روس اور گرم پانی

Blogger Hamza Nigar

افغانستان دنیا کے اُن چند ممالک میں ہے، جو زیادہ تر جنگ زدہ رہے۔ شاہ شجاع اور دوست محمد کی لڑائی سے لے کے اَب تک افغانستان ایک مستقل حالتِ جنگ میں رہا یا پھر یہی سے حملہ آور ہندوستان پہ قابض ہوئے۔
انگریزوں کے ہندوستان آنے کے بعد افغانستان کا خطہ روس اور برطانوی سامراج کے درمیان ’’بفر سٹیٹ‘‘ رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور پھر روسیوں کے ہاتھوں فارس کی شکست کے بعد یہ خطہ دو طاقتوں کے بیچ میدانِ جنگ بن گیا۔ روس اور برطانیہ کی اس رسہ کشی کو ’’گریٹ گیم‘‘ کہتے ہیں۔ اسی دور میں روس نے افغانستان پہ بہ راہِ راست کوئی حملہ نہیں کیا، جب کہ برطانیہ تین بار حملہ آور ہوا، جس میں دو بار حزیمت اُٹھانی پڑی۔
حمزہ نگار کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/hamza/
1917ء کے روسی انقلاب کے بعد یہ لڑائی دو نظاموں کی لڑائی بن گئی۔ ایک طرف ’’اشتراکی روس‘‘ اور دوسری جانب ’’سرمایہ دار امریکہ‘‘۔ اس لڑائی کی وجہ سے افغانستان پر شدید اثرات مرتب ہوئے۔
افغانستان نے امن ظاہر شاہ دور میں دیکھا، جو جوانی میں ہی تخت نشین ہوئے تھے۔ ظاہر شاہ کی غیر موجودگی میں داؤد خان افغانستان پر قابض ہوگیا۔ داؤد خان جو کہتا تھا کہ ’’مَیں اپنے امریکی سگریٹ روسی ماچس سے جلاتا ہوں۔‘‘ اُسے کیا پتا تھا کہ روس سے پڑھنے والے نوجوان اپنے ساتھ کمیونزم کی ماچس لائے ہیں، جو جلد اُس کی اقتدار اور دنیا سے رخصت ہونے کی وجہ بنی۔
افغانستان جس کی سرحد سوویت یونین کے ساتھ لگتی تھی، اُس وجہ سے بہت سارے سٹوڈنٹس تعلیم کی غرض سے سوویت یونین گئے۔ اُن میں سب سے معروف نور محمد ترکئی تھے، جنھوں نے افغانستان واپسی پر ’’ویخ زلمیان‘‘ نامی تنظیم بنائی۔ اس تنظیم میں کمیونسٹ سٹوڈنٹس شامل ہوئے۔
1978ء میں انقلاب کے بعد نور محمد ترکئی اقتدار پہ براجمان ہوگئے، لیکن جلد ہی حفیظ اللہ امین نے اُنھیں ہٹا دیا۔ حفیظ اللہ امین سے افغانستان اور روس کے پولیٹ بیورو کے لوگ پالیسیوں کی وجہ سے نالاں تھے۔ حفیظ اللہ امین کے روس کے ہاتھوں مارے جانے پر باچا خان نے بھی اس عمل کی تعریف کی تھی۔
حکومت اور باہر بیٹھے لوگوں نے روس کو مدد کے لیے کئی بار پکارا کہ حفیظ اللہ امین سے جان چھوٹے۔ عام تاثر یہ ہے کہ روس کی نظر پاکستان کے ’’گرم پانی‘‘ (Arabian Sea) پر تھی، جہاں سے وہ عرب دنیا کی تیل کے ذخائر پہ قبضہ کرلے گا۔
دیگر متعلقہ مضامین: 
سوویت یونین بہ مقابلہ پاکستان  
سرد جنگ کے بھوت 
سوویت یونین کے تعلیمی وظائف  
اگر ایسا ہوتا، تو روس ایک سال تک افغانستان آنے کو کیوں ٹال رہا تھا؟ خود ’’بریزنیو‘‘ نے افغانستان فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی۔ سوائے ’’پولیٹ بیورو‘‘ کے ایک رُکن ’’اینڈرپو‘‘ کے جو فوج بھیجنے پہ بہ ضد تھا۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اگر روس واقعی گرم پانی تک رسائی چاہتا تھا، تو پالیسی واضح ہوتی اور فوج بھیجنے میں ایک سال تک کا وقت نہ لگتا۔ افغانستان میں فوج بھیجنے کے پھر بھی کئی جواز تھا۔ ایک جواز 1961ء کی ’’سوویت، افغان ٹریٹی‘‘ تھا، جو بعد میں 1978ء میں پھر سے سائن کی گئی اور ’’بریزنیو ڈاکٹرائن‘‘ جس میں یہ باور کرایا گیا تھا کہ جب بھی کسی کمیونسٹ ملک کو خطرہ ہوگا، تو ہمسایہ کمیونسٹ اُس کی مدد کو آئے گا۔
25 دسمبر 1979ء کو روس نے حملہ کردیا اور 27 دسمبر کو حفیظ اللہ امین کو مار دیا اور چیکوسلواکیا میں افغانستان کے سفیر ببرک کارمل نیا حکم ران بن گیا، جس کا تعلق کمیونسٹ جماعت پرچم سے تھا۔ ببرک کارمل کے خلاف کئی گروپ بنے جو پاکستان یا بہ راہِ راست امریکہ سے رابطے میں تھے۔ اُن میں برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود، یونس خالص، رسول سیاف، گل بدین حکمت یار اور جلال الدین حقانی نمایاں تھے۔
جب پاکستان کی مدد حاصل کرنے کے لیے امریکہ نے پیسا دیا، تو ضیاء الحق نے کہا کہ یہ پیسا کم ہے اور دے دو!
کمیونسٹ روس کی ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی، بل کہ یہ زارِ روس کی پالیسی تھی، جو سی آئی اے نے کمیونسٹوں کے ساتھ جوڑی۔ کمیونسٹ روس ’’کولونیل ازم‘‘ کے خلاف تھا۔ لینن نے اقتدار میں آتے ہی وہ علاقے جو زار نے باقی ملکوں سے لیے تھے، اُن کو واپس کردیے۔ اس معاہدے کو ’’کارا خان مینی فیسٹو‘‘ کہتے ہیں۔
امریکہ جب اس خطے میں اپنا آخری اتحادی شاہِ ایران کھوگیا، تو اس کے پاس افغانستان آخری داو تھا، جس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا سامنے آیا۔ اس کے دو ہی مقاصد تھے:
ایک، ویت نام جنگ کی شرم ناک شکست کا بدلہ لینا۔
دوسرا، سوویت یونین کو کم زور کرنا۔
25000 مدرسے امریکہ کے کہنے پر بنائے گئے، جن کو جہادی ٹریننگ امریکہ کے کہنے پر ملی۔ یہی نہیں، بل کہ جہادی لیٹریچر ’’یونیورسٹی آف نیبراسکا‘‘ میں بنایا گیا۔ امریکی صدر ریگن نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ’’مجاہدین امریکہ کے بانیوں ’تھامس جیفرسن‘ اور ’جارج واشنگٹن‘ کے برابر ہیں۔‘‘
افغان جنگ کے دوران میں ڈھیر ساری من گھڑت کہانیاں بھی پھیلائی گئیں، جیسے کہ ’’پشتونوں پر کسی نے حکومت نہیں کی۔‘‘، ’’پشتونوں نے سکندرِ اعظم تک کو شکست دی ہے۔‘‘
تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ نہ صرف سکندر نے اس علاقے کو فتح کیا تھا، بل کہ اس کے جرنیل سیلیوکس نے یہاں حکم رانی بھی کی ہے۔ یہ کہانیاں محض پشتون نوجوانوں کو جہاد کے لیے ’’موٹیویٹ‘‘ کرنے کے لیے گھڑی گئی تھیں۔
جنگ کے اختتام پر احمد شاہ مسعود نے اپنے نائب عطا محمد نور کو کہا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ روسی یہاں مزید چار سال رہیں۔ کیوں کہ ہمیں صرف گویریلا جنگ آتی ہے، حکومت کرنا نہیں۔
تاریخ مسخ کرنے سے قومیں پیچھے چلی جاتی ہیں، آگے نہیں بڑھتیں۔
آج پاکستان کا گرم پانی ایک کمیونسٹ ملک چائینہ کے پاس ہے اور افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھی ایک کمیونسٹ ملک ہی کر رہا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے