جب کورونا وبا کی وجہ سے لگ بھگ ڈیڑھ سال کے لیے گھر میں مقید ہوا، تو مین اسٹریم میڈیا کے مرچ مسالہ لگی افواہوں سے کنارہ کرکے کتب بینی میں پناہ لی۔ ابتدائی طور پر پڑھی گئیں کتب میں سے ایک ملالہ یوسف زئی کی آپ بیتی "I am Malala” تھی، جس نے مایوسی کے اُس دور میں ممکن حد تک ڈھارس بندھائی۔ ایک تو ملالہ کا سفر تحریک انگیز تھا اور دوسرا شانگلہ کے ساتھ اُن کی نسبت بھی دل چسپی کی وجہ بنی رہی۔ ملالہ کی پیدایش سوات کی ہے، لیکن والدین شانگلہ وال ہیں۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے دروازے پر ایک انکل نے کچھ کتابیں سجائی ہوتی ہیں، جن میں ملالہ کی یہ کتاب بھی پڑھی ہوتی ہے۔ چھوٹی بہنوں کے لیے کتب خریدنے کا خیال آتا ہے، لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کس قسم کی کتب خریدنی چاہئیں اور کل خیال آیا کہ بھلا ملالہ کی اس کتاب سے زیادہ مناسب کتاب اور کون سی ہوسکتی ہے !
دیگر مطالعے کے ساتھ ایک مختلف نوعیت کی ہلکی پھلکی کتاب بھی زیرِ مطالعہ رہے، تو ایک خوش گوار احساس ہوتا ہے۔ لہٰذا مَیں انگریزی اور اُردو، نثر اور شاعری، فکشن اور نان فکشن، فلسفہ اور ادب وغیرہ وغیرہ ساتھ ساتھ پڑھتا ہوں۔ کل رسل کی کتاب "Power: A New Social Analysis” کے ساتھ ملالہ کے والد ضیاء الدین یوسف زئی کی کتاب "Let Her Fly: A Father’s Journey” شروع کی، تو رسل کی طاقت بارے نکتہ سرائیاں پیچھے رہ گئیں اور کتاب کے اختتام تک ایک والد کی جگ بیتی پڑھتا رہا، کہ یہ اپنے ہی دیس کے ایک بڑی حد تک ہم خیال والد کی کتھا تھی۔
٭ مصنف کا تعارف:
ضیاء الدین یوسف زئی ایک استاد اور تعلیم اور انسانی حقوق کے علم بردار ہیں۔ سوات اور مضافات میں ٹی ٹی پی کے پیدا کردہ ڈر، تشدد اور مایوسی کے عالم میں لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر شخصی آزادیوں پر قدغنوں کے خلاف مزاحمت کی۔ مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اُن کی یہ تحریک اب بھی جاری ہے۔ کینیڈا کی "Wilfrid Laurier University” نے اُنھیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی ایک اعزازی ڈگری سے نوازا ہے۔
٭ کتاب کا تعارف:
150 صفحات پر مشتمل یہ مختصر کتاب اپنے اندر کئی دلچسپیاں لیے ہوئے ہے۔ سوانحِ حیات میں فراخ دلی سے میٹھے کڑوے سچ لکھنے کی جرأت نہ ہو، تو نہیں لکھنی چاہیے۔ کوئی کسی اپنے منھ میاں مٹھو کو کیوں پڑھے گا۔ مکمل طور پر سچ لکھنا انسانی فطرت کے ساتھ شاید ممکن نہیں، لیکن جس حد تک ممکن ہو اپنی کہانی ویسے ہی لکھنی چاہیے جیسے وہ ہو۔ ضیاء الدین نے اس اُصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے ذاتی زندگی کے کئی پہلوؤں کا تذکرہ کرکے قاری کے سیکھنے کے لیے کافی مواد فراہم کیا ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر 4 ابواب پر مشتمل ہے:
1:۔ پہلے باب میں مصنف نے شانگلہ میں اپنے بچپن کی یادوں، لڑکپن سے جوانی میں قدم رکھتے ہوئے مختلف مسائل اور کامیابیوں، مقامی ثقافت، خاندان اور خاص طور پر اپنے والد کے ساتھ تعلق کے بارے میں لکھا ہے۔ اُن کے والد عالمِ دین، امام مسجد اور پاس کے ایک سکول میں دینیات کے استاد تھے۔ پختون معاشرہ بنیادی طور پر ایک پدر شاہی معاشرہ ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک تو روا رکھا ہی جاتا ہے، لیکن لڑکوں کے ساتھ بھی اتنی نرمی نہیں برتی جاتی جو والد اور بیٹے کے درمیان ایک دوستانہ تعلق کا سبب بن سکے اور بیٹا آپ اپنی زندگی کے فیصلے کرسکے۔ مصنف کو اپنی بہنوں کے مقابلے میں زیادہ توجہ اور تعلیم و دیگر امور کے سلسلے میں امتیازی مواقع تو ملتے رہے، لیکن پھر بھی والد کا برتاؤ کچھ ایسا نہیں تھا جس کو آئیڈیل کہا جاسکے۔ یہ نسلی خلا اور اپنے بچوں کی انفرادی حیثیت سمجھنے کی کوشش نہ کرنے کا لازمی نتیجہ ہے اور ہر بچہ کسی نہ کسی حد تک اس کا سامنا کرتا ہی رہتا ہے۔ کافکا اپنے والد کے نام خط میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں اور کچھ عرصہ قبل اپنی وال پر اس حوالے سے لکھا بھی تھا۔
اپنے ہاں غربت ہے اور والدین نے ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں، دس نمبر دوائیاں بیچ کر کمپنیوں کی طرف سے کمیشنوں اور حج و عمرے کی آفرز، معاشرے میں ڈاکٹر کے سٹیٹس اور پدر شاہیت کے سبب خاندان میں اپنے ڈاکٹر، جس کی بہ دولت کسی نامحرم کو خاندان کی عورتیں دکھانے کے ’’ناقابلِ تلافی گناہ‘‘ سے دور رہا جاسکتا ہے، کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سمجھ لیا ہے کہ معاشی و سماجی موبیلیٹی کا واحد ذریعہ ہر حال میں اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانا ہے، چاہے اُس بیٹے کی دور دور تک ایسی کوئی دل چسپی نہ ہو۔ اس جہالت کے خلاف لکھنا ایک ’’ٹیبو‘‘ ہے اور نتیجتاً جب یونیورسٹی کے داخلوں کا آغاز ہوتا ہے اور کالج سے تازہ نکلے لڑکے سائنس اور اَدب میں اپنی بے پناہ دل چسپی لیکن والدین کی طرف سے زبردستی دو تین سال ڈاکٹری کے پیچھے ضائع کروانے کا ذکر کرتے ہیں، تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ جان کر بے بسی مائل ہنسی بھی آئی اور دُکھ بھی ہوا کہ ڈاکٹر زدگی کا مسئلہ نیا نہیں اور ضیاء الدین کے والد کی بھی شدید خواہش تھی کہ اُن کا بیٹا ڈاکٹر بن جائے اور جب اس کا امکان محو ہوگیا، تو اُنھوں نے نہ صرف بیٹے کی تعلیم میں پہلے کی طرح دل چسپی لینے کا عمل ترک کر دیا، بل کہ مناسب مالی معاونت سے بھی باز رہیں!
جیسے پہلے کہا ہے کہ اپنا سماج پدر شاہی ہے، مصنف نے اپنے گھر کے حالات کے بارے میں لکھ کر سماج کے اکثریتی رویوں کی عکاسی کی ہے کہ کیسے لڑکیوں کی پیدایش پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا (ملالہ کی پیدایش پر بھی اُن کے دادا نے ’’ومہ‘‘ منانا ضروری نہیں سمجھا)، لڑکیوں کی خوراک، جامہ اور پیزار لڑکوں کے مقابلے میں خستہ حال ہوتے ہیں، لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مواقع کم یاب ہیں، اُن کی کوئی سماجی زندگی نہیں ہوتی، شریک حیات چننے میں بے اختیار ہوتی ہیں، دن رات گھر کے کام کاج اور مردوں کی خدمات بجا لانے میں مصروف رہتی ہیں۔
اُنھوں نے والد صاحب کا بھائیوں کے بیٹوں کی تعداد اور اُن کی اچھی مالی حالت کے سبب بد دل ہونے کا تذکرہ کرکے پختون معاشرے میں رائج باہمی حسد اور قومی شعور کی کمی کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ بے شک سب یک ساں نہیں ہوتے، لیکن پختونوں کی ابتر حالت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً انھیں قریبی پختونوں کی کام یابی پر خوش ہونا نہیں آتا اور اسے اپنی ناکامی سمجھتے ہیں۔ باچا خان ساری زندگی انھیں اس جہالت سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے اور اب منظور پشتین جیسے ان کے جان نشین یہ فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔
ملالہ کے بارے میں بھی اکثر پختونوں کے منفی پروپیگنڈے ’’طالب زدگی‘‘ اور پدر شاہیت کے علاوہ اسی حسد کا لازمی نتیجہ ہے۔ آج ہی ایک قریبی شخص کو اس کتاب میں موجود ایک تصویر دکھائی، تو اُس نے پہلے تو سوچتے ہوئے اور پھر اپنی جہالت کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے جو سوال پوچھا، وہ مَیں یہاں لکھنے سے قاصر ہوں اور جب اُس کو اُس کی جہالت سے آگاہ کیا، تو اُس کے پاس دوسرا حملہ کرنے کے لیے یہ بولنا رہ گیا کہ ملالہ اب بہت عجیب دکھتی ہیں، جس پر اُسے کہا کہ شکل تو آپ کی دیکھنے کی لائق ہوگی جب آپ کے سر سے ایک دو گولیاں آر پار گزریں گی۔
یہ مصنف کے اپنے ہی ضلعے میں ان کی بیٹی کے حوالے سے ’’ہومو پاکیئنز‘‘ کے تاثرات ہیں!
مصنف نے جہانزیب کالج، سوات میں کس مہ پرسی کی حالت میں اعلا تعلیم کے حصول، شانگلہ سے سوات ہجرت اور مینگورہ میں ’’خوشحال‘‘ نامی سکول قائم کرنے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
2:۔ دوسرے باب میں مصنف نے بہ طور والد ملالہ اور خاص طور پر اپنے بیٹوں کی انفرادی شخصیات اور اس کے ساتھ اپنے ارتقا پذیر تعلق کے بارے میں لکھا ہے۔ مینگورہ اور برطانیہ میں اُن کی کچھ یادوں کا حوالہ دیا ہے۔ جنریشن گیپ کی وضاحت کی ہے۔ برطانیہ جیسے مختلف ماحول میں اولاد کی تربیت کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا جائزہ لیا ہے۔ اُنھوں ایک بہت اہم بات کی ہے کہ اکثر والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی کبھی اولاد رہے ہیں۔ لہٰذا وہ پرانے سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے اور اولاد کے ذاتی رجحانات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُنھیں اپنی مرضی کے مطابق چلانے پر بہ ضد رہتے ہیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور اولاد کے لیے بہترین فیصلہ کرسکتے ہیں، لیکن اکثر ایسا ہوتا نہیں ہے ۔
3:۔ تیسرے باب میں مصنف نے بیوی تور پیکئی کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کیا ہے۔
جس سماج میں انسانوں کی آدھی آبادی ایک طرح کی زندگی گزار رہی ہو، جب کہ آدھی آبادی دوسری طرح، وہاں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ان دو آبادیوں کے درمیان باہمی رضامندی، سمجھ بوجھ اور دلچسپیوں کا حامل ایک خوش گوار رشتہ قائم ہوسکے؟ جہاں انسان نہیں، بل کہ مرد اور عورتیں رہتی ہوں اور اُن کے الگ الگ گوشہ ہائے حیات کے درمیان صدیوں کی مسافت ہو، جب کہ اس مسافت کو خاطر میں نہ لانے کی قیمت موت ہو، وہاں محبت نہیں ہوسکتی اور احساسِ جرم کے بھاری بوجھ تلے چوروں کی طرح آنکھ مچولی کھیلنے کو مَیں محبت یا رومانوی تعلق نہیں کَہ سکتا، چاہے شعرا اس کو لاکھ ’’رومینٹیسائز‘‘ کیوں نہ کرتے رہیں۔ ایسے میں بے پناہ نا آسودگیوں اور محرومیوں کے ساتھ شادی کے نام پر زیادہ سے زیادہ ایک ’’کمپرومائز‘‘ ہی ممکن ہے۔
بہ ہر حال، کچھ جوڑے غیر متوقع طور پر سماج میں موجود تمام تر مسائل کے باوجود ایک ایسے رشتے میں منسلک ہوپاتے ہیں جس کو پسند کی شادی کَہ سکتے ہیں اور مصنف کے مطابق اُن کی شادی اگر چہ بڑوں کی رضامندی سے ہوئی تھی، لیکن اس میں اُن کی اور اُن کی شریکِ حیات کی بھرپور رضامندی شامل تھی۔
اپنے سماج میں عمومی طور پر بیوی کو ذاتی ملکیت سمجھا جاتا ہے، جب کہ نکاح اس ملکیت کے حصول کی قانونی چارہ جوئی۔ لہٰذا جیسے اپنے گھر میں لڑکی کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل بھائیوں اور باپ کی طرف دیکھتی ہے، شادی کے بعد یہ اختیار شوہر کو مل جاتا ہے۔
تحریر کے آغاز میں رسل کی ایک کتاب کا ذکر کیا ہے اور اُس میں وہ طاقت کی جبلت کو زندگی کی سب سے بنیادی تحریک قرار دیتے ہیں۔ پدر شاہی سماج میں مردوں کو طاقت کے حصول کے لیے جب اور کوئی راستہ ہم وار نہ ہو، تو اُن کی ساری ’’فرسٹریشن‘‘ عورت کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ایسے میں شادی کی گاڑی دو پہیوں پر مشتمل تو ہوتی ہے، لیکن ایک پہیہ ٹرک کا ہوتا ہے اور دوسرا سائیکل کا، اور جب یہ گاڑی کسی طرح چلتی ہے، تو تماشے کا اچھا خاصا سامان ہوجاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اکثر لوگ دن رات دوسروں کی ازدواجی زندگی ڈسکس کرتے نہیں تھکتے۔
ضیاء الدین یوسف زئی چوں کہ ایک روشن خیال شخص ہیں، لہٰذا اُنھوں نے اپنی ازدواجی زندگی میں سماج کے دباو کے باوجود عد مساوات کو جگہ نہ دینے کی کوشش کی اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر نہ صرف خود ایک مطمئن زندگی گزارتے رہے ہیں، بل کہ اولاد کی بھی اچھی تربیت کرپائے ہیں۔ ملالہ کو ’’ملالہ‘‘ بنانے میں جتنا کردار اُن کے والد کا ہے، اُتنا ہی اُن کی والدہ کا بھی ہے۔ محدود امکانات کے باوجود سماجی خدمات، جس میں نادار طلبہ و طالبات کو مفت یا با رعایت تعلیم دلوانا شامل ہے، میں تور پیکئی کی دل چسپی جاننے کے لیے آپ کو کتاب پڑھنی پڑے گی۔
4:۔ آخری باب ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے ہے۔ ملالہ کی شروع ہی سے تعلیم میں دل چسپی، سکول کے امتحانات میں امتیازی کارکردگی، حصولِ انعامات، مستقبل کے خوابوں، طالب گردی کے خلاف مزاحمت، اس مزاحمت کی قیمت بھگتانے اور اُس کے بعد کے حالات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
اولاد کے لیے والدین کی داد کی بہت زیادہ وقعت ہوتی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے بچیاں اور بچے کسی بھی مشکل کا سامنا کرسکتے ہیں اور اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے لاکھ صلاحیتوں کے باوجود ناکام بھی ٹھہرسکتے ہیں۔ ملالہ کو والدین کی حمایت حاصل نہ ہوتی، تو وہ ملالہ کبھی نہ بن پاتی۔ عام سماج کے برعکس ملالہ کا والد کے ساتھ اتنا قریبی تعلق رہا ہے کہ اُنھیں اپنی نجی باتیں والدہ کے مقابلے میں والد کے ساتھ شریک کرنے میں زیادہ سہولت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب صبح اُٹھتے خبر سننی پڑتی کہ آج لڑکیوں کا فُلاں اور فُلاں سکول اُڑا دیا گیا، ملالہ تب بھی والد کے سنگ اس بہیمانہ سلوک کے خلاف آواز اٹھاتی نظر آتی۔ سوات میں اُس وقت 50 ہزار لڑکیاں سکولوں میں زیرِ تعلیم تھیں۔ 15 جنوری 2009ء میں ٹی ٹی پی کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگی اور آپریشن کے اختتام تک چار سو سکولوں کو اُڑا دیا گیا تھا۔
ملالہ ہمارا فخر ہیں۔ چوں کہ اَب وہ ایک بین الاقوامی سلیبرٹی بن کر امن، تعلیم اور صنفی مساوات کا استعارہ بن چکی ہیں، اس لیے ہم اگر اُنھیں تسلیم نہیں کرتے، تو اُن کے امیج کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ دنیا پر ہماری اصلیت ضرور آشکار ہوگی، جو کہ ہم نے بڑی حد تک آشکار کر بھی لی ہے۔
سوات میں 2007ء کے بعد تین چار سال تک ٹی ٹی پی کا راج رہا اور کیسا پُرتشدد اور خوف ناک راج رہا، باہر کے لوگ چاہیں بھی، تو اس کا اندازہ نہیں کرسکتے، لیکن سوات اور اس کے مضافات کے باسیوں، جنھوں نے خود سب کچھ دیکھا اور سہا ہے، کو منافقت نہیں کرنی چاہیے۔ ڈر کے اس ماحول میں ملالہ جتنی بچی اگر اور کچھ بھی نہ کرتی، فقط ایک چھوٹا سا مضمون لکھ کر شائع کرتی، تب بھی قابلِ تحسین ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ نوبیل انعام سے پہلے بھی اُنھوں نے خود کو منوا لیا تھا۔ حکومت سندھ نے لڑکیوں کے ایک سکول کو ملالہ کا نام دیا تھا۔ ٹائم میگزین نے 2013ء میں اُنھیں 100 بااثر لوگوں میں سے 15ویں نمبر پر رکھا تھا۔ اقوامِ متحدہ والی تقریر کے لیے زیبِ تن کیا گیا سکارف بے نظیر کا تھا، جو اُن کی اولاد کی طرف سے ملالہ کے لیے ایک تحفہ تھا۔ برطانیہ میں علاج کے دوران میں پوری دنیا سے نیک تمناؤں پر مشتمل ہزاروں کارڈز وصول کیے۔ حکومتِ پاکستان نے اُن کو نوجوانوں کے لیے پاکستان کا سب سے پہلا قومی امن انعام دیا اور اس انعام کا نام بھی ’’قومی ملالہ امن انعام‘‘ رکھ دیا۔ یوسف رضا گیلانی نے اُن کے کہنے پر سوات میں ایک آئی ٹی کیمپس منظور کیا۔ الغرض، اُن کا نام چہار سو پھیل چکا تھا۔
جہاں تک نوبیل انعام کا تعلق ہے، تو نوبیل کمیٹی نہ تو ’’دو جمع دو مساوی ہے چار‘‘ قسم کا کوئی اصول بناسکتی ہے اور نہ اس نے بنائی ہے۔ ممکن ہے کسی کی خدمات زیادہ ہوں، لیکن وہ پھر بھی اس انعام کے لیے منتخب نہ ہونے پائے۔ ایسے میں کوئی بھی کسی اچھے کاز کا علم بردار ہو اور اُسے نوازا جائے، تو دل کھول کر اس کی خوشی کو منالینا چاہیے۔ افسوس ہے کہ باقی دنیا نے تو ایسا ہی کیا، لیکن ملالہ کے اپنے ملک میں لوگ اب تک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ملالہ کو انعام کیوں ملا؟ ایک لڑکی نے دنیا کو بتا دیا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں دہشت گردی بہ طور کاروبار مسلط ہو اور ملک کے اکثر لوگ پڑوس میں لڑکیوں کو انسان نہ سمجھنے اور اُنھیں تعلیم سے محروم رکھنے والے تاریک ذہنوں کے تسلط کو سیلیبریٹ کرتی ہو، وہاں ملالہ جیسی بیٹیاں بھی موجود ہیں۔ اب اس پر وہ لوگ بد دل ہوسکتے ہیں جن کے اپنے دل میں کوئی طالب چھپا بیٹھا ہو۔ ہمارے صبح کو طالب، دوپہر کو ترقی پسند انقلابی اور رات کو روشن خیال بننے والے عجیب و غریب اور کنفیوزڈ طبقے کو بھی ملالہ پر اعتراض ہوتا ہے۔
اعتراض بے شک کریں، لیکن یہ بھی تو بتا دیں کہ جب مینگورہ کا گرین چوک ’’خونی چوک‘‘ بنا ہوا تھا اور کوئی ڈر کے مارے اُف تک نہیں کرسکتا تھا، تب آپ اور ملالہ جتنی آپ کی بیٹیاں اور بیٹے اس جبر کے خلاف کیا خدمات سر انجام دے رہے تھے؟ فاٹا میں افغان جنگ کے آغاز کے بعد شاید ہی اب تک لوگوں نے چین کا سانس لیا ہو، اس سلسلے میں آپ کیا کرتے رہے ہیں؟ افغانستان میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر آپ کا کیا ردِ عمل سامنے آتا رہا ہے؟ پدر شاہیت کے جراثیم ختم کرنے میں مزید کتنی صدیاں لگیں گی؟
میری طرف سے ضیاء الدین یوسف زئی اور تور پیکئی کو ملالہ جیسی بیٹی کی تربیت کرنے پر بہت داد!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔