اس کو عوامی سطح، بل کہ عمومی طور مسلم دنیا اور خصوصاً پاکستانی عوام کے ایک بڑے طبقے، خاص کر مذہبی جہالت سے مزین ایک گروہ کا موقف دیکھیں، تو اُنھوں نے بنگلہ دیش کی اس پیش رفت کو انقلاب سے تشبیہ دی ہے، بل کہ کچھ لوگوں نے تو اس کو سنہ 71ء کی تقسیم کے خلاف عوامی ردِ عمل تک قرار دے دیا ہے۔
بے شک اس تمام تر پیش رفت کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ جس کو ہماری قوم یک سر نظر انداز کر رہی ہے۔ مذکورہ دوسرے پہلو پر ہم (ان شاء اﷲ) بہت جلد ایک مکمل کالم تحریر کریں گے، لیکن یہاں ہم بہ جائے اس کے اُس پوشیدہ پہلو پر بات کریں، یہ بات بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ شیخ حسینہ نے بہ ذاتِ خود بہت بڑی سیاسی غلطیاں کیں۔ اور یہ بات نوشتۂ دیوار ہے کہ حکومت کا خاتمہ بے شک انقلاب ہو یا سازش، عوامی مطالبہ ہو یا محلاتی طاقتوں کی خواہش، لیکن اس میں موجود حکم رانوں کی غلطیاں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ سو چاہے اور کچھ بھی تھا، لیکن شیخ حسینہ کی اپنی سیاسی غلطیاں بھی اہم تھیں۔ اور اُن غلطیوں کے نتائج ایسے ہی بھیانک ہوتے ہیں۔
شیخ حسینہ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی اُن کا آمرانہ ذہن تھا۔ اُنھوں نے اپنے ہر سیاسی مخالف کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ جب ملک میں حزبِ اختلاف نہ ہو، تو ایک سیاسی خلا ہوتا ہے، اور وہ سیاسی خلا کسی بھی عام سے مسئلہ سے تحریک لے کر بہت نا تجربہ کار اور بالکل نابالغ دماغ پر کرتے ہیں کہ جس کا منطقی نتیجہ کسی ایک فریق کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں یہی ہوا۔ اگر وہاں حزبِ اختلاف ہوتی، تو اُس سے مذکرات کر کے ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے بنا پر ایک بہتر حل نکالا جاسکتا تھا۔
شیخ حسینہ کی دوسری سنگین غلطی یہ تھی کہ اُس نے نیلسن مینڈیلا، بل کہ بینظیر بھٹو والا رویہ بھی اختیار نہ کیا۔ یہ بی بی جوں ہی اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھیں، تو اُنھوں نے 71ء کی نام نہاد تحریکِ آزادی کے مخالفین کی آڑ میں ہر اُس شخص کو کچلنا شروع کر دیا کہ جس نے بے شک نظریاتی طور پر تقسیمِ پاکستان کی مخالفت بہ طور ایک رائے کی ہی کیوں نہ رکھی ہو، شیخ حسینہ نے ایسا تاثر قائم کیا کہ جیسے 71ء میں پاکستان کے تمام حمایتی اُن کے ذاتی دشمن یا اُن کے والد کے قتل میں ملوث ہوں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ شیخ حسینہ نے بہت سے کوارٹروں میں اپنے لیے ذاتی نفرت پیدا کرلی۔
شیخ حسینہ کی تیسری روایتی غلطی اہم اداروں جیسے فوج، بیورو کریسی اور عدلیہ میں من پسند افراد کی تعیناتی کرکے مطمئن ہو جانا تھی۔ یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ ایسے حربے کبھی کام یاب نہیں ہوتے۔
ان کی چوتھی غلطی اندرونِ ملک کی بہ جائے بیرونِ ملک خصوصاً بھارت پر مکمل تکیہ کرنا تھا۔ وہ اس غلط فہمی میں رہیں کہ بھارت اور ’’را‘‘ ہمیشہ ان کے لیے محافظ کا کردار ادا کریں گے۔
اس کے علاوہ بھی اُنھوں نے کچھ غلطیاں کیں جیسے ڈاکٹر یونس جیسے شخص پر مقدمات بناکر اُن کو جَلا وطن ہونے پر مجبور کرناوغیرہ وغیرہ۔
کاش! تیسری دنیا اور خصوصاً پاکستان کے حکم ران ان معاملات سے سبق حاصل کریں اور بہتر قیادت دیں، تاکہ نہ صرف وہ خود کو محفوظ کرلیں، بل کہ ملک کو بھی انارکی سے بچالیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے